اداریــــہ
’’ہم سیاسی پارٹی ہیں، کوئی سادھو سنت تھوڑی ہیں! ‘مرکزی کابینہ کے ایک اہم وزیر اور اقتدار کی نکیل جس کے ہاتھوں میں ہے اس آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر ناگپور کی نمائندگی کرنے والے نتن گڈکری نے جب اپنے سیاسی فلسفہ کو مذکورہ الفاظ میں بیان کیا تو نہ کسی کو حیرت ہوئی اور نہ کوئی ناراض ہوا۔ البتہ تین دہائیوں تک اتحاد میں رہنے کے بعد بی جے پی سے ناطہ توڑ لینے والی جماعت شیو سینا کے ترجمان ’سامنا‘ اخبار کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے، چنانچہ اس نے مرکز پر بجٹ کے ذریعہ ’’گندی سیاست‘‘ کا نیا چلن شروع کرنے کا سنگین الزام عائد کر دیا ہے۔ اپنے ایک اداریہ میں اخبار سامنا نے لکھا کہ مغربی بنگال، آسام، تمل ناڈو، پڈوچیری اور کیرالا میں اسمبلی انتخابات کی سرگرمیاں زوروں پر ہیں اور وزیر خزانہ نے ان ریاستوں کے لیے بجٹ میں بڑے پیکیجس اور منصوبے تجویز کیے ہیں۔ ان ریاستوں کو زیادہ رقومات فراہم کرنا گویا انہیں ’’رشوت‘‘ دینے کے مترادف ہے۔
ایک بڑے اور قدیم ترین ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اسی تناظر میں جب نتن گڈکری سے یہ سوال کیا گیا کہ جن ریاستوں میں انتخابات منعقد ہونے والے ہیں ان ہی پر مرکز کیوں نظرِ عنایت کرتا ہے، کیا انتخابات جیتنے کے لیے ہتھیار کے طور پر بجٹ کا استعمال کرنا درست ہے؟ تو اس کے جواب میں مرکزی وزیر نے کہا کہ ہم پورے ملک میں کام کر رہے ہیں اور الٹا یہ سوال کیا کہ انتخاب جیتنے اور ووٹ لینے کے لیے کام کرنے میں کیا اعتراض ہے؟ ہر سیاست داں اپنے اگلے انتخابات کے بارے میں سوچتا ہے، جمہوریت میں سبھی ایسا کرتے ہیں اس میں کیا غلط ہے؟ ہم نتن گڈکری کی صاف گوئی کی ستائش کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ویسے بھی وہ بہت منھ پھٹ اور صاف گو لیڈر کے طور پر معروف ہیں۔
دوسری طرف ملکی سیاست کی ایک عبقری شخصیت شرد پوار نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ آسام میں ہو سکتا ہے کہ بی جے پی اقتدار میں واپس آ جائے لیکن باقی پانچ ریاستوں میں دیگر علاقائی پارٹیاں ہی حکومت بنائیں گی۔ خاص طور پر مغربی بنگال کے بارے میں جس طرح کی سروے رپورٹس سامنے آ رہی ہیں اور زمینی حقائق کو پیش کرنے والے صحافی اور تجزیہ نگار جن باتوں کو سامنے لا رہے ہیں ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ممتا بنرجی بالآخر اپنی حکومت بچا لینے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ ادھر تمل ناڈو میں بی جے پی کی حلیف پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے نے کھلے عام اعلان کر دیا کہ وہ این آر سی کو تمل ناڈو میں نافذ نہیں کرے گی بلکہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے گی۔ ان کے اس بیان پر اچانک بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی بی جے پی کو صفائی دینی پڑی کہ وہ اپنے اتحادی کو اپنے ایجنڈے پر لانے کی کوشش کرے گی۔ وزیر اعلیٰ پلانی سوامی نے بھی بڑی صاف گوئی سے بیان دیا کہ ان کی پارٹی نظریاتی طور پر بی جے پی سے یکسر مختلف ہے لیکن صرف اسمبلی انتخاب جیتنے کی حد تک بی جے پی کے ساتھ اتحاد بنائے ہوئے ہے۔ تمل ناڈو کے سیاسی افق پر نئے ابھرتے سیاست داں کمل ہاسن نے بھی اپنے ایجنڈے میں دراویڈی روایات و نظریات کی پاسداری کا اعلان کیا ہے۔ ان باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تمل ناڈو میں ہندوتوا نظریہ کی دال گلنے والی نہیں ہے۔
ادھر شمال مشرقی ریاست آسام میں بی جے پی انتہائی متنازعہ قانون سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کا نام تک زبان پر نہیں لایا رہی ہے۔ آسام کے سابق وزیر اعلٰی پرفول کمار مہنتا نے خود اس بات اعلان کر دیا ہے کہ ان کی پارٹی آسام گن پریشد سی اے اے کو آسام میں نافذ کرنے کی مخالفت کرے گی اور یہ قانون آسام معاہدے کے بھی خلاف ہے۔
دوسری طرف اے آئی یو ڈی ایف کے سربراہ مولانا بدر الدین اجمل کی کسی پرانی تقریر میں کتر بیونت کر کے شر انگیزی کی گئی کہ مولانا آسام میں اسلامی حکومت قائم کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور تمام ہندوؤں کو ختم کرنے کا منصوبہ ذہن میں پالتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا ہر سطح کی سنگھی ٹولیوں نے اس جعلی ویڈیو کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور وابستہ و ناوابستہ تمام پلیٹ فارموں کا استعمال کرتے ہوئے اس کو خوب پھیلایا۔ مغربی بنگال میں مقامی اور علاقائی جذبات اور احساسات کی پروا نہ کرتے ہوئے ’’جئے شری رام‘‘ کا نعرہ زبردستی لگوایا جا رہا ہے۔ مختلف حلقوں سے سیاست دانوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کی ہوڑ میں بی جے پی نے اخلاقی اور سیاسی برتری کا پاس و لحاظ بھی نہیں رکھا۔ الٹے ان ہی کی ایک لیڈر ڈرگس کے ساتھ پکڑی گئی اور اس نے بھی ایک مرکزی وزیر پر انگشت نمائی کی۔ چیف منسٹر ممتا بنرجی کے انتہائی قریبی کئی لیڈر آج بی جے پی کی اعلٰی قیادت کے منظورِ نظر بنے ہوئے ہیں جن کے نام کبھی بد نام زمانہ شاردا چٹ فنڈ اسکام کی تفتیش کے دوران خود بی جے پی نے اچھالے تھے۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ریاست کی وزیر اعلٰی وھیل چیئر پر بیٹھ کر انتخابی تشہیر میں حصہ لینے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ ان کی جسمانی زخمی حالت کے لیے ذمہ دار چاہے کوئی بھی ہوں لیکن ملک کے پورے سیاسی عمل کو زخم خوردہ بنانے میں کوئی بھی سیاست داں کسی سے بھی پیچھے نہیں ہے۔ قومی اور علاقائی سیاسی جماعتیں وقت آنے پر انتخابی عمل کو اپنے حق میں کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے سے ذرا بھی نہیں چوکتیں لیکن جب خود ان ہتھکنڈوں کا شکار ہو جاتی ہیں تو اپنی پارسائی کا ڈھنڈورا پیٹنے میں لگ جاتی ہیں۔ در اصل یہی ہے وہ سیاسی دیوالیہ پن ہے جو ملک کی سیاست کو گُھن کی طرح کھائے جا رہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کا گراف دنیا کی نظر میں مسلسل گرتا جا رہا ہے۔ جسے سنبھالنے کے لیے آج اقدار پر مبنی سیاسی ایجنڈے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 21 مارچ تا 70 مارچ 2021