اداریــــہ

سیاسی قلا بازیاں نہیں کام کیجیے

 

’’سب کا ساتھ سب کا وِکاس سب کا وِشواس‘‘ کے انتخابی نعرے پر ہر طرف باتیں کی جاتی رہی ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی مختلف اسکیموں کو اسی نعرے کی تکمیل کے طور پر مشتہر کیا جاتا رہا کہ ہے۔ جَن دَھن اسکیم کے تحت بغیر کوئی رقمی ڈپازٹ کے کھاتے کھلوانے کو موجودہ مرکزی حکومت اپنی ایک بڑی حصولیابی کے طور پر پیش کرتی آئی ہے۔ ان کے جائزے بتاتے ہیں کہ بیش تر اکاؤنٹ ہولڈرز ان کھاتوں کا دوبارہ استعمال کرنے کے بھی قابل نہیں رہے۔ ان میں سے کئی لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے یہ سوچ کر اپنے نام سے کھاتے کھلوائے تھے کہ وزیرِ اعظم مودی اپنے وعدے کے مطابق ان کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپے جمع کروائیں گے۔ ٹھیک اُسی طرح جس طرح گھریلو گیس کے کنکشن تو دلوا دیے گیے لیکن ان میں سے بہت سارے خاندانوں کو دوبارہ اپنا سلینڈر بھروانے تک کی سَکت نہیں تھی۔
اب جب کہ ریزرو بینک آف انڈیا کی سفارش پر حکومت نے ٩٤ سالہ قدیم لکشمی ولاس بینک پر ۱۷ نومبر کو روک (موراٹوریم) لگائی تو کھاتہ داروں کے متزلزل ہوتے اعتماد کا ایک اور دور دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک لاکھ شیئر ہولڈرز ٥٦٣ شاخوں اور ۹۷۰ اے ٹی ایم والے اس کوآپریٹیو بینک کے سنگاپور کے ’ڈی بی ایس بینک‘ کے ما تحت ملک میں چل رہے ’ڈی بی ایس بینک انڈیا‘ کے ساتھ انضمام کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے بدحال بینک کے کھاتہ داروں کو محض تین دنوں کی مہلت دی کہ وہ دوسرے بینک میں انضمام پر اپنے اعتراضات داخل کریں۔ تمل ناڈو کے اس بینک کو پچھلے کچھ عرصے سے خسارے اور بد انتظامی کے علاوہ جعلی قرضوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ لکشمی ولاس بینک نے پچھلے برسوں میں جیٹ ایئرویز، ریلائنس ہاؤسنگ فائنانس، نِرَو مودی، کافی ڈے، ریلی گیئر اور کاکس اینڈ کنگس جیسی کمپنیوں اور افراد کو قرضے دے رکھے ہیں۔ اس پر پھر سوال اٹھنے لگے کہ اصل ضرورت خرد برد کے لیے ذمہ دار افراد کی جانچ اور خطاکاروں کی نشاندہی کرنے کی ہے نہ کہ جلد بازی میں کسی نجی بینک کے ساتھ انضمام کرنے کی۔ اگر ایسا کرنا ضروری بھی تھا تو یہ انضمام کسی سرکاری بینک میں کرنا چاہیے تھا جہاں بینک سے وابستہ لاکھوں افراد کے مفادات زیادہ محفوظ رہتے، جیسا کہ سابق میں بعض ڈوبتے بینکوں کو بچانے کے لیے بڑے سرکاری بینکوں کے ساتھ ان کا انضمام عمل میں لایا گیا۔ کمیونسٹ لیڈر ڈی راجا نے اس پر بجا طور پر سوال کیا ہے کہ آر بی آئی لکشمی ولاس بینک پر موراٹوریم عائد کرنے کے محض ایک گھنٹے بعد ہی ایک غیر ملکی ڈی بی ایس بینک میں اس کو ضم کرنے کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ کیا آر بی آئی نے پہلے سے یہ سارے معاملات طے کر رکھے تھے؟ اتنی جلد بازی کے پیچھے کیا محرکات ہو سکتے ہیں؟ سوائے اس کے کہ حکومت بین الاقوامی سرمایہ داروں کو لُبھانے کے لیے اپنے ایک بینک کو غیر ملکی بینک کے حوالے کر رہی ہے؟
۲۰ نومبر کو آر بی آئی نے اپنے ایک اندرونی گروپ کی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے نجی بینکوں کے پروموٹر کے طور پر کام کرنے کی اجازت بڑے کارپوریٹ اور صنعتی اداروں کو مل گئی ہے۔ بلکہ غیر بینک کاری مالیاتی کمپنیوں (NBFCs) کو بھی بینک کاری کے لائسنس جاری کیے جا سکیں گے۔
مالیاتی شعبے کو طاقتور بنائے بغیر ملک کی معیشت کو طویل مدت تک ترقی کی راہ پر گامزن رکھنا ممکن نہیں جس کے لیے بینک کاری نظام میں پختگی لانا لازمی ہے۔ اسی سال فروری میں مرکزی کابینہ نے بینکنگ ریگولیشن ایکٹ (١٩٤٩) میں ترمیم کر کے ملک کے سولہ سو سے زائد کوآپریٹیو بینکوں کو سوسائٹی رجسٹرار کے دائرے سے نکال کر آر بی آئی کی زیر نگرانی لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے پر تب بھی سوالات اٹھے تھے اور اس اقدام کے باوجود آر بی آئی، بینکوں کی ناقص کارکردگی کو روکنے میں ناکام ہی رہا ہے۔ قریب قریب ہر ماہ آر بی آئی کسی نہ کسی بینک کو ڈوبنے سے بچانے کے نام پر اپنی تحدیدات (Restrictions/ Moratorium) کے تحت لا رہا ہے۔ اس کے باوجود بینکوں کے گھاٹے میں جانے، ڈوبنے اور دوسرے بینکوں میں انضمام کا سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ جس طرح ملک کے ایک بڑے پنجاب نیشنل بینک کے علاوہ کثیر ریاستی شاخوں والا پنجاب اینڈ مہاراشٹر کوآپریٹیو بینک (پی ایم سی، پونا)، سی کے پی (ممبئی) وغیرہ کے کھاتہ داروں نے دن رات قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنے خون پسینے سے کمائے ہوئے جمع کردہ سرمایہ کو نکالنے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔ روتے بلکتے کھاتے داروں کے وہ مناظر ملک نے ٹی وی اسکرین پر دیکھے ہیں۔ مالی خرد برد، سفارشوں کی بنیاد پر قرضہ جات کی فراہمی، سیاسی مداخلت اور اثاثے کی قیمتوں کو لاپروائی سے تشخیص کرنے کا عمل، یہ وہ وجوہات ہیں جو مالیاتی اداروں کے ڈوبنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ پچھلے دو برسوں کے دوران متعدد کوآپریٹیو بینکوں کے کھاتوں کی جانچ پڑتال تک نہیں کی جا سکی کیوں کہ ان بینکوں کی نگرانی کے ضوابط میں صراحت نہیں پائی جاتی کہ ریاستی و مرکزی حکومت یا آر بی آئی کے کیا کچھ اختیارات ہیں۔
حکومت نے نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور بینکوں کے نظام میں اصلاحات جیسے اقدامات کے لیے یہ دلائل دیے تھے کہ انہیں کالا دھن، دہشت گردی، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کو بند کرنے کے لیے نافذ کیا جا رہا ہے۔ لیکن کیا کوئی آج دعوے سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے فلاں اور فلاں مقصد حاصل ہوا ہے؟ آج سیاسی جملے بازی بند کرنے اور حکمرانی کے تقاضے پورے کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے مختلف اداروں پر سے شہریوں کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ انتخابی کامیابیوں کی آڑ میں خوش گمانی میں نہیں رہا جا سکتا۔ عوام کے آنسو پونچھنے کی ضرورت کورونا کے زمانے میں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔
سیاسی قلا بازیاں، متزلزل عوامی اعتماد و مالی فراڈ کے بیچ این پی اے یعنی غیر کارکرد اثاثے، جن کو ڈوبا ہوا قرض کہنا زیادہ درست ہوگا، ان سب کے باعث اب مالیاتی اداروں کے اوپر سے بھی بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ آئے دن بینکوں، مزدوروں اور اب کسانوں کی ہڑتالوں نے ملک کی معیشت کو مزید خسارے میں ڈالنے کا کام کیا ہے۔ لیکن سیاست داں ہیں کہ ’’گائے کابینہ‘‘، مبینہ ’’لَو جہاد‘‘ اور کامن سِول کوڈ جیسے غیر حقیقی ایشوز میں عوام کو الجھائے رکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ خود حکمراں بی جے پی کے راجیہ سبھا رکن ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے ۲۲ نومبر کو ایک ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی معاشی پالیسیوں پر مکمل نظرِ ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا حکومت اپوزیشن کی نہ سہی، خود اپنوں کے مشورے پر بھی کان دَھرنے کو تیار نہیں ہے؟ غیر ملکی زرِ مبادلہ کا ذخیرہ ریکارڈ مقدار میں موجود ہونے کے دعوے ایک طرف اور اندور میں اسی ماہ امرود کے ٹرک سڑک کنارے یا کوڑے دان میں ضائع کرنے کے مناظر دوسری طرف! ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب دودھ، پیاز کو مناسب بازاری نرخ نہ ملنے کے سبب کچرے میں پھینک دیا گیا تھا۔ بے روزگاروں کی روز بروز بڑھتی ہوئی فوج کو اگر قابو نہیں کیا گیا تو ڈر ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک میں کہیں خانہ جنگی کی صورتحال نہ پیدا ہو جائے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020