’اے نئے سال! بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے؟ ‘
سالِ نو سے متعلق اردو شعرا کی ندرتِ فکر کےکچھ نمونے
سید احمد سالک ندوی ، بھٹکلی
تغیّر و تبدیلی جشن کا نہیں احتساب کا موقع ہوتا ہے
دنیا میں جب بھی کوئی بڑا تغیر رونما ہوتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف صلاحیتوں کے لوگ اس تبدیلیوں کو اپنے اپنے طور پر اپنی فنکاری کے نمونوں میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں ۔ شاعر، مصور،ادیب، نغمہ نگار، ہر کوئی ان تبدیلیوں کے خاکوں میں رنگ بھرنے کے لیے طبع آزمائی کرتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ تعمیر پسند حلقوں سے وابستہ ادباء و شعراء نے ہر تبدیلی کے پس منظر میں فنا کا سبق اور زوال کا پہلو تلاش کیا ہے، مثلاً سال کی رخصتی اورنئے سال کی آمد کو ہی لیجیے عاقبت پیش نظر رکھنے والے اس میں اقدار کا کوئی پہلو تلاش کرتے ہیں اور صالح فکر کے خوبصورت لبادے میں اسے پیش کرتے ہیں ۔
عموماً لوگ نئے سال کی آمد پر جشن مناتے ہیں لیکن در حقیت یہ جشن منانے کا موقع نہیں بلکہ سابقہ کوتاہیوں سے سبق لے کر اپنی بقیہ زندگی درست کرنے اور خود احتسابی کا بہترین ذریعہ ہے ۔
ذیل میں ہم صرف اردو شعراء کی مختلف الخیالی کا مختصر سا جائزہ لیں گے کہ ان کے یہاں سال گزرنے اور نئے سال کی آمد کے متعلق کس قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں۔
اردو شاعری میں اپنی بے پناہ خوبصورت شاعری اور میر کے انداز میں غزل گوئی کے لیے مشہور حضرت کلیم عاجز کا ایک شعر دیکھیے کہ وہ کس طرح ہرآنے والا سال امید و بیم کی کیفیت میں گزارتے ہیں ۔ کہتے ہیں
اب فصل بہاراں آئے گی ،اب فصل بہاراں آئے گی
اک سال گزر جاتا ہے یونہی اور دوسرا سال آجاتا ہے
یقینا ہماری کیفیت بھی اس قسم کی امید و بیم سے ہو کر گزرتی ہے ۔
پنجاب کے ایک شاعر ظفر اقبال کا ایک شعر جو سال نو کی آمد سے متعلق ہے لیکن شاعرانہ پیرایہ اظہار نے اس کے معانی کو بڑی وسعت دی ہے ۔ عرض کرتے ہیں کہ
چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں
دیوارسے پرانا کلینڈر اتار دے
اس میں آپ دیکھیں گے کہ شاعر کس طرح اس شعر میں نئے سال کے ساتھ ہی نئے جوش سے زندگی گزارنے کے عزم کی اپیل کرتے ہوئے چہرے سے پرانے کلینڈر اتارنے کا مشورہ دے رہا ہے۔
ہمارے عہد کے مشہور شاعر اور اردو مشاعروں میں اپنے منفرد انداز سے چھا جانے کا ہنر رکھنے والے شاعر منور رانا کے یہاں بھی اس قسم کے خیالات ملتے ہیں۔
منور رانا نے اپنی شاعری میں انسانی زندگی کے بعض انتہائی کڑوے تجربوں کو بیان کیا ہے جس میں غربت اور بے چارگی کی زندگی پر خوب لکھا ہے۔ ’ماں‘ کو اردو شاعری میں ’محبوب‘ کاارنگ دینے کا سہرا بھی انہی کے سر جاتا ہے، اگر چہ بعض حلقوں میں اسے’ جذباتی استحصال‘ کا نام دے کر ان کی عظمت پر سوال اٹھایا گیا ہے۔ سر دست یہاں ان کی شاعری سے غریبی وبے بسی کی زندگی کی عکاسی کرنے والا ایک شعر جس میں کیلنڈر کی تبدیلی کے ساتھ سال کی تبدیلی کا بھی اشارہ ہے ۔ کہتے ہیں
جو چھپا لیتا ہو دیوار کی عریانی کو
دوستو ایسا کیلنڈر نہیں پھینکا جاتا
