احتجاج کا نصب العین

احتجاج وقتی نہیں ہوسکتے، اگر ناانصافی غیر معینہ مدت تک جاری رہے تو احتجاج بھی غیر معینہ مدت تک جاری رہیں گے

تحریر: اپوروانند
ترجمہ: عرفان وحید

 

ابھی شاہین باغ قصۂ پارینہ نہیں ہوا ہے۔ دلی کے شاہین باغ کے مظاہروں پر سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ریاست یا حکومت کے عوام پر مزید جبر میں معاون ہوگا، اور وہ بھی قانونی جواز کے ساتھ۔ عدالت کا یہ تبصرہ نہایت خطرناک ہے کہ’’برطانوی نوآبادیاتی عمل داری میں احتجاج کے طور طریقوں کا موازنہ جمہوریت پر مبنی اپنے ذریعے کی جانے والی حکمرانی (self-ruled democracy) کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
اپنے ذریعے کی جانے والی حکمرانی’ کی اصطلاح ایک جال ہے۔ مہاتما گاندھی کا مشہور مقولہ ہے کہ ’’ہم انگریزی راج انگریزوں کے بغیر چاہتے ہیں‘‘۔ انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ مجھے ’لٹھا بادشاہ‘ کو ’بگلا بادشاہ‘ سے بدلنے میں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔
نوآبادیاتی استعمار قائم کرنا انگریزوں کے لیے مخصوص نہیں تھا۔ ریاست خود جابر ہوتی ہے، اور عوام کو ہمیشہ چوکس رہنا پڑتا ہے کہ ریاست کہیں ان کی آزادی کو سلب نہ کرلے۔ فطری طور پر سوال اٹھتا ہے کہ ’اپنی حکمرانی‘ میں یہ ’اپنا‘ کون ہے؟ کیا یہ ہمارے تمام تر تنوع کو اپناتا ہے؟
اس کا جواب بھی گاندھی جی سے ملتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا: ”اصلی سوراج مٹھی بھر لوگوں کے اقتدار سے نہیں آئے گا بلکہ عوام کی اس اہلیت سے آئے گا جو اس اقتدار کے غلط استعمال کے خلاف مزاحمت کریں گے۔“ دوسرے الفاظ میں سوراج عوام کو اقتدار کو منضبط اور کنٹرول کرنے کی اہلیت کے احساس کے بارے میں بیدار کرنے سے حاصل ہوگا۔
برابری کو بحال کرنے کی کوشش
چناں چہ اقتدار کے خلاف مزاحمت یا احتجاج شہریت یا عوامیت کے خمیر میں داخل ہے۔ احتجاج کسی کے کہنے پر نہیں ہوسکتے۔ احتجاج قولی افعال ہیں۔ اس بات کا فیصلہ آپ اور میں کریں گے کہ کیا کہنا ہے اور کیسے کہنا ہے۔ ان معاملات میں حکومتوں کو مجھے یا آپ کو ہدایات دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ نے شاہین باغ کے مظاہروں کی نوعیت کے موزوں یا ناموزوں ہونے کے اپنے فیصلے میں یہی کرنے کی کوشش کی ہے۔
جب آپ بولتے ہیں تو اس توقع پر بولتے ہیں کہ کوئی سننے پر آمادہ ہے۔ لیکن احتجاج تب ہوتے ہیں جب مذاکرے کی شرائط مفقود ہوں۔ مذاکرے میں فریقوں کے بیچ برابری کا ہونا فرض کیا جاتا ہے۔ لوگ احتجاج پر تبھی اترتے ہیں جب انھیں کسی ایسی صورت حال سے دوچار کردیا جاتا ہے جس میں برابری نہیں ہوتی۔ احتجاج برابری حاصل کرنے یا اسے بحال کرنے کی کوشش ہی کو کہتے ہیں۔
