ہمارے ملک میں گزشتہ دنوں بعض ایسے واقعات رونما ہوئے جس کے بعد ملک میں اظہارِ خیال کی آزادی کے بنیادی حق، ملک کی مختلف اکائیوں، تنظیمی اکائیوں کے حقوق اور وفاقی ڈھانچے کے سلسلے میں سنجیدہ شہریوں کو پہلے سے جو تشویش لاحق تھی اس میں مزید اضافہ ہو گیا۔
حکومت اور مسیجنگ ایپلیکیشن واٹس ایپ کے درمیان تنازعہ عدالت کی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہے۔ 26؍مئی کو واٹس ایپ نے نئے انفارمیشن ٹکنالوجی رہنما خطوط کو دلی کی عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ اسی دن ملک میں نئے آئی ٹی قواعد کا نفاذ ہوا۔ واٹس ایپ کا کہنا ہے کہ نئے آئی ٹی رہنما خطوط جہاں اظہار خیال کی آزادی کے لیے خطرہ ہیں وہیں فرد کی نجی راز داری کے حق کو بھی متاثر کرنے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان واقعات سے ملک میں حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے جہدکاروں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اکثر مین اسٹریم میڈیا کے تعصب اور جانب دارانہ رویے کے بعد سوشل میڈیا ہی ملک کے بے آوازوں کی آواز بن چکا تھا اور حکومت یہ چاہتی ہے کہ ان سے جانکاری کا یہ وسیلہ بھی چھین لیا جائے۔ یقیناً نئے آئی ٹی قواعد کی تشکیل میں حکومت کا مقصد سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی خرابیوں پر روک لگانا ہی ہو گا لیکن حکومتِ وقت کے اب تک کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے بنیادی حقوق کے میدان میں کام کرنے والے جہدکاروں کی تشویش بے جا بھی نہیں ہے۔ حکومت نے اس کے خلاف آواز اٹھانے والے دانشوروں اور سچائی کو منظر عام پر لانے والے صحافیوں کو داخلِ زنداں کر کے ان کے بنیادی حق کو پامال کیا۔
دوسری جانب ۲۶؍مئی کو دلی پولیس نے ٹویٹر کے دفتر پر ایک طرح سے چھاپہ مار کارروائی کی۔ مرکزی وزیرِ داخلہ کے ما تحت کام کرنے والی دلی پولیس پوچھ تاچھ کرنا چاہتی تھی کہ ٹول کٹ معاملے میں بی جے پی ترجمان سمبت پاترا کے ٹویٹ کو manipulated media کا ٹیگ کیوں لگایا گیا اور اسے ہٹا دیا جائے۔ اس پوچھ تاچھ کے متعلق ٹویٹر اور پولیس دونوں کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے۔ ٹویٹر کا کہنا ہے کہ پولیس ہراسانی کی حکمت عملی اختیار کر رہی ہے اور یہ ملک میں اظہار خیال کی آزادی کے لیے ایک خطرہ ہے۔ جب کہ پولیس اس کو سرے سے مسترد کر رہی ہے۔ اس سے قبل بھی حکومت نے ٹویٹر کو بعض لوگوں کے ٹویٹر ہینڈلس کو بلاک کرنے اور کچھ ٹویٹس کو حذف کرنے کی ہدایت دی تھی جس پر دانشوروں کے حلقے نے کافی اعتراض کیا تھا۔
ایک نظر ادھر بھی:
اسی دوران ملک کے جنوبی حصے میں واقع مرکزی زیر انتظام علاقہ لکشادیپ کے متعلق بھی یہ خبریں آنے لگیں کہ موجودہ مرکزی حکومت اس خوبصورت جزیرے کی پرامن اور ہم آہنگ فضا کو اپنے کلیت پسندانہ عزائم کے مطابق بدل دینا چاہتی ہے۔ لکشادیپ کا مرکزی زیر انتظام علاقہ وہاں کی آبادیاتی، ماحولیاتی اور معاشرتی خصوصیت کے سبب ملک کے تہذیبی تنوع کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ اپنے تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر اس تنوع کو ختم کرنے کی کوشش ملک کے لیے بڑی نقصان دہ ثابت ہو گی۔ در اصل اب تک مرکز کے زیر انتظام علاقے میں قابل آئی اے ایس افسروں کا تقرر کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن پہلی بار ایک سیاست داں کو لکشادیپ کا ایڈمِنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا۔ گجرات کے اس سابق مملکتی وزیرِ داخلہ نے وہاں کی عوام اور منتخبہ رکنِ پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر متعدد متنازعہ بلکہ آئین سے ٹکرانے والے فیصلے کر ڈالے جن سے مقامی لوگ مشتعل ہو اٹھے یہاں تک کہ حکومت کی چور دروازے سے لکشادیپ کی شناخت کو متاثر کرنے اور دھونس و دھاندلی کے ذریعے مرکز و علاقے کے مابین چل رہے خوش گوار رشتوں میں دراڑ پیدا کرنے کا نوٹس لیا جانے لگا۔ بھارت اپنی ۱۳۰ کروڑ آبادی، لسانی، ثقافتی، مذہبی اور تہذیبی تنوع کے لحاظ سے دنیا کا ایک منفرد ملک ہے۔ ملک کی سالمیت کے نام پر یہاں کی مختلف تہذیبی و ثقافتی اکائیوں کی منفرد و ممتاز خصوصیات کا گلا گھونٹنے اور واحد و یَک رنگی تہذیب کو مسلط کرنے کی کوشش دراصل ملک کو مستقبل میں ایک بڑے خطرے سے دوچار کرنے والی ہے۔ اس تنوع کو ختم کر کے کسی ایک رنگ میں رنگنے کی یہ کوشش ملک میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ حکومت کی جانب سے ملک کی اکثریت کو بہت دنوں تک اپنے خوشنما نعروں کے فریب میں مبتلا کر کے نہیں رکھا جا سکتا۔ موجودہ حکومت طاقت کے زعم میں اگر یہ غلطی کر رہی ہے تو وہ جان لے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ موجودہ حکومت اپنی عددی طاقت کے گھمنڈ میں جس طرح کے اقدامات کر رہی ہے اس نے مرکز و ریاستوں کے درمیان تعلقات کا مسئلہ پہلے ہی پیدا کر رکھا ہے۔ بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور اس کا آئین نہ پوری طرح وحدانی ہے اور نہ ہی مکمل وفاقی بلکہ یہ دونوں کا ایک امتزاج ہے۔ ملک کا آئین یہاں کا سب سے اعلیٰ قانون ہے۔ یہ ملک میں جمہوریت اور نظام حکمرانی کے بنیادی ڈھانچے کی حدود اور عملی میکانزم کو طے کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مملکت کی مختلف اکائیوں اور اداروں کے اختیارات، فرائض، ذمہ داریوں اور ان کے باہمی تعلقات کا تعین بھی آئین ہی میں کیا گیا ہے۔ ملک کا آئین جہاں ملک کے شہریوں کے لیے بعض متعین بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے وہیں انتظامی طور پر ریاستوں اور مرکز کے درمیان کاموں کی تقسیم کے ذریعے حدودِ کار کا بھی تعین کر دیا گیا ہے۔ پچھلے عرصے میں مرکزی حکومت کی جانب سے ریاستوں کے اپنے میدانوں میں غیر ضروری مداخلت کا جو رویہ رکھا گیا اس کی وجہ سے ملک کا وفاقی ڈھانچہ کمزور ہونے لگا ہے۔ جس پر مختلف ریاستی حکومتوں کی جانب سے آوازیں بھی اٹھنے لگی ہیں۔ ملک میں جو علاقائی تنوع ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہی آئین کے معماروں نے یہاں کے لیے ایک نیم وحدانی اور نیم وفاقی نظام تجویز کیا تھا تاکہ مختلف اکائیاں اپنی آزادی و اختیار کا استعمال بھی کر سکیں اور مرکز کے ساتھ وابستہ رہ کر ایک ملک بننے کا احساس بھی ان میں باقی رہ سکے۔ اگر موجودہ حکومت اپنے غلط طرز عمل سے اس ڈھانچے کو کمزور کرتی ہے تو وہ دراصل ملک کے ساتھ دوستی نہیں بلکہ دشمنی کر رہی ہے۔
ملک کے عوام کو موجودہ حکومت کے ان رویوں کا سخت نوٹس لینا چاہیے اور اپنی اپنی سطح پر ان کے خلاف آواز بھی اٹھانا چاہیے کیوں کہ یہی ملک سے محبت اور اس سے حقیقی تعلق کا تقاضہ ہے۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 29 مئی تا 05 جون 2021