"آپ اس طرح برتاؤ کر رہے ہیں جیسے جامع مسجد پاکستان میں ہے؟” عدالت نے بھیم آرمی چیف کی ضمانت کا مقدمہ سنتے ہوئے پولیس کو لگائی پھٹکار

نئی دہلی، جنوری 14:ٖ آج منگل کے روز بھیم آرمی کے صدر چندرشیکھر آزاد کی درخواست کی سماعت کے دوران تیس ہزاری ایڈیشنل سیشن جج ڈاکٹر کامنی لؤ سرکاری وکیل پر یہ کہتے ہوئے سخت ہوئے کہ بھیم آرمی چیف کو "احتجاج کرنے کا آئینی حق ہے”۔ جب سرکاری وکیل نے ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آزاد نے جامع مسجد کے قریب سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے کی کال اپنے سوشل میڈیا پوسٹوں کے ذریعہ دی ہے تو جج نے پوچھا "دھرنے میں کیا غلط ہے؟ احتجاج کرنے میں کیا غلط ہے؟ احتجاج کرنا سب کا آئینی حق ہے۔”

یہ بتاتے ہوئے کہ آزاد کی سوشل میڈیا پوسٹوں کے میں کچھ بھی "پُرتشدد” نہیں ہے۔ جج نے مزید پوچھا "تشدد کہاں ہے؟ ان پوسٹوں میں کیا غلط ہے؟ کون کہتا ہے کہ آپ احتجاج نہیں کرسکتے؟ کیا آپ نے آئین پڑھا ہے؟”

لائیو لا کے مطابق جج نے مزید کہا "آپ ایسا سلوک کررہے ہیں جیسے جامع مسجد پاکستان میں ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ پاکستان میں ہوتا تو بھی وہاں جاکر احتجاج کرسکتے ہیں۔ پاکستان غیر منقسم ہندوستان کا ایک حصہ تھا”۔

جج نے مزید کہا کہ آزاد کی کوئی بھی پوسٹ غیر آئینی نہیں تھی۔ احتجاج کرنے کا حق ہر شخص کو حاصل ہے۔

جب پراسیکیوٹر نے کہا کہ احتجاج کے لیے اجازت نہیں لی گئی تھی تو جج نے کہا "کیسی اجازت؟ سپریم کورٹ نے کہا ہےکہ 144 کا بار بار استعمال ایک زیادتی ہے۔”

 جج نے کہا کہ انہوں نے بہت سارے سیاستدانوں کو دیکھا ہے جنہوں نے پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کیا تھا اور بعد میں وزرا بن گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آزاد ایک "ابھرتے ہوئے سیاستدان” تھے اور انہیں احتجاج کرنے کا حق ہے۔

جج نے پراسیکیوٹر سے پوچھا "میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے دکھائیں کہ کس قانون کے تحت کسی کے لیے مذہبی مقامات کے باہر احتجاج کرنا ممنوع ہے”۔

جج نے پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ کیا آزاد کے ذریعہ تشدد کا کوئی ثبوت ہے؟انھوں نے پوچھا”کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہماری دہلی پولیس اتنی پسماندہ ہے کہ ان کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں ہے؟ چھوٹے معاملات میں دہلی پولیس نے ثبوت درج کرائے ہیں اس واقعے میں کیوں نہیں؟”

آزاد کے وکیل محمود پراچہ نے عرض کیا کہ ان کی گرفتاری کے لئے کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے اور یہ کارروائی صرف اختلاف رائے کو ختم کرنے کے لئے ہے۔

اس موقع پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ آزاد کے اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے "ڈرون فوٹیج” کے ثبوت موجود ہیں۔ اس کی تردید کرتے ہوئے پراچا نے کہا کہ آزاد دھرنے کے دوران صرف آئین کو پڑھ رہے تھے اور سی اے اے-این آر سی کے خلاف بات کررہے تھے۔

اس معاملے کو کل دوپہر 2 بجے تک ملتوی کرنے سے پہلے جج نے کہا: "نوآبادیاتی دور میں احتجاج سڑکوں پر نکلا تھا۔ لیکن آپ کا احتجاج قانونی طور پر ہوسکتا ہے عدالتوں کے اندر۔ پارلیمنٹ کے اندر ایسی باتیں نہیں کہی گئیں جو نہیں کہیں گئیں۔ اور اسی وجہ سے لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ہمیں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا پورا پورا حق ہے لیکن ہم اپنے ملک کو تباہ نہیں کرسکتے ہیں۔”

آزاد کے وکیل پراچا نے کہا کہ انہیں جان بوجھ کر نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ پراچہ نے بتایا کہ عدالت کی ہدایت سے قبل انہیں ضروری طبی علاج تک نہیں کرایا گیا تھا۔

واضح رہے کہ 21 دسمبر 2019 کو سی اے اے مخلاف مظاہروں کے دروان تشدد بھڑکنے بعد پولیس کے ذریعے کئی بے قصورلوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ جس کے بعد آزاد نے ٹویٹر پر اعلان کیا تھا کہ وہ ان کی رہائی کے بدلے گرفتار ہونے کو تیار ہیں۔