صفی اختر، نئی دلی
اس وقت پورا ملک مٹھی بھر سرمایہ داروں کی اندھا دھند ترقی اور شرح پیداوار میں اضافہ پر بغلیں بجارہا ہے اور یہ سمجھا یا جارہا ہے کہ ملک اقتصادی اعتبار سے کافی فارغ البال ہوگیا ہے۔ اس وقت کارپوریٹ ہاوسز نے سماج میں دولت کا توازن بگاڑدیا ہے۔ امیر و غریب کے درمیان تفریق کی دیواریں اونچی ہوتی جارہی ہیں۔ حیرت ہے کہ جمہوری ملک میں انصاف، مساوات اور معاشرتی وحد ت کو کس طرح خیرباد کہہ دیا گیا ہے۔ سخت گیر ہندتوا نظریات کی حامل حکمراں جماعت کا دعویٰ ہے کہ مودی حکومت، ملک کو ترقی کی نئی راہوں کی طرف لے جارہی ہے لیکن ملک اس وقت بے روزگاری کی اپنی ریکارڈ سطح پر ہے اور ہر چہار طرف مہنگائی کا بول بالا ہے۔
آج بھارت کی ایک فیصد آبادی کے ہاتھ میں بھارت کی 33فیصدی دولت ہے۔ سب سے غریب 50فیصد آبادی کے ہاتھ میں 6فیصد وسائل ہیں، جبکہ 2014سے قبل غیر منظم سیکٹر کا حصہ 52فیصدی ہوا کرتا تھا۔ جہاں بھی نظر ڈالیں، سرمایہ داروں کا غلبہ نظر آئے گا۔ یہ کیا ہورہا ہے؟ حالیہ دنوں میں شائع ہونے والی ورلڈ ان ایکولٹی رپورٹ (World Inequality Report 2022)کے مطابق بھارت سب سے زیادہ غربت زدہ اور نا برابری والا ملک ہے جہاں اونچے درجے کی 10فیصدی آبادی، آمدنی کے 57فیصدی حصہ پر قابض ہے ، جبکہ نچلی 50فیصدی آبادی، محض 13فیصدی وسائل کے ساتھ زندگی گزر بسر کرنے پر مجبور ہے۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق گلوبل آمدنی میں بھی گراوٹ درج کی گئی ہے ، جہاں امیر ترین ممالک میں نصف فیصد گراوٹ تسلیم کی گئی ہے، وہیں کم آمدنی والے ملکوں میں نصف فیصد سے بھی زائد آمدنی میں تنزلی پائی گی۔ اس رپورٹ کو ماہر اقتصادیات، ورلڈ ان ایکولٹی لیب (world inequality lab) لوکس چینسل (Lucas Chancel) اور گیبرل زک مین (Gabriel Zucman) ان کے ساتھ ساتھ معاشیات کے ماہر تھامس پکیٹی (Thomas Piketty) اور ایمانوئل سیز (Emmanuel Saez) نے تیار کیا ہے۔
بھارت کی قومی آمدنی کے مقابلے میں متوسط طبقے کی اوسط سالانہ آمدنی 7,239,30روپے یا 29.5فیصد ہے جبکہ ٹاپ 10فیصد کی اوسط دولت 63,54,070روپے یا 65فیصد ہے، وہیں ٹاپ ایک فیصد کی اوسط دولت فی کس 3,24,49,360روپے یا 33فیصد بنتی ہے۔ سال 2021میں ملک کی بالغ آبادی کی اوسطاً سالانہ آمدنی 2,04,200روپے ہے، وہیں نچلے 50فیصدی کی سالانہ آمدنی تقریباً 53,610روپے ہوتی ہے جبکہ ٹاپ 10فیصدی کی سالانہ آمدنی نچلے 50فیصدی کے مقابلے 20گنا زیادہ ہے جو تقریباً 11,66,520روپے ہے۔
ہمارے ملک کی مجموعی گھریلو دولت 9,83,010روپے ہے، جس میں نچلی 50فیصد آبادی کی گھریلو آمدنی محض 66,280روپے جو 6فیصد بنتی ہے۔ ملک کے ٹاپ 10فیصدی اور نچلی 50فیصد آبادی کے ذریعہ دیے جانے والے ٹیکس سے ہونے والی کمائی سال 2014کے لگ بھگ برابر ہے۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری اعداد وشمار پر اعتماد کرنا بے حد مشکل ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ ڈیٹا کی کمی اور جمع کیے ہوئے ڈیٹا میں کوالٹی کا فقدان ہے۔
نیتی آیوگ (NITI Aayog) نے حالیہ دنوں میںMultidimensional Poverty Index یا MPIجاری کیا تھا، جس میں ملک کے اندر ہر چوتھا شخص غریب ہے۔ بہار کا تناسب تو سب سے زیادہ 51.91فیصد جھارکھنڈ 42.16فیصد جبکہ اترپردیش 37.79فیصد ہے۔
محنت کش خواتین کی حصہ داری کے معاملہ میں بھارت سب سے پچھڑا ہوا ملک ہے، جہاں محض آبادی میں 18فیصد خواتین ہی لیبر مارکیٹ میں موجود ہیں۔ بھارت میں خواتین کی آبادی کا تناسب 48فیصدہے جبکہ لیبر مارکیٹ میں محض 18فیصد خواتین شامل ہیں۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق معاشی اصلاحات اورلبرلائزیشن کا سب سے زیادہ فائدہ ٹاپ ایک فیصد آبادی کو ہوا ہے۔ نجی دولت میں سب سے زیادہ اضافہ ابھرتے ہوئے ملکوں میں پایا گیا اور بھارت کا مقام تین سرفہرست ملکوں میں آتا ہے۔ بھارت میں نجی دولت میں تقریباً 560فیصد اضافہ سال 2020میں پایا گیا، جو سال 1980کی دہائی میں 290فیصد تھا۔
