ہمارا ملک اس ہفتہ اپنا 72 واں یوم جمہوریہ منانے جا رہا ہے۔ ماضی قریب میں دنیا نے جن نظریات کو اپنے مسائل اور دکھوں کا مداوا سمجھ کر اختیار کیا تھا ان میں قومی ریاست کے علاوہ جمہوری نظام بھی ایک اہم سیاسی نظریہ تھا۔ دنیا کے اکثر ممالک کا نظام حکومت اور سیاست انہی دو نظریات کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ انہی نظریات میں لوگوں نے اپنے دکھوں اور مسائل کا حل دیکھا تھا۔ چنانچہ انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد ہمارے ملک میں بھی یہی نظام قائم ہوا۔ اس طرح ہمارا ملک اپنی آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک قرار پایا۔ جن امنگوں، آرزوؤں اور توقعات کے ساتھ ملک کے اولین معماروں نے بھارت کو ایک جمہوری ملک بنانے کی کوشش کی تھی وہ بہت پہلے ہی سے بکھرنے لگے تھے اور اس کے خاتمے کے لیے رہی سہی کسر موجودہ حکومت پوری کر رہی ہے۔ ملک میں جمہوریت کی حالت زار کا اندازہ اکنامسٹ انٹلیجنس یونٹ کی جانب سے 2019 میں جاری کیے گئے جمہوریت کے عالمی انڈیکس سے کیا جاسکتا ہے جس میں دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک 51 ویں پوزیشن پر آچکا ہے۔ جب کہ 2018 کے اشاریے میں اس کا مقام 41 واں تھا۔
مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ جمہوریت کے کلیدی ادارے ہیں۔ ان پر عوام کا اعتماد ہی جمہوریت کو اپنی اصل پر باقی رکھ سکتا ہے۔ حکومت اگر محض ایوان کی عددی اکثریت کی بنیاد پر ایسے قوانین وضع کرتی ہے جن سے شہریوں کے آئینی حقوق پامال ہوتے ہیں تو اس اہم ادارے پر سے عوام کا اعتماد لازماً کمزور ہوگا۔ اس وقت جب کہ پورا ملک یوم جمہوریہ منانے کی تیاریوں میں مصروف ہے دارالحکومت کی سرحدوں پر سخت سردی میں ہزارہا کسان موجودہ حکومت کے بنائے ہوئے زرعی قوانین کے خلاف بر سر احتجاج ہیں۔ اس سے قبل بھی حکومت کے کئی فیصلوں سے نہ صرف جمہوریت کی روح مجروح ہوئی ہے بلکہ آئین کی رو سے شہریوں کو حاصل حقوق بھی بری طرح پامال ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کے مختلف طبقات بالخصوص اقلیتوں میں اپنے بنیادی حقوق کے حوالے سے شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔
بھارت کے آئین میں ملک کے لیے ایک نیم وفاقی اور نیم وحدانی ڈھانچہ تجویز کیا گیا ہے اس کو بدلنے کی کوئی بھی کوشش اس کی مختلف اکائیوں میں عدم اعتماد کی فضا پیدا کرے گی۔ موجودہ حکمراں پارٹی اپنے نظریے کے مطابق اس ڈھانچے میں ایک ملک ایک انتخاب جیسی بعض تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے تاکہ ان کے کلیت پسندانہ عزائم کی تکمیل ہو سکے۔ ان تبدیلیوں سے مختلف ریاستی اکائیوں کے حقوق متاثر ہو سکتے ہیں چنانچہ ان ایشوز کے متعلق بعض جنوبی ریاستوں سے آوازیں بھی اٹھنے لگی ہیں۔
ملک کی عدلیہ بھی اپنے بعض فیصلوں سے اسی راہ پر چلتی نظر آ رہی ہے۔ عدل وانصاف جمہوریت کا ایک اہم اور بنیادی عنصر ہے۔ جس ملک میں مختلف طبقات نا انصافی و محرومی کے احساس میں مبتلا رہیں گے وہاں جمہوریت کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ تمام شہریوں کے لیے انصاف کی فراہمی ہی جمہوریت کا اہم ہدف ہونا چاہیے۔ ملک کا آئین اس لیے بنا تھا کہ ملک کسی برسر اقتدار پارٹی کے نظریے یا اکثریت کی خواہشات کے تحت نہ رہے بلکہ سب کے لیے انصاف اور عوامی فلاح وبہبود کی پالیسی اور جمہوری اقدار کے مطابق چلے۔ لیکن حکومتوں کے غلط فیصلوں اور حکمرانوں کے آمرانہ طرز عمل کی وجہ سے جمہوری نظام کے ان کلیدی اداروں پر سے عوام کا اعتماد بتدریج اٹھتا جا رہا ہے۔ میڈیا کسی بھی ملک میں جمہوریت کا محافظ اور پاسبان ہوتا ہے۔ میڈیا اسٹڈیز گروپ کے چیئرمین انیل چماڑیہ بھارتی میڈیا کے متعلق کہتے ہیں کہ ‘اس وقت ملک میں ایک بھی میڈیا ہاؤس ایسا نہیں ہے جو اپنے جمہوری ہونے کا دعویٰ کر سکے۔ بھارت کے لیے جمہوریت اس لیے اہم ہے کہ یہاں کئی مذہبوں، زبانوں اور مختلف ثقافتوں کے الگ الگ رنگ پائے جاتے ہیں اور میڈیا اس تنوع کو اس کے صحیح رنگ میں پیش کرنے کا واحد ذریعہ ہے لیکن آج کا میڈیا جمہوریت کی صحافت کے بجائے کارپوریٹس اور ایک مخصوص رنگ کی صحافت کی علامت بن چکا ہے اور وہ جمہوریت کی پاسبانی کرنے کے بجائے کارپوریٹ کمپنیوں اور ایک مخصوص ثقافت کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ اس طرح بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو ملک میں اس وقت جس طرح کی جمہوریت قائم ہے یہ وہ جمہوریت نہیں ہے جس کا خواب دستور کے معماروں نے دیکھا تھا۔
جمہوریہ بننے کے 7 دہائیوں بعد بھی اگر ملک میں مستحکم جمہوری نظام قائم نہیں ہوسکا ہے تو ملک کے اہل خرد کو دیکھنا چاہیے کہ آخر پانی کہاں مر رہا ہے اور ہمارے ملک میں ہی نہیں دنیا کے مختلف ممالک میں یہ جمہوریتیں کیوں ناکام ثابت ہو رہی ہیں؟ جمہوریت کے عالمی چمپئین امریکہ کی حالیہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ انسانوں نے خدائی ہدایات سے بے نیاز ہو کر اپنی عقل کی بنیاد پر اس نظام کو وضع کر لیا تھا؟
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021