آزاد بھارت اور معیشت: ایک اجمالی تعارف
اسلام کے سماجی معاشی نظام میں ہے انسانون کی راحت کا سامان
ڈاکٹر فرحت حسین،
رام نگر، اتراکھنڈ
( 26جنوری 2021کو بھارت 72 واں یومِ جمہوریت منا رہا ہے نیز یکم فروری کو عام بجٹ پیش کیا جانا ہے۔ اس تناظر میں عام شہری کے ناطے جمہور کہاں کھڑا ہے؟
اسی سوال کے تحت قارئینِ دعوت کے لیے پیش ہے ملکی معاشی نظام کا جائزہ)
1947ء میں انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد معاشی میدان میں سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ ملک میں کونسا معاشی نظام جاری اور ساری کیا جائے۔ اُس وقت کچھ ممالک آزاد معیشت اور نجی زمