لوک سبھا سکریٹریٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ دو سیشن والے بجٹ اجلاس کے پہلے مرحلے میں لوک سبھا میں 99.50 فی صد کام کاج درج کیا گیا۔ حکومت اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے کہ 29 جنوری کوصدر جمہوریہ ہند رامناتھ کووِند کے خطاب سے شروع ہوئے بجٹ سیشن کی کاروائی 13 بروری تک بحسن و خوبی چلائی گیی۔ پہلے دن معاشی سروے پیش کیا گیا اور یکم فروری کو بجٹ دستاویز پیش کرنے کے بعد 12 فروری کو وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے راجیہ سبھا میں اور آخری دن لوک سبھا میں بحث پر اپنا جواب دیا۔ جس میں انھوں نے حزبِ اختلاف کے دعوؤں کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت غریبوں کے لیے کام کرتی ہے نہ کہ ’قرابت دار اور داماد‘ کے لیے۔
کورونا کی آڑ میں حکومت نے عوام کو راحت پہنچانا تو دور، ان کی تحریکوں کو کچلنے ہی کا کام کیا۔ یہاں تک کہ ایوانِ پارلیمان تک کو اپنے تنگ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا گیا۔ کابینہ کے وزراء اگر حزب اختلاف اور اپنے مخالفین کے لیے بے ہودہ الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے دیکھے گئے تو در اصل ان کو تحریک خود وزیراعظم کے ان سیاسی جملے بازیوں سے ملی جس کے بارے میں متحدہ کسان مورچہ نے کہا کہ ’’وہ ڈپلومیٹک گالیاں دے رہے ہیں‘‘اور ہمیں آندولن جیوی بن کر عوام کے مفادات کے تحفظ میں آواز اٹھانے پر فخر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت سر جوڑ کر پارلیمان میں ملک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے راستے تلاشنے کے لیے تمام طبقات کو اعتماد میں لیتی، اس لگائے بیٹھے کسانوں اور کورونا وبا سے متاثر ہوئے شہریوں کی زندگیوں میں امید کی کرن پیدا کرنے کا سامان کرتی لیکن ایسا کچھ کچھ نہیں ہوا۔ وزیراعظم مودی نے راجیہ سبھا میں کسانوں کے لیے’’طفیلی احتجاجی‘‘ جیسے الفاظ استعمال کیے جن کو کسان مورچہ نے’’کسانوں کی توہین‘‘ قرار دیا۔ میڈیا کو چاہیے تھا کہ وہ اتراکھنڈ کے چمولی میں گلیشئر کے 154 انسانی جانوں کی تلاش و حفاظتی انتظامات یا ان کے اتلاف کی ذمہ داری متعین کرنے والے سوالات اٹھاتے لیکن چوبیس گھنٹوں میں ان کو نیا ایجنڈہ فراہم کرا دیا گیا اور پھر وہی ہوا جو حکومتِ وقت کو رسوائی سے بچانے کے لیے کرنا تھا۔ یہ وہ بجٹ ہے کہ جس کے بارے میں حکومت یہ دعویٰ کر رہی تھی کہ یہ ’’صدی کا انوکھا بجٹ ہوگا۔‘‘ لیکن وہ ٹائیں ٹائیں فش نکلا۔ در اصل ہونایہ چاہیے تھا کہ وزیر خزانہ نرملا کی جگہ بے بس عوام ہوتے۔ لاک ڈاؤن، بے روزگاری، چرمراتی معیشت اور کسی امید و سہارے کے بنا جی رہے عوام کو صدی کا امید دلانے والا یہ بجٹ آسمان سے اتر کر نیچے آتا اور غموں کا مداوا کرتا۔ کورونا سے جوجھ رہی معیشت کے لیے مہمیز کا کام کر سکے ایسا کچھ نہ بھی ہو تب بھی اس بجٹ میں جی ایس ٹی، نوٹ بندی اور بے ڈھنگے لاک ڈاؤن کی طویل مار جھیلنے والی بھارتی معیشت کو خود کفیل (آتم نِربھر) بنانے پر کافی زور دیا گیاہوتا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ کورونا وبا اور حکومت کی بے توجہی دونوں کی مار جھیلنے کے باوجود جس زرعی شعبے نے نہایت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس کو سنبھالنے کے لیے اس میں انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے پر اکتفاء کیا گیا چہ جائیکہ سڑکوں پر اترے کسانوں کو مطمئن کرنے کے بعد واپس کھیت کھلیانوں میں بھیجا جاتا۔