بحران احتجاج سے پیدا نہیں ہوتا۔ احتجاج تو ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ حکومتیں امتیازی قوانین منظور کرکے، وہ بھی قانون کا سہارا لے کر، بحران پیدا کر دیتی ہیں۔ احتجاج معاشرے کے توازن میں خلل نہیں ڈالتے، بلکہ وہ معاشرے میں عدم توازن پیدا ہونے کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ شہریت ترمیمی قانون 2019 کو اس طرح وضع کیا گیا تھا کہ اس سے معاشرے کا توازن بگڑ جائے؟ اس قانون میں امتیازی سلوک کا وہ شدید احساس ہی تھا جس کی وجہ سے نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب سے وابستہ بہت سے افراد بھی سڑکوں پر اتر نے پر مجبور ہوگئے۔
پولیس کی کارروائی
شہریت ترمیمی قانون صرف مسلمانوں کو نظرانداز نہیں کرتا، اس کی منظوری سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ ہندوستان امتیازی سلوک اور نابرابری کو قانون کا درجہ دے رہا ہے۔ مظاہرین [شاہین باغ میں] صرف اپنے حقوق کے لیے نہیں بلکہ سب کی فلاح کے آفاقی اصول کی حفاظت کے لیے بھی ڈٹے ہوئے تھے۔
جب مسلمان اور مساویانہ شہریت پر یقین رکھنے والے افراد اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے سڑکوں پر اترے تھے تو پولیس نے ان سے انتہائی ظالمانہ سلوک کیا۔ دیکھنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس نے بہیمیت کی ساری حدیں پار کردیں۔ پولیس ایکشن نظم و ضبط کے لیے نہیں بلکہ مظاہرین کو سبق سکھانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اترپردیش کے وزیر اعلی نے کہا تھا کہ جو لوگ تشدد میں ملوث ہیں ان سے ”بدلہ“ لیا جائے گا، گویا پولیس کو مظاہرین کے ساتھ ایسا سلوک کرنے کی چھوٹ دے دی گئی جیسا توڑپھوڑ مچانے والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
جب سینئر وکلا اندرا جے سنگھ اور کولن گونسالویز پولیس پر کنٹرول کی درخواست لے کر سپریم کورٹ گئے تو عدالت نے ان سے کہا تھا کہ پہلے سڑکوں پر تشدد تھمنے دو۔ گویا عدالت نے احتجاج کرنے کا حق ہی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ عدالت عوام کے تئیں اپنے معیار پر پوری اترنے سے ناکام رہی۔
یہی وہ دشوار گزار حالات تھے جنھوں نے شاہین باغ کے تصور کو جنم دیا۔ یہ بات بجاطور پر کہی گئی ہے کہ عدالت کو مظاہرین کی ایسی جگہ چننے کی مجبوری کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے تھا جو راجدھانی کے قلب میں بھی واقع نہیں ہے۔
پورے ہندوستان میں بہت سے شاہین باغ پیدا ہوگئے، لیکن کیا سپریم کورٹ جیسے سربرآوردہ اداروں کو اپنا احتساب اور ہندوستان کی اس زمینی حقیقت کا ادراک نہیں کرنا چاہیے تھا جہاں مسلم خواتین ان مقامات پر احتجاج کرنے کے لیے محفوظ اور سہولت محسوس نہیں کرتیں جو معاشرے کے دیگر طبقات کو حاصل ہیں؟ شاہین باغ معاشرے میں اعتماد کے عظیم بحران سے اُپجا ہوا ایک انتخاب تھا اور اِس اکثریت پسندانہ حکومت نے معاملہ بگاڑ کے رکھ دیا۔
دو حقوق میں توازن
عدالت عظمی ایک شہری کی عرض داشت پر سماعت کر رہی تھی جسے شاہین باغ کے احتجاجی دھرنے کی وجہ سے سڑکیں بند ہوجانے پر زحمت ہوئی، اور اُسے راستہ چلنے کے شہری حق سے محروم ہونا پڑا۔ عدالت نے اِن دونوں حقوق کو یکساں قرار دیتے ہوئے کہا کہ راستہ چلنے کے حق اور احتجاج کے حق میں توازن ہونا چاہیے۔ عدالت اس بات کی قائل ہے کہ طویل دھرنے سے ٹریفک میں خلل پڑا اور عوام کے راستہ چلنے کے حق کی پامالی ہوئی۔
البتہ معزز عدالت نے اس بات کو جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کہ ٹریفک میں خلل محض مظاہرین کے احتجاج کی بنا پر پڑا تھا یا پھر دلی پولیس اور یوپی پولیس کی وجہ سے، جنھوں نے [آس پاس کے علاقے میں] راج دھانی میں داخل ہونے کے تمام متبادل راستے بھی بند کردیے تھے۔ عدالت نے پولیس سے اس بات کی جواب طلبی نہیں کی کہ وہ مخصوص سڑکوں کو بند کرکے راستہ چلنے والوں کو تکلیف کس لیے دے رہی تھی۔ جب یہی سوال احتجاج کے دوران پوچھا گیا تو پولیس کا جواب تھا کہ "ایسا سکیورٹی کی بنا پر کیا گیا تھا۔” کیا یہ سڑکیں مظاہرین کے خلاف منافرت پھیلانے کے لیے نہیں بند کی گئی تھیں؟ کیا پولیس کی اس حرکت کو مظاہرین کے خلاف تشدد بھڑکانے کی شاطرانہ کوشش نہیں سمجھا جانا چاہیے؟ آخر پولیس معاشرے کے ایک طبقے کو دوسرے کے خلاف کیوں اکسا رہی تھی؟
عدالت نے دھرنا بند کرنے کے لیے مظاہرین کے پاس مفاہمت کاروں کو بھیجنا تو مناسب سمجھا تاہم اس نے یہ زحمت نہیں اٹھائی کہ حکومت سے یہ سیدھا سادا سوال ہی پوچھ لے کہ وہ خود کیوں مظاہرین سے بات نہیں کر رہی ہے؟ اس کے وزراء کیوں مظاہرین کے خلاف زہر افشانی کیے جارہے ہیں؟ ان کے خلاف تشدد کو ہَوا دیے جارہے ہیں؟
عدالت خود اعتراف کرتی ہے کہ اگر احتجاج کی اجازت نہ دی جائے تو جمہوریت جمہوریت نہ رہے، لیکن پھر یہ ایک ہی سانس میں بھی کہہ بیٹھتی ہے کہ احتجاج غیر معینہ مدت کے لیے نہیں ہوسکتے اور ان کا انعقاد متعینہ مقامات پر ہی ہونا چاہیے! احتجاج تفریح کے لیے نہیں کیے جاتے۔ اس بات کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ بے انصاف پارٹی یا اقتدار سے بات کرنے پر مجبور کرنے کے لیے پرامن مظاہرین کو بڑی تکلیفیں اٹھانا پڑتی ہیں۔ احتجاج معینہ مدت کے لیے نہیں ہوسکتے۔ اگر نا انصافی غیر معینہ مدت تک جاری رہے تو لامحالہ احتجاج بھی غیرمعینہ مدت تک جاری رکھنا پڑتا ہے۔
(بشکریہ دی ہندو، 13 اکتوبر 2020)

عدالت خود اعتراف کرتی ہے کہ اگر احتجاج کی اجازت نہ دی جائے تو جمہوریت جمہوریت نہ رہے، لیکن پھر یہ ایک ہی سانس میں یہ بھی کہہ بیٹھتی ہے کہ احتجاج غیر معینہ مدت کے لیے نہیں ہوسکتے اور ان کا انعقاد متعینہ مقامات پر ہی ہونا چاہیے! احتجاج تفریح کے لیے نہیں کیے جاتے۔ اس بات کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ بے انصاف پارٹی یا اقتدار سے بات کرنے پر مجبور کرنے کے لیے پرامن مظاہرین کو بڑی تکلیفیں اٹھانا پڑتی ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 اکتوبر تا 3 نومبر، 2020