آسام کی بی جے پی حکومت نے سرکاری مدرسوں کو بند کرنے کا بل منظور کرلیا، حزب اختلاف نے اسمبلی سے واک آؤٹ کیا

گوہاٹی، دسمبر 31: آسام اسمبلی نے بدھ کے روز تمام سرکاری مدرسوں کو ختم کرنے اور انھیں باقاعدہ اسکولوں میں تبدیل کرنے کا بل منظور کر لیا۔ کانگریس اور آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ نے اس بل کی مخالفت کی اور اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔

آسام کے وزیر تعلیم اور وزیر خزانہ ہیمنتا بسوا سرمہ نے ٹویٹر پر اس بل کی منظوری کا اعلان کیا۔ انھوں نے کہا ’’خوشی ہے کہ مدرسوں کی صوبائی حیثیت کو منسوخ کرنے سے متعلق بل منظور ہوچکا ہے۔ یکم اپریل 2021 سے حکومت کے تحت چلائے جانے والے تمام مدارس کو باقاعدہ تعلیمی انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل کردیا جائے گا۔‘‘

سرمہ نے بتایا کہ مدرسوں کو باقاعدہ اسکولوں میں تبدیل کرنے سے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے ممبروں کی تنخواہوں یا خدمت کی شرائط پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وزیر نے واضح کیا کہ حکومت نجی مدرسوں کو بند رکھنے یا ان کو باقاعدہ بنانے کی کوشش نہیں کرے گی۔

آسام کابینہ نے رواں ماہ کے شروع میں سرکاری مدرسوں اور سنسکرت اسکولوں کو بند رکھنے کی تجویز کو منظوری دے دی تھی۔ ریاستی حکومت نے کہا تھا کہ وہ عوامی رقم سے مذہبی تعلیم دینے کی اجازت نہیں دے سکتی ہے۔

سرمہ نے گذشتہ ماہ دی انڈین ایکسپریس کو بتایا تھا کہ آسام میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والے 610 مدرسے ہیں۔

حکومت نے فروری میں مذہبی اداروں کو بند کرنے اور پانچ ماہ کے اندر ان کو ہائی اسکولوں اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم اس فیصلے پر ہندو اور مسلم دونوں برادریوں نے شدید تنقید کی تھی۔

آسام اقلیتی طلبا یونین نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ حکومت کے ’’مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ان کے بنیادی حقوق سے انکار‘‘ کے ایجنڈے کے عین مطابق ہے۔ اس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’مدرسے صرف اسلامی صحیفے اور عربی ہی نہیں پڑھاتے، بلکہ وہ کسی بھی باقاعدہ اسکول کی طرح دیگر مضامین بھی پڑھاتے ہیں۔‘‘