بیسویں صدی کے اواخر میں اردو شاعری کے منظر نامے پر جن شاعرات نے اپنا نام نہایت جلی حروفوں میں ثبت کیا ہے ان میں پروین شاکر کا مقام بہت اونچا ہے ۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے منفرد لب و لہجے اور عورتوں کے جذباتی اور نفسیاتی مسائل پیش کرنے کے باعث اردو شاعری کو اک نئی جہت دینے والی شاعرہ ہیں۔ جذبہ و احساس کی شدّت اور اس کا سادہ لیکن فنکارانہ بیان پروین شاکر کی شاعری کا خاصہ ہے۔ پروین شاکر کا یہ شعر پڑھیے جس میں انہوں نے سال بدلنے کو بطور استعارہ استعمال کرتے ہوئےکس خوبصورت انداز میں اپنے جذبے کا اظہار کیا ہے ۔کہتی ہیں کہ
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
اعتبار ساجد جو کہ جدید اردو غزل کا ایک معتبر نام ہے ان کے یہاں بھی ندرت خیال اور سال نو دونوں بڑے خوبصورت انداز میں ہم آہنگ ہو کر ملتے ہیں۔ ایک بڑی حقیقت کی طرف سادہ لفظوں میں اشارہ کرتے ہوئے اعتبار ساجد کہتے ہیں کہ
کسی کو سال نو کی کیا مبارک باد دی جائے
کلینڈر کے بدلنے سے مقدر کب بدلتا ہے
تعمیری شاعری میں ممتاز مقام کے حامل اسلامی فکر کے نمائندہ شاعر حضرت حفیظ میرٹھی کا یہ شعر پڑھیے اور سر دُھنیے کہ شاعر شیریں بیان نے دبے لفظوں میں کیا کیا کہہ دیا ہے۔
اک اجنبی کے ہاتھ میں دے کر ہمارا ہاتھ
لو ساتھ چھوڑنے لگا آخر یہ سال بھی
سوچ کر دیکھیے کہ نئے سال کو ’اجنبی‘ کہنا کس قدر حقیقت سے قریب ہے کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا سال کیا کیا گُل کھلائے گا، اس کی حقیقت کیا ہو گی، ان تمام خدشات کو حفیظؒ نے صرف ایک لفظ ’اجنبی‘ میں بیان کر کے اظہار بیان پر اپنی کمال قدرت کا مظاہرہ کیا ہے۔
شکیل جمالی ہمارے ملک کے قادر الکلام شاعر ہیں۔ سال کے گزرنے اور بڑھتی عمر کے ساتھ عاقبت سے ہماری غفلت اور آخرت سے بے فکری جیسے تمام معاملات پر ’خاک ڈالنے‘ کے محاورے کے ساتھ نہایت معنی خیز شعر کہا ہے۔ غور کیجیے کہ
عمر کا ایک اور سال گیا
وقت پھر ہم پہ خاک ڈال گیا
اس شعر پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ واقعہ ہر گزرتا سال ہمیں اپنے انجام سے قریب کر رہا ہے لیکن مادیت کی چکا چوند نے ہمیں یقیناً اس سے غافل کیا ہے۔ اب اسے’خاک ڈالنے‘ والی محاوراتی زبان سے بیان کرنا فنکاری ہے ۔
اب کچھ ایسے اشعار جن کے تخلیق کاروں کا کوئی پتہ نہیں ہے لیکن ان اشعار کی معنویت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس کا بھی ذکر کیا جائے ۔
حقیقت یہی ہے کہ نیا سال گویا ہمیں یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ آپ کے چل چلاو کا وقت قریب آ رہا ہے، زیادہ اترانے یا غافل رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ ؎
ایک پتا شجر عمر سے لو اور گرا
لوگ کہتے ہیں مبارک ہو نیا سال تمہیں
ایک اور شاعر کے یہاں بھی ہمیں خوبصورت فکر ملی، وہ کہتے ہیں کہ
نئے سال میں پچھلی نفرت بھلا دیں
چلو اپنی دنیا کو جنت بنا دیں
خوش گوار زندگی کے لیے سب سے بہتر یہی اصول ہے کہ آدمی خوش رہنے کے لیے پرانی ساری باتیں بھلا دے، انسانوں کے خوش نہ رہنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ پرانی باتوں کو زیادہ یاد رکھتا ہے، اگر آدمی پرانی باتوں کو بھلا کر نئے عزائم کر لے تو سکون کی زندگی گزار کر دنیا کو جنت بنانا ممکن ہوسکتا ہے ۔
ابن انشا کہتے ہیں
اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو
پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو
ہمارے معاشرے کے بے شمار لوگ ایسے ہیں جنہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ گزرتی ہوئی گھڑیاں ہمیں کس طرف لے جا رہی ہیں ۔
یہ حقیقت ہم سب پر پوری طرح عیاں ہے کہ سال 2021 کا جب ہم آغاز کر رہے تھے تب ہمیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ سال ہم باشندگان ملک کے لیے کس قدر زہر ناک ثابت ہو گا۔ کورونا کی دوسری لہر کی تباہیاں کون فراموش کر سکتاہے؟ دوا خانوں میں علاج کو ترستے ہوئے لوگ کس کے ذہن و دماغ سے اوجھل ہو سکتے ہیں؟ آکسیجن کی کمی سے ہونے والی اموات کسے یاد نہیں رہیں گی؟ یہ سب کچھ اب دو ہزار اکیس کے کلینڈر کا حصہ بن کر ماضی کی داستان بن گیا ہے، یہ واقعات اب ذہن و دل پر مرتسم ہو گئے، اب کبھی یہ بھلائے نہیں جا سکتے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ آنے والا سال سابقہ برسوں کے مقابلے میں ہر طرح سے ہمارے لیے بہتر ہو اور نیا سال واقعی ہماری زندگی میں تبدیلی کا باعث بنے۔
نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے
خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے
اللہ کرے کہ یہ نیا سال بعافیت گزرے جو جو کچھ پچھلے سال برا ہوا وہ دوبارہ کبھی نہ ہو۔
اخیرمیں فیض لدھیانوی کی ایک خوبصورت نظم پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں، اس میں آپ کے کئی سوالوں کے جواب پوشیدہ ہیں۔ ملاحظہ کریں
اے نئے سال بتا تجھ میں نیاپن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس نا بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
جنوری فروری مارچ میں پڑے گی سردی
اور اپریل مئی جون میں ہو گی گرمی
تیرا من دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی میعاد بسر کر کے چلا جائے گا
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
بے سبب لوگ کیوں دیتے ہیں مبارک باديں
غالباً بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فیضؔ نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی
***
***
یہ حقیقت ہم سب پر پوری طرح عیاں ہے کہ سال 2021 کا جب ہم آغاز کر رہے تھے تب ہمیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ سال ہم باشندگان ملک کے لیے کس قدر زہر ناک ثابت ہو گا۔ کورونا کی دوسری لہر کی تباہیاں کون فراموش کر سکتاہے؟ دوا خانوں میں علاج کو ترستے ہوئے لوگ کس کے ذہن و دماغ سے اوجھل ہو سکتے ہیں؟ آکسیجن کی کمی سے ہونے والی اموات کسے یاد نہیں رہیں گی؟ یہ سب کچھ اب دو ہزار اکیس کے کلینڈر کا حصہ بن کر ماضی کی داستان بن گیا ہے، یہ واقعات اب ذہن و دل پر مرتسم ہو گئے، اب کبھی یہ بھلائے نہیں جا سکتے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ آنے والا سال سابقہ برسوں کے مقابلے میں ہر طرح سے ہمارے لیے بہتر ہو اور نیا سال واقعی ہماری زندگی میں تبدیلی کا باعث بنے
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 09 جنوری تا 15 جنوری 2022