آسام: ریاستی کابینہ نے سرکاری مدرسے بند کرنے کی تجویز کو منظوری دے دی
گوہاٹی، دسمبر 14: آسام کے پارلیمانی امور کے وزیر چندر موہن پٹوویری نے بتایا کہ ریاستی کابینہ نے اتوار کے روز سرکاری سطح پر چلنے والے تمام مدرسوں اور سنسکرت اسکولوں کو بند کرنے کی تجویز کو منظوری دے دی ہے۔
پٹوویری نے کہا ’’مدرسوں اور سنسکرت اسکولوں سے متعلق موجودہ قوانین کو منسوخ کیا جائے گا۔ ایک بل اسمبلی کے اگلے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔‘‘
ریاستی قانون ساز اسمبلی کا سرمائی اجلاس 28 دسمبر سے شروع ہوگا۔
واضح رہے کہ آسام کے وزیر تعلیم اور وزیر خزانہ ہمنتا بِسوا سرما نے اکتوبر میں کہا تھا کہ حکومت سرکاری مدرسوں اور سنسکرت اسکولوں کو بند کر رہی ہے کیوں کہ وہ عوامی رقم سے دینی تعلیم کی اجازت نہیں دے سکتی ہے۔
دی انڈین ایکسپریس کے مطابق سرما نے کہا تھا کہ آسام میں 610 سرکاری مدرسے ہیں اور سنسکرت کے تقریباً 1000 اسکول ہیں جن میں تقریباً 100 کے قریب سرکاری فنڈز کی مدد سے چلائے جاتے ہیں۔ ’’لہذا ہم نے ان اداروں کو عام تعلیم کے زمرے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب 600 مدرسے بند ہوجائیں گے۔ ان مدرسوں میں ہم جدید تعلیم فراہم کرنے جارہے ہیں۔‘‘
وزیر نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ’’مدرسے کی تعلیم کی خود طلبا مخالفت کررہے ہیں۔‘‘
ریاستی محکمۂ تعلیم کے لیے بجٹ مختص کرنے پر بحث کے دوران سرما نے کہا تھا کہ مدرسوں کو صوبائی حکومت کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا کیوں کہ ریاست جدید تعلیم کا نظام اپنارہی ہے۔ لوگ چاہیں تو اپنے طور پر دینی اداروں کو چلا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ آسام حکومت نے رواں سال فروری میں مذہبی اداروں کو بند کرنے اور پانچ ماہ کے اندر ان کو ہائی اسکولوں اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم اس فیصلے کو ہندو اور مسلم دونوں برادریوں کی تنظیموں کی شدید تنقید کا سامنا ہے۔
آسام اقلیتی طلبا یونین نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ حکومت کے ’’مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ان کے بنیادی حقوق سے انکار‘‘ کا مظہر ہے۔
طلبا یونین نے کہا تھا کہ ’’مدرسوں میں صرف اسلامی صحیفے اور عربی نہیں پڑھائے جاتے، بلکہ ان میں ایک باقاعدہ اسکول کی طرح دیگر مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں۔‘‘