فلاحی مملکت کے تانے بانے کو مستقبل میں تہ و بالا کر دینے والی پالیسیاں اور فیصلے اس بجٹ کی خاصیت ہے۔ جس میں نج کاری اور سرکاری کمپنیوں اور املاک کو بیچ بیچ کر سرمایہ کا جُگاڑ کرنے کی کَسرت حکومت نے کی ہے۔ جس کا مرکز و محور عام انسان نہیں ہے بلکہ ملک اور بیرونی ملک کا سرمایہ دار طبقہ ہی ہے۔ تبھی بجٹ سے بڑی آس لگایے بیٹھے سٹاک مارکیٹ کے سینسیکس نے یک لخت اچھال دیکھا، حالانکہ سینسیکس کی مشینی لکیروں سے ملکی معیشت کی مکمل و حقیقی صورت گری ممکن نہیں۔ ادھر بڑی کمپنیوں کے چہروں پر چَمک دیکھی گئی کیونکہ ہماری ’دیش پریمی‘ سرکار کے مال کو خریدنے کے لیے یہی ’بنیا‘ آگے آنے والے ہیں۔ لیکن مہووا موئترا نے اسی ایوان میں گرج دار انداز میں بتایا کہ ایسا کرنے میں کوئی بہادری نہیں بلکہ اقتدار کی پشت پناہی سے حاصل کردہ ’ہمت‘ پانے والے ہی دراصل ’بزدل‘ ہوتے ہیں۔ موئترا کو ان کی تقریر کی بناء پر شیو سینا نے’’بنگال کی شیرنی‘‘ کا لقب دیا۔ دیگر ممبران نے بی جے پی کو’’رکت جیوی‘‘(रक्त जीवी) تک کہہ ڈالا۔ پارلیمان کے اندر اور باہر حکمراں جماعت، حزبِ اختلاف اور عام و خاص کی جانب سے ایک دوسرے کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک القاب استعمال کیے جاتے رہے جن سے بی جے پی خود اپنے دام میں پھنس رہی تھی۔
پارلیمنٹ سیشن چل رہا تھا اور بی جے پی کی انتخابی مہم پر رتی بھر بھی اثر نہیں پڑے رہا تھا۔ وزیراعظم، وزیر داخلہ اور پارٹی صدر مغربی بنگال، اوڈیشہ سے لے کر تمل ناڈو تک اپنے آپ کو مصروف کار رکھے ہوئے تھے۔ فرصت نہیں تھی تو بس دلی کی سرحدوں پر ڈیرہ ڈالے کسانوں سے ملنے اور بات کرنے کی ! عین اس وقت جب ان کی قسمت کا تعین کرنے والا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا جا رہا تھا تب، دلی پولیس سڑکوں پر کیلیں ٹھونک کر کسانوں کو دلی میں داخل ہونے سے روکنے کا سامان کر رہی تھی۔ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے دلی کی گھیرابندی کیے بیٹھے غیّور کسانوں کی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا گیا۔ احتجاجیوں کو نہ فوری اور نہ طویل میعادی راحت ملنے والی ہے۔ بھارت میں سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والا شعبہ زراعت پھر ایک بار سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ روزگار بڑھانے والی معاشی ترقی جس سے غریب اور محروم طبقات تک ترقی کے پھل پہنچتے ہوں، جملے بازی کی نذر ہو گیا۔ وہیں بجٹ اجلاس کے پہلے مرحلے میں حصولیابی دکھانے کے لیے اگر حکومت کسانوں کے ساتھ ہمدردی اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتی تو ایک قابلِ فخر بات ہوتی۔ ووٹر کے اوپر کارپوریٹ کے مفادات کو ترجیح دینے کا کام ’’ریفارم‘‘ یعنی ’اصلاحات‘ کے خوب صورت لبادہ میں انجام دیا جا رہا ہے۔
معمول کے حالات سے ہٹ کر غیر معمولی فیصلے کرنے کا ایک بڑا موقع حکومت نے شاید گنوا دیا ہے اور قول و فعل سے یہی جتا رہی ہے کہ ’پر نالہ تو وہیں گرے گا جہاں وہ چاہیں گے‘۔ بات چیت وہی ہوگی جو ان کے حق میں منتج ہوگی۔ اس سیشن نے پھر ایک بار بتا دیا کہ پارلیمان کے ایوانوں کو چوپال یا چائے پے چرچا کا روپ دے دیا گیا ہے جس میں فلاح و بہبود اور باشندوں کے حق میں فیصلے کم اور سیاسی و گروہی اغراض پر توجہ زیادہ رکھی جاتی ہے۔ مجاہد آزادی بال گنگادھر تلک نے 1896 کی پلیگ وباء کے زمانے میں انگریزی حکمرانوں کی من مانی پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے اخبار’’کیسری‘‘میں لکھا تھا کہ ’’صاحب اقتدار کو عوام سے بدلہ لینے والا رویہ زیب نہیں دیتا۔‘‘ تب تلک پر وہی’’غداری‘‘ کا مقدمہ چلایا گیا تھا جو آج دشا روی، شرجیل عثمانی اور درجنوں بلکہ سینکڑوں جہد کاروں کے خلاف قایم کیا جا رہا ہے۔
ایک بڑے کانگریسی رہنما کی راجیہ سبھا سے سبک دوشی پر رونے دھونے کے مناظر نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ مد مقابل خیمے کے اندر سیندھ ماری کیسے کی جاتی ہے اور دوسرے خیمے میں کیسے چارہ ڈالا جا رہا ہے؟ جمہوریت پر دیسی طرز کے فاشزم کے تاریک بادل اس سیشن میں ابھر کر آئے ہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021