رپورٹ میں ارب پتیوں پر معمولی ترقی پسند ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی گئی۔ دولت کے ارتکاز کی بڑی مقدار کو دیکھتے ہوئے معمولی ترقی پسند ٹیکس حکومتوں کے لیے اہم محصولات (Revenues) پیدا کرسکتے ہیں۔
’’عالمی عدم مساوات لیب 2021‘‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی غیر مساوی صحت کی دیکھ بھال کی رپورٹ اس سال کے شروع میں جاری کی گئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سماجی و اقتصادی عدم مساوات صحت کے شعبہ مں بھی پائی جاتی ہے اور ’’یونیورسل ہیلتھ کوریج‘‘ کی عدم موجودگی کی وجہ سے پسماندہ طبقات کی صحت کے نتائج کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتی ہے۔
ایک طرف کارپوریٹ گھرانے اپنے ایکزیکیٹیوز کو ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں دیتے ہیں تو دوسری طرف کی صورتحال یہ ہے کہ بے روزگاری اپنے شباب پر ہے۔ CMIE کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح پچھلے 45سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ملک کی معاشی زبوں حالی کے لیے بدعنوانی (Corruption) ذمہ دار ہے۔ انتظامیہ کی جانب داری اور اقلیتوں کی سیاسی بے اثری کی مثالیں بھارت جیسے جمہوری ملک میں اکثر دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ سابق کابینی سکریٹری ظفر سیف اللہ نے ایک بار معروف ٹی وینکر و جرنلسٹ رجت شرما کے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ انتظامیہ اپنا امتیازی رویہ یا جانبدارانہ رویہ (Discrimination) اتنی مہارت سے برتتا ہے کہ اسے ثابت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اگرچہ مارکیٹ پر مبنی نظام میں کچھ حد تک عدم مساوات کا ہونا ناگزیر ہوسکتا ہے لیکن بے انتہا تفریق کے دو رس نتائج مضر ہوسکتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ملک میں تقسیم کی سیاست بھی بہت دیکھی گئی ہے اور ہمارا ملک محض انتخابی نتیجے کی بنیاد پر پاپولزم کو حمایت دیتا ہے جو قطعاً مناسب نہیں۔
یہ صرف معاشی انصاف کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک جمہوری مسئلہ ہے۔ جمہوری کلچر کو فروغ دینے کے لیے جہاں ریاست پابند عہد ہے وہیں ہمارے ملک میں ارتکاز دولت کے ذریعہ جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ ہمارے ملک کے اندر چند ہاتھوں میں بے پناہ دولت کا ارتکاز ہونے کے باوجود یہ ضروری نہیں ہے کہ جو لوگ کام نہیں بھی کررہے ہوں،یعنی بے روزگاری اپنی ریکارڈ سطح پر ہو کہ ملک کی اقتصادی حالت بہت جلد تباہ کن موڑ پر پہنچ جائے۔ دراصل غربت کی شرح کے لیے ریکارڈ درج کرنے کے جو پیمانے (Parameters) ہیں، وہی اپنے آپ میں دھوکہ اور فریب کا منظر ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یقیناً حالات بہت سنگین دو راہے پر کھڑے ہیں لیکن عدم مساوات کے ذریعہ امیر ترین لوگوں کے اندر بھی ایک مسابقتی ذہنیت کو جنم دیتا ہے، جہاں مزید ارتکاز دولت کی ہوس بڑھتی چلی جاتی ہے۔ بہرحال معاشی اصلاحات کی سخت ضرورت ہے جس سے غریب عوام کو براہ راست اس کا فائدہ پہنچے۔ اجرت میں اضافہ ، انکم ٹیکس کے محصولات میں وسعت دی جائے، کام کرنے والے خاندانوں کے لیے اثاثے (Assesttes) بنائے جائیں، تعلیم اور صحت کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ انوسٹمنٹ کیا جائے ، بڑے شہروں میں رہائش کے اندر علیحدگی پسندی کے رجحان کو ختم کیا جائے، ان سب جہات سے اقدامات کی شدید ضرورت ہے ،لیکن ان پالیسیوں کو ترجیحات کے درجے میں رکھنے کے لیے سرکار کے علاوہ سول سوسائٹی ، رائے دہندگان اور غربت کے انسداد کے لیے کوشش کرنے والے اداروں کے اقدامات پر موقوف ہے، جہاں ایک منصفانہ اور جامع معاشی معاشرہ کا خواب دیکھ رہے ہیں ، تاکہ برسوں سے قائم اسٹیسٹ کو (Status Quo) کو ختم کیا جاسکے۔
(مضمون نگار سینئرصحافی و کالم نویس ہیں)
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 16 جنوری تا 22 جنوری 2022