اترپردیش: حکومت نے اعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں درسگاہ اسکول کی عمارت کو مسمار کیا، 600 سے زائد طالبات کے لیے پید ا ہوئیں مشکلات

اترپردیش، جنوری 2: اعظم گڑھ کی ضلعی انتظامیہ نے عدالت کے احکامات پر مسلم اکثریتی علاقے چاند پٹی گاؤں میں 70 سال قدیم درس گاہ اسلامی اسکول کا ایک حصہ منہدم کر دیا ہے، جس سے 600 سے زائد طلبا کو، جن میں زیادہ تر لڑکیاں زیر تعلیم تھیں، پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اگرچہ اس اسکول کو درس گاہ اسلامی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، لیکن یہ ادارہ اپنے طلباء کو دینی اور جدید تعلیم فراہم کرتا ہے۔ یہ پانچویں کلاس تک مخلوط تعلیمی ادارہ ہے۔ تاہم چھٹی سے دسویں کلاس تک صرف لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مختص ہے۔

اسکول کے منہدم کیے جانے والے حصے میں پانچ کلاس روم اور جماعت اسلامی ہند کے سابق ​​امیرکے نام پر تعمیر ایک دو منزلہ لائبریری کی عمارت شامل ہے۔

حالاں کہ 12 کلاس روم ابھی بھی موجود ہیں لیکن ان کا استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ان سب کو منہدم کمروں اور لائبریری سے ملحق ہونے کی وجہ سے بری طرح نقصان پہنچا ہے۔

انڈیا ٹومورو کے مطابق درس گاہ کا نظم و نسق سنبھالنے والے مولانا عظیم فلاحی نے کہا کہ اسکول کو 1950 میں مقامی بچوں کی مذہبی اور جدید تعلیم کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک جھونپڑی کے ساتھ شروع کیا گیا تھا۔ اس کو آہستہ آہستہ اسٹیل اور کنکریٹ کی ایک عمارت میں تبدیل کردیا گیا، جو مقامی دیہاتیوں کی طرف سے دی گئی زمین کے ایک ٹکڑے پر خیر خواہوں کے عطیات سے تعمیر کیا گیا تھا۔

1971 میں اتر پردیش میں ’’چکبندی‘‘ کے دوران اسکول انتظامیہ نے چکبندی میں شامل محکمہ محصول کے عہدیداروں سے اسکول کی توسیع کے لیے کچھ زمین مختص کرنے کی درخواست کی۔ اگرچہ عہدیداروں نے درسگاہ سے متصل تقریباً 3000 مربع فٹ اراضی دستیاب کردی تھی لیکن سرکاری ریکارڈ میں اس کو کھیلوں کے میدان کے طور پر ذکر کیا۔ اسکول مینجمنٹ نے الاٹمنٹ کی اس صورت کی خبر نہیں ہوئی اور انھوں زمین کے اس حصے میں اضافی عمارتیں اور ایک لائبریری تعمیر کروائی۔

2016 میں گاؤں کا رہائشی محمد علی، جو مہاراشٹر کے بھیونڈی میں رہتا تھا، گاؤں واپس آیا اور بی جے پی میں شامل ہوگیا۔ اس نے اسکول کی عمارت اور اس لائبریری کے حصے کو ہٹانے کے لیے الہ آباد ہائی کورٹ میں رجوع کیا جو ’’کھیلوں کے میدان‘‘ کے اوپر تعمیر ہوا تھا۔ ہائی کورٹ نے اس معاملے کو دیکھنے کے لیے معاملہ تحصیل ساگری کو بھیج دیا۔ تاہم تحصیل دار یا سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) نے اسکول کے حق میں فیصلہ دیا۔

محمد علی نے ایس ڈی ایم کے فیصلے کو اعظم گڑھ ضلع مجسٹریٹ (ڈی ایم) کی عدالت میں چیلنج کیا، جس نے اکتوبر 2019 میں اسکول کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔

تاہم مقامی حکام نے کھیلوں کے میدان پر قبضہ کرنے کے لیے اسکول کی عمارت کو منہدم کرنے سے گریز کیا۔

اس کے بعد محمد علی نے ڈی ایم کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے الہ آباد ہائی کورٹ میں رجوع کیا۔ اسکول انتظامیہ نے ڈی ایم کے حکم پر روک لگوانے کی کوشش کی لیکن ہائی کورٹ نے اسے مسترد کردیا۔

اس کے باوجود ضلعی حکام نے اسکول انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا اور اسکول کی عمارت کو مسمار نہیں کیا۔

دریں اثنا اسکول انتظامیہ نے گاؤں کے عمائدین کے ساتھ متعدد میٹنگیں کیں جنھوں نے محمد علی کو اسکول کی عمارت کو مسمار کرنے اور اس کا کیس واپس لینے پر اصرار کرنے کی کوشش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس نے کسی کی نہیں سنی۔ یہاں تک کہ مولانا فلاحی نے گاؤں میں اپنی ہی زمین کے مساوی حصے کے ساتھ کھیلوں کے میدان کا تبادلہ کرنے کی پیش کش کی لیکن محمد علی نے اس پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ یہاں تک کہ مقامی ایم ایل اے وندنا سنگھ نے بھی مداخلت کرنے کی کوشش کی لیکن محمد علی اس مطالبے پر قائم رہے کہ اسکول کی عمارت کو زمین بوس کردیا جائے۔

محمد علی نے بالآخر 15 دن قبل ایس ڈی ایم کے خلاف اسپورٹس گراؤنڈ سے ’’تجاوزات‘‘ ہٹانے میں ٹال مٹول کرنے پر توہین عدالت کا حکم حاصل کرلیا۔ جس کے بعد کوئی چارہ نہیں بچا اور ساگری کے ایس ڈی ایم نے اسکول کی عمارت کا کچھ حصہ سرکاری اراضی سے ہٹا دیا۔

مولانا فلاحی نے کہا کہ درس و تدریس کا کام بند نہیں ہوا ہے۔ کچھ دیہاتیوں نے اپنے مکانات پیش کیے ہیں جنھیں کلاس رومز میں تبدیل کردیا گیا ہے اور درس و تدریس کا کام جاری ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اسکول کے بقیہ حصے کی مرمت اور دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے فنڈز کا بندوبست کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