اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی ہند کے خلاف جھوٹا پروپگنڈا
نیو دہلی ٹائمز مغرب کے اسلاموفوبک ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں!
سید خلیق احمد ،نئی دلی
آپ کے پورٹل نے حالیہ مہینوں (5جولائی 2021اور 27دسمبر 2021) میں دو مضامین شائع کیے ہیں جن میں اخوان المسلمون کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور بھارت کی نہایت معروف مسلم تنظیموں میں سے ایک جماعت اسلامی ہند پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تاہم آپ نے ابھی تک جماعت اسلامی ہند پر پابندی کی اپنی تجویز کی تائید میں کوئی معقول دلیل پیش نہیں کی ہے۔ واحد وجہ جو آپ نے بتائی ہے وہ یہ ہے کہ اخوان المسلمون نے جو مصر سے ابھری ہے جماعت اسلامی ہند کے نظریات کو اختیار کیا ہے۔ آپ ان تمام لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں جنہوں نے یہ مضمون پڑھا ہے اور مستقبل میں پڑھیں گے۔
میں نہ تو جماعت اسلامی ہند کا رکن ہوں اور نہ اخوان المسلمون کا۔ لیکن چونکہ آپ کے مضامین دونوں تنظیموں کے بارے میں انتہائی نا مناسب ہیں اور ان کا منشا اسلام اور اس کی تعلیمات کو زک پہنچانا ہے، اسی لیے میں آپ کے الزامات کے جواب میں یہ مضمون تحریر کر رہا ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے الزامات اسلاموفوبک مغرب کے انتہا پسند ایجنڈے اور پالیسیوں کے زیر اثر ہیں جن کا منشا بہر صورت اسلام اور مسلمانوں کو روندنا ہے خواہ وہ سماج کے لیے مثبت اور صحت بخش طریقے سے اپنا تعاون کیوں نہ پیش کریں۔
میں آپ کے پورٹل کے بانیوں کے نظریاتی پس منظر سے واقف نہیں ہوں لیکن مسلمانوں کے بارے میں مضامین پڑھنے سے اشارہ ملتا ہے کہ آپ دنیا بھر میں مختلف النوع عقائد، کلچر، اور زبان کے حامل افراد کے اتحاد اور جمہوری طریقوں سے امن وانصاف اور لوگوں کی سیاسی خود اختیاری کے لیے کوشاں مسلم تنظیموں اور اسلام کو بدنام اور کم تر ثابت کرنے کے ایک ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں اتحاد، عوام کی سیاسی خود اختیاری امن وانصاف وہاں قائم فوجی واقتصادی طاقتوں، خواہ وہ عالمی ہوں یا علاقائی ان کے حقیر مفادات کے خلاف ہے۔ آپ نے اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی ہند کے بارے میں جو باتیں پھیلائی ہیں وہ جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ آپ نے ان دونوں تنظیموں کے بارے میں جو جھوٹ بولا ہے وہ پہلے سے طے شدہ عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے اور اسی کام کو آپ بھارت میں قائم ایک ڈیجیٹل نیوز آرگنائزیشن کے بھیس میں انجام دے رہے ہیں۔ اخوان المسلمون بادشاہتوں اور آمریتوں کی جگہ جمہوریت پر زور دیتی ہے۔
آپ نے اپنے مضامین میں اخوان المسلمون کے بارے میں جو بات کہنے کی کوشش کی وہ اس کے لیے جانی نہیں جاتی۔ بلاشبہ اخوان المسلمون لوگوں کو اپنی روز مرہ کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔ دنیا بھر میں عرب مسلم دنیا اور اس کے باہر اخوان المسلمون کے سخت ترین ناقدین سمیت مسلم امّہ کے درمیان کوئی بھی قرآن و سنت کی تعلیمات کی صداقت پر سوال نہیں اٹھاتا۔ حتیٰ کہ عرب مسلم خاندان جو اخوان المسلمون کی سرگرمیوں سے خطرہ محسوس کرتے ہیں وہ بھی قرآن و سنت کی تعلیمات کی سچائی کی مخالفت نہیں کرتے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ عرب دنیا کے مسلم حکمرانوں نے اخوان المسلمون کی مخالفت کیوں کی اور اسے کیوں کچلا۔ یہاں تک کہ اسے اپنی پیدائش کی سرزمین مصر میں بھی نشانہ بنایا گیا ہے؟
یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب کسی دوسرے سوال کا جواب دینے سے پہلے دینا ضروری ہے کیونکہ آپ کا مضمون اخوان المسلمون کے ایک ممنوعہ گروپ ہونے کے نکتے پر مرکوز ہے۔
مصر ہو، یا کوئی اور عرب مسلم ملک، اخوان المسلمون کے رہنما اور حامی اس نظام حکومت میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں جو یا تو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت وغیرہ میں خاندانی ہے، یا مصر کی طرح فوجی آمریت۔ اخوان المسلمون کا خیال ہے کہ خاندانی حکمرانی یا آمریت اسلام کی اخلاقیات اور تعلیمات کے خلاف ہے اور طرز حکمرانی کے جدید اصولوں کے خلاف ہے جو انتخابی عمل کے ذریعے لوگوں کی شمولیت پر مبنی ہیں، یا جسے جمہوریت کہا جاتا ہے۔ کوئی بھی حکومت جو عوام کی شمولیت سے بنتی ہے اور ریاست کا انتظامی سربراہ جمہوری عمل کے ذریعے منتخب اور مقرر ہوتا ہے، عوام کو بااختیار بناتا ہے۔ ایسی حکومت ملک کے دفاع کو بیرونی مداخلت سے مضبوط بنانے کے علاوہ سائنس، ٹیکنالوجی، صنعت، علمی اور فکری سرگرمیوں کی ترقی کے لیے سازگار ہوتی ہے۔ جمہوریت میں حکومت عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے۔ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر حکومت عوام کی توقعات کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرے تو وہ اپنے ملک اور معاشرے کے وسیع تر مفاد میں ہر چند سال کے وقفے سے کسی دوسرے گروپ کی حکومت کے ذریعے اسے تبدیل کر سکتی ہے۔ اس کے بر خلاف بادشاہتیں اور آمریتیں تنقید کی اجازت نہیں دیتیں۔ بادشاہتیں اور آمریتیں کسی آئین کی پاسداری نہیں کرتیں۔ آمروں اور خاندانوں کی خواہشات و عزائم ہی قانون ہوتے ہیں اور اس سے کوئی اختلاف ناقابل قبول ہوتا ہے۔ اس لیے حکومت چلانے میں لوگوں کا کردار محدود ہوتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ سلطنتوں اور آمریتوں نے صرف تباہی ہی لائی نہ کہ امن و ترقی؟
عرب بادشاہتیں اخوان المسلمون کے مطالبہ جمہوریت کے خلاف ہیں
عرب خاندان اخوان المسلمون کے جمہوریت کے مطالبے کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ ان خاندانوں کا خیال ہے کہ اگر جمہوریت پر مبنی نظام حکومت وجود میں آتا ہے تو وہ اور ان کے خاندان اپنے ملکوں میں سیاسی طاقت کھو دیں گے۔ اسی لیے طاقتور عرب خاندانوں نے اپنے ملکوں میں اخوان کی تحریک کو دبا دیا ہے۔ جون 2012 میں جب محمد مرسی مصر کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر بنے تو عرب خاندان بے چین ہو اٹھے۔ جیسا کہ مصری آمر حسنی مبارک کو فروری 2011 میں کئی مہینوں کے عوامی احتجاج کے بعد استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں انتخابات کے ذریعے سے اخوان المسلمون اقتدار پر فائز ہوئی تھی، عرب خاندانوں نے محسوس کیا کہ جمہوریت کی ہوا ان کی دہلیز تک بھی پہنچ سکتی ہے اور اگر اخوان المسلمون مصر میں بر سر اقتدار رہتی ہے تو ان کے ممالک میں بھی منتخب حکومتوں کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ عرب خاندانوں نے امریکا اور مصری فوج کے ساتھ مل کر مرسی حکومت کو گرانے کی سازش کی۔ مصر کے فوجی سربراہ عبدالفتاح السیسی نے فوجی بغاوت کے ذریعے محمد مرسی کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو ہٹا دیا۔ چنانچہ جمہوریت کو اس کے ابتدائی مرحلے میں ہی قتل کر دیا گیا جسے اخوان المسلمون کی کئی دہائیوں پر محیط کوششوں سے مصر میں لایا گیا تھا۔ اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا غلط ہے۔ یہ تنظیم عرب مسلم دنیا میں جمہوریت کی ایک عظیم چیمپین تھی اور ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں السیسی کی آمریت کے ہاتھوں حقوق کی پامالیوں کو بہت زیادہ اجاگر کرتی ہیں، لیکن عالمی جمہوریت کا خود ساختہ چیمپین امریکا اور اسلاموفوبک یورپ ان زیادتیوں پر خاموش ہے۔
جہاں عرب آمروں نے محمد مرسی کی معزولی کا خیر مقدم کیا وہیں مغربی طاقتوں نے اسے فوجی بغاوت کا نام بھی نہیں دیا جس سے اس مسئلے پر دونوں فریقین کے مابین مفادات کے اتحاد کی نشاندہی ہوتی ہے۔ امریکا اور یورپی طاقتیں، جن کے اپنے ملکوں میں جمہوریت ہے اور وہ خود کو دنیا بھر میں جمہوریت کے چیمپین قرار دیتے ہیں، مسلم دنیا میں خاندانوں اور فوجی حکمرانی کے سب سے مضبوط حامی ہیں۔ وہ مسلم ممالک میں جمہوریت سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ جمہوری حکومتوں کی منتقلی لوگوں کو بااختیار بنائے گی اور مسلم ممالک کو اقتصادی اور عسکری طور پر مضبوط کرے گی۔ اس سے عالمی سطح پر فوجی اور اقتصادی مساوات بدل جائیں گے۔ مسلم ممالک کے سیاسی فیصلے واشنگٹن ڈی سی یا اسلاموفوبک یورپی طاقتوں کے دارالحکومتوں میں نہیں بلکہ متعلقہ مسلم ممالک کی پارلیمنٹ میں کیے جائیں گے۔ مسلم دنیا میں جمہوریت کا مطلب مغربی تسلط کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اسلامو فوبک مغربی دنیا کا خیال ہے کہ اس کی سیاسی اور فوجی بالادستی کو اصل خطرہ چین سے نہیں بلکہ مسلم برادری کو بااختیار بنانے سے ہے۔ لہذا اخوان اور دیگر مسلم گروپوں کو بدنام کرنے کی وجہ یہی ہے کہ وہ جمہوریت وامن اور برادریوں کے اتحاد کے خواہاں ہیں۔ اگر عرب مسلم دنیا کا کوئی گروہ انتخابات یا عوامی مشاورت کے ذریعے جمہوریت اورعوام کو بااختیار بنانے کا مطالبہ کرتا ہے تو کیا یہ ایک بین الاقوامی جرم یا عالمی دہشت گردی کے مترادف ہوگا؟ یقینا مغربی طاقتیں اور ان کے اتحادی ہاں میں جواب دیں گے کیونکہ اس سے اسلامو فوبیا میں مبتلا مغربی طاقتوں کے مفاد کو ٹھیس پہنچتی ہے جو جمہوری حکمرانی میں تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک کے وسائل سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گی۔ 1924 میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد لوگوں کو بااختیار بنانے سے مسلم دنیا پر اسلامو فوبیا کی شکار مغربی دنیا کے معاشی اور فوجی تسلط کو خطرہ لاحق ہو گا۔
امریکی ویورپی طاقتوں نے اخوان المسلمون کو نہیں بلکہ
مسلم معاشروں کو غیر مستحکم کیا
آپ نے اخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے جس کا مقصد صرف معاشروں کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ آپ کا الزام محض اس لیے ہے کہ امریکا ایسا کہتا ہے۔ تاہم، آپ نے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ہاتھوں شمالی ویتنام کے علاوہ عراق، شام، لیبیا اور افغانستان میں لاکھوں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کو آسانی سے نظر انداز کر دیا ہے۔
کیا میں مضمون کے گمنام مصنف سے پوچھ سکتا ہوں کہ عالمی جمہوریت کے چیمپین امریکا اور اسلامو فوبک یورپی طاقتوں نے دنیا میں کیا کیا ہے؟ کیا انہوں نے معاشروں اور ملکوں کو مضبوط کیا ہے یا انہیں غیر مستحکم کیا ہے جس سے لوگوں کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جمہوریت کے یہ چیمپین مسلمانوں کی سرزمین میں عوام کے لیے صرف مصائب ہی لائے ہیں۔
امریکا نے عراق پر حملہ کیوں کیا؟ کیا عراق کے پاس بڑے پیمانے پر عوامی تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) تھے؟ اور اگر عراق کے پاس یہ ہتھیار تھے تو امریکا، یورپی طاقتوں اور اسرائیل کے علاوہ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کے پاس بھی تو یہ ہتھیار ہیں۔ اگر کسی ملک نے ایٹمی طاقت کو کسی دوسرے کے خلاف استعمال کیا ہے تو وہ امریکا ہے۔ پچاس لاکھ بچوں سمیت 20 لاکھ سے زیادہ معصوم عراقیوں کو قتل کرنے اور اتنی ہی تعداد یا اس سے زیادہ کو معذور اور زخمی کرنے کے بعد، امریکا نے کہا کہ اسے عراق میں عوامی تباہی کے کوئی ہتھیار نہیں ملے۔ کیا امریکا نے محض تفریح کے لیے عراق پر حملہ کیا تھا؟ اس کے بعد امریکا نے کہا کہ اس کے اقدامات سے عراق میں جمہوریت آئی ہے لیکن حقیقت، امریکی دعوے کی تردید کرتی ہے۔ عراقی معاشرے نے کبھی بھی اس قدر عدم استحکام اور تباہی نہیں دیکھی تھی جتنی صدام حسین کے خاتمے کے لیے امریکی حملے کے دوران ہوئی تھی۔
کیا فروری 2011 میں تیونس اور مصر میں بغاوت کے نتیجے میں قذافی کی حکومت کے خلاف بغاوت کی وجہ سے اقوام متحدہ نے لیبیا پر نو فلائی زون نافذ نہیں کیا تھا؟ مصر میں بھی بغاوت ہوئی۔ لیکن اقوام متحدہ نے مصر پر نو فلائی زون نافذ نہیں کیا۔ کیوں؟ کیا محض اس لیے کہ قذافی نے امریکی اور اسلامو فوبک یورپی طاقتوں کی خواہشات کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا۔ بر خلاف اس کے مصری ڈکٹیٹر نے انکل سام سے احکام لے لیے۔ اقوام متحدہ سے حاصل کردہ اختیار کے ساتھ نو فلائی زون کو نافذ کرنے کے لیے، امریکا، فرانس، برطانیہ اور کینیڈا نے لیبیا پر حملہ کیا، اسے تباہ اور غیر مستحکم کیا، جس سے لیبیا اور پڑوسی ممالک کے لیے بہت زیادہ مسائل پیدا ہوئے۔ مزید برآں، قذافی کے دور میں لیبیا دولت مند تھا اور اپنے پڑوس میں بہت سے غریب ممالک کو معاشی طور پر مدد فراہم کیا کرتا تھا۔
دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ شام میں امریکی مداخلت اور اس کے نیٹو اتحادیوں کا مقصد اسلامک اسٹیٹ کو ختم کرنے کے بہانے حکومت کی تبدیلی حاصل کرنا تھا۔ جہاں وہ روسی مداخلت کی وجہ سے حکومت کی تبدیلی کا ہدف پورا نہیں کر سکے،البتہ شام کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
امریکا نے کرد باغیوں کو مسلح کر کے اپنے نیٹو اتحادی ترکی کو بھی عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی لیکن ترکی اس کھیل کو سمجھ گیا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، اس نے امریکا کے عزائم کو بے نقاب کردیا۔
جہاں تک اسلامک اسٹیٹ (داعش) کا تعلق ہے، عرب اور بین الاقوامی امور کا علم رکھنے والا کوئی بھی شخص جانتا ہے کہ بین الاقوامی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اسے عراق، شام سے لے کر افغانستان تک مسلم سرزمینوں کو تباہ کرنے کے لیے تخلیق کیا تھا۔ جولائی 2016 میں ترکی میں بغاوت کی کوشش میں امریکی سفارت خانے کے دو اہلکار اور ایک امریکی عیسائی پادری شامل تھے، اس کے علاوہ امریکا میں مقیم ایک ترک مسلمان عالم بھی شامل تھا۔ صدر ایردوان کی جانب سے ترکی میں قانون کے مطابق ان پر مقدمہ چلانے کی اپیل کے باوجود امریکا نے تاحال مسلمان عالم کو ترکی واپس نہیں کیا۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے ترکی کو عیسائی پادری کو امریکا واپس بھیجنے پر مجبور کردیا۔ اسی طرح امریکا اور اس کے اسلام فوبک یورپی اتحادیوں نے اسرائیل کے اطراف موجود مسلم ممالک کی فوجی طاقت کو تباہ کیا ہے۔
ایک بار پھر، انکل سام اور اسلاموفوبک یورپی طاقتوں نے افغانستان میں جو کچھ کیا اس نے مہذب دنیا کو ضرور شرمندہ کر دیا ہوگا۔ انہوں نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے بہانے لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کیا۔ کیا 9/11 کی دہشت گردی میں کوئی افغان ملوث تھا؟ صدر جارج ڈبلیو بش کے الفاظ میں یہ ایک صلیبی جنگ تھی یعنی عیسائیوں کی مذہبی جنگ۔ بلاشبہ یہ ایک صلیبی جنگ تھی کیونکہ امریکی عیسائی فوجیوں نے عیسائیت کو پھیلانے اور مقامی مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے پشتو زبان میں بائبل کے نسخے افغانستان کے قصبوں اور دیہاتوں میں گرائے تھے۔
اس سے پہلے، امریکا نے سوویت یونین سے لڑنے والے افغان ’مجاہدین‘ کی حمایت کی تھی، یہ لفظ اپنے اردگرد احترام کی دمک رکھتا ہے۔ مجاہدین کے سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد، انکل سام ان کے ہی خلاف ہو گئے کیونکہ مجاہدین کے رہنماؤں نے اسلام کے اصولوں پر مبنی حکومت قائم کی۔ جب انہوں نے اپنے ملک میں نظام حکومت کے بارے میں امریکا سے احکامات لینے سے انکار کر دیا تو امریکا نے انہیں دہشت گرد قرار دینے میں کوئی وقت نہیں لیا۔ امریکا نے مجاہدین کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے طالبان کو سہارا دیا۔ جب طالبان نے بھی امریکی حکم ماننے سے اتفاق نہیں کیا اور اسلامی شریعت پر مبنی حکومت کے ساتھ کام جاری رکھا تو انکل سام نے طالبان کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے پروپیگنڈا شروع کیا۔ اور امریکا کی قیادت میں نیٹو نے بالآخر طالبان کو ختم کرنے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا۔ سوویت یونین کے ساتھ لڑائی ہو یا امریکی بالادستی کو چیلنج کرنا ہو دونوں صورتوں میں مجاہدین اور طالبان نے افغانستان کی سیاسی آزادی یا خودمختاری کا دفاع کیا۔
طالبان کو شکست دینے میں ناکام ہونے کے بعد، امریکا نے ملک کو انہی طالبان کے حوالے کر کے افغانستان چھوڑ دیا جس کو اس نے ایک دہشت گرد تنظیم اور علاقائی و عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا کوئی اخلاقی معیار نہیں تھا اور وہ اپنے تنگ سیاسی، معاشی اور فوجی مفادات کی تکمیل کے لیے کسی کے ساتھ بھی جا سکتا تھا۔
مجھے مغربی دنیا کے ’’مہذب رویے‘‘ اور جمہوریت سے ان کی محبت کی ایک اور مثال دینی چاہیے۔ اسلامو فوبک مغربی طاقتوں کی فوجیں مہلک ترین ہتھیاروں سے لدی لیبیا، شام، عراق انسانی حقوق کے دفاع کے لیے اور دہشت گردی سے لڑنے کے لیے افغانستان گئیں۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۔۲۲
لیکن انہی قوتوں نے 1990 کی دہائی میں بوسنیا ہرزیگوینا میں اسلامو فوبک سرب فوج کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کو دیکھا۔ ہزاروں بوسنیائی مسلم خواتین کی عصمت دری کی گئی اور انہیں بچوں کی پیدائش تک کیمپوں میں رکھا گیا۔ یورپ کے اندر بوسنیائی مسلمانوں کے ساتھ جو ہوا وہ دنیا کی رقم کردہ تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اور پھر بھی، گمنام مضمون نگار کو جان بوجھ کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اور اخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی جرات ہوئی کیونکہ ’دنیا کا قصائی‘ یہی کہتا ہے۔
اخوان المسلمون مذہبی تبدیلی سے مشابہ ’ثقافتی انضمام‘ کے مخالف ہیں
مضمون نگار نے اخوان پر الزام عائد کیا کہ وہ یورپ اور مغربی ممالک میں مسلمانوں کے ثقافتی امتزاج میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور مسلمانوں کو اپنی اسلامی شناخت کے تحفظ کی ترغیب دے رہے ہیں۔ مضمون نگار کی دانست میں اگر مسلمان اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو محفوظ رکھیں تو یہ جرم ہے۔
مسلمانوں کے ثقافتی الحاق کی دلیل اسلام اور اس کی ثقافت کے تئیں اسلاموفوبک مغربی ممالک کی عدم رواداری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کوئی سوال کر سکتا ہے کہ اخوان اور مسلمانوں کی طرف سے مغربی ثقافت میں انضمام کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟ دونوں آپس میں اس قدر جڑ جاتے ہیں کہ کبھی ثقافت مذہب بن جاتی ہے اور مذہب ثقافت بن جاتا ہے۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔
ثقافت چونکہ مذاہب سے نکلتی ہے، اس لیے اس میں ہمیشہ عقیدے کی وہ صفات یا خصوصیات شامل ہوتی ہیں جن سے یہ اخذ کیا جاتا ہے۔ چونکہ اسلام اور عیسائیت خدا اور بہت سی دوسری چیزوں کے بارے میں اپنے تصورات میں مختلف ہیں، اس لیے دونوں برادریوں کی ثقافتوں میں فرق ہوگا۔ اسلام اور دیگر مذاہب کا بھی یہی حال ہے۔ لہٰذا، کسی ملک کی پوری آبادی کی ثقافت میں یکسانیت لانے کے بہانے ایک مذہب کی ثقافت کو دوسرے مذاہب کے پیروکاروں پر مسلط کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی اقلیتی برادری کے افراد کو اپنے مذہبی عقائد اور ثقافت کو ترک کرنے اور خود کو تبدیل کرنے پر مجبور کیا جائے۔
مغربی عیسائی اکثریتی ممالک بالواسطہ طور پر اسپین کی تاریخ کو دہرانا چاہتے ہیں جہاں 15ویں صدی میں طاقت کے استعمال سے مسلمانوں کو عیسائی بنایا گیا تھا۔ وہ پورے یورپ میں مسلمانوں کے لیے ان کے مذہب پر عمل کرنے سے روکنے والے قوانین لا کر ان کی زندگی کو مشکل بنا کر اسی چیز کی وکالت کرتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان گروہ اسلام اور مسلمانوں کے مذہبی تشخص پر ہونے والے اس حملے کے خلاف لڑتا ہے، تو وہ گروہ اور اس کے ارکان کو دہشت گرد اور انضمام کے عمل کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے، یا جسے بجا طور پر عیسائیت میں تبدیلی مذہب کہا جا سکتا ہے۔
لہٰذا، اگر اخوان المسلمون نے لٹریچر، تقاریر اور دیگر پرامن ذرائع سے مسلم شناخت کے تحفظ کے لیے کچھ کیا ہے اور عیسائی یا اسلامو فوبک مغربی ثقافت میں مسلمانوں کو زبردستی ضم کرنے سے روکا ہے، تو یہ عمل دہشت گردی کی تعریف کے تحت نہیں آتا جیسا کہ مضمون نگارنے باور کرنے کی کوشش کی ہے.
جماعت اسلامی ہند کی پالیسیاں قرآن وسنت کی تعلیمات پر مبنی ہیں
اب، مجھے لازماً جماعت اسلامی ہند پر پابندی کے لیے آپ کی بار بار دہائی کی طرف آنا چاہیے۔ پابندی کے لیے آپ کی دلیل ہے کہ یہ اخوان المسلمون کے مذہبی اور فکری نظریات کی پاسداری کرتا ہے۔ جو شخص جماعت اسلامی کے لٹریچر کو جانتا ہے اور اس کا مطالعہ کرتا ہے وہ یقین سے کہہ سکتا ہے کہ مضمون نگار کی دلیل میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ بلاشبہ جماعت اسلامی ہند اپنے نظریات اور اصول قرآن و سنت کی تعلیمات سے اخذ کرتی ہے، عالمگیر اسلامی لٹریچر جسے دنیا کے کسی کونے میں رہنے والا کوئی بھی شخص حاصل کر سکتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کا بنیادی مقصد، اس کے آئین کے مطابق، بغیر کسی رنگ و نسل، ذات پات اور نسل کی تفریق کے قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں امن و انصاف کا قیام ہے۔ اگر مختلف تنظیمیں اپنے اور اپنے حامیوں کے لیے زندگی کا ایک طریقہ وضع کرنے کے لیے لٹریچر کے ایک ہی مجموعہ کو استعمال کرتی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس لیے یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ جماعت اسلامی ہند اور اخوان المسلمون ایک ہی چیز ہیں کیونکہ وہ ایک ہی لٹریچر سے متاثر ہیں۔ اسلامی فکر کے بہت سے مکاتب ہیں۔ یہ سب اپنے اصول اور طریقہ کار قرآن و سنت سے اخذ کرتے ہیں اور پھر بھی کئی معاملات میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ حتیٰ کہ ایک غیر مسلم فرد یا غیر مسلموں کی کوئی تنظیم بھی اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں قرآن وحدیث کی تعلیمات پر عمل کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر عیسائیت اور ہندومت میں طلاق کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ لیکن دونوں مذاہب نے اپنے پیروکاروں کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے قرآن و حدیث سے طلاق کی شرط مستعار لے کر اپنے مذہبی قوانین میں اصلاحات متعارف کروائیں۔ جب دونوں مذاہب کے غیر منقولہ قوانین میں طلاق کی کوئی گنجائش نہیں تھی تو دونوں برادریوں کے مرد اور عورت ایسے معاملات میں جہنم کی زندگی گزارتے تھے جہاں میاں بیوی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔ دونوں مقالوں کے مصنف کے دلائل کو بڑھاتے ہوئے کیا ہم یہ مان لیں گے کہ عیسائیت اور ہندو مذہب اس لیے اسلام بن گئے کیونکہ انہوں نے اسلام کی طلاق اور بیوہ کی دوبارہ شادی کی دفعات کو اپنا لیا ہے؟
جماعت اسلامی ہند تنوع کے خلاف نہیں ہے، آئین ہند کی دفعات کے اندر کام کرتی ہے
جماعت اسلامی ہند مذہب اور ضمیر کی آزادی کے پیمانوں کے اندر کام کر رہی ہے جیسا کہ بھارت کے آئین کی دفعہ 25 کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی بے شمار مذہبی تنظیمیں آئین کی دفعات پر کام کر رہی ہیں اور پرامن طریقے سے اپنے مذہبی عقائد کا پرچار کر رہی ہیں۔ اسی طرح بھارت کے طول وعرض میں جماعت اسلامی ہند ہم خیال مسلمانوں اور غیر مسلم تنظیموں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر انصاف، امن، ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی ہند دیگر عقائد سے تعلق رکھنے والے مذہبی اور سماجی رہنماؤں کے ساتھ مل کر باقاعدگی سے مذہبی وفرقہ وارانہ ہم آہنگی کے پروگرام منعقد کرتی ہے۔ جماعت اسلامی ہند امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے مختلف مذہبی گروہوں کے دانشوروں اور کارکنوں پر مشتمل دیگر مختلف فورمز کے ذریعے بھی کام کرتی ہے۔ اور پھر بھی، مصنف جماعت اسلامی ہند کو ایک ’’تنوع مخالف‘‘ تنظیم قرار دیتے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند مختلف شعبوں جیسے صحت، تعلیم، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، امدادی کام، اور غریب و نادار افراد کو ان کے عقیدے سے قطع نظر بلا سودی قرض فراہم کرنے میں مصروف ہے ۔
جب گجرات کی اسلامک ریلیف کمیٹی (IRCG) نے 2002 کے فساد متاثرین کے لیے مکانات تعمیر کیے تو انہوں نے بہت سے ہندوؤں کے مکانات کی تعمیر نو کی جن کے گھر اسی فساد کے دوران تباہ ہو گئے تھے۔ جماعت اسلامی ہند نے 2002 کے مسلم مخالف قتل عام میں گجرات کے پنچ محل (ضلع گودھرا) کے سب سے زیادہ متاثرہ گاؤں میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے پینے کے پانی کی سہولتیں بھی مہیا کروائیں۔
ایک صحافی کے طور پر، ایک معروف قومی انگریزی روزنامے کے ساتھ 32 سال تک کام کرنے کے بعد میں نے ایک بھی خلل ڈالنے والا واقعہ نہیں دیکھا جس میں جماعت اسلامی ہند کا کوئی کارکن ملوث پایا گیا ہو۔ میں یہ بات اعتماد کے ساتھ کہہ رہا ہوں کیونکہ میں نے اپنے صحافتی کیرئیر کا ایک طویل عرصہ پولیس اور جرائم کا احاطہ کرتے ہوئے گزارا ہے۔
جماعت اسلامی ہند فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی جدوجہد اور ہر قسم کے فساد کے خلاف ہے۔
جماعت اسلامی ہند اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے دھوکہ دہی اور فریب کے میکاولوی اصولوں پر یقین نہیں رکھتی۔ انٹرنیٹ پر موجود جماعت اسلامی ہند کا آئین واضح طور پر کہتا ہے، ’’جماعت اپنے تمام معاملات میں اخلاقی حدود کی پابند ہو گی اور کبھی بھی ایسے ذرائع یا طریقے اختیار نہیں کرے گی جو سچائی اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن کے ذریعے فرقہ وارانہ نفرت، طبقاتی کشمکش اور فساد فی الارض (سماجی افراتفری، انتشار، انارکی، بدعنوانی اور فساد) رونما ہوتا ہو۔
جماعت اسلامی ہند کا دستور مزید کہتا ہے ’’جماعت اسلامی ہند تعمیری اور پرامن طریقے اختیار کرے گی۔ یعنی وہ ذہن سازی و کردار سازی کرے گی اور اسلام کی تبلیغ واشاعت کے ذریعے اصلاح کا کام کرے گی اور اس طرح ملک کی سماجی زندگی میں مطلوبہ صالح انقلاب برپا کرنے کے لیے رائے عامہ کی تربیت کرے گی۔ اور جماعت اسلامی ہند کا مطلب وہی ہے جسے وہ بیان کرتی ہے۔
(مضمون نگار ویب پورٹل انڈیا ٹومارو کے ایڈیٹر ہیں)
***
مغربی عیسائی اکثریتی ممالک بالواسطہ طور پر اسپین کی تاریخ کو دہرانا چاہتے ہیں جہاں 15ویں صدی میں طاقت کے استعمال سے مسلمانوں کو عیسائی بنایا گیا تھا۔ وہ پورے یورپ میں مسلمانوں کے لیے ان کے مذہب پر عمل کرنے سے روکنے والے قوانین لا کر ان کی زندگی کو مشکل بنا کر اسی چیز کی وکالت کرتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان گروہ اسلام اور مسلمانوں کے مذہبی تشخص پر ہونے والے اس حملے کے خلاف لڑتا ہے، تو وہ گروہ اور اس کے ارکان کو دہشت گرد اور انضمام کے عمل کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 13 فروری تا 19فروری 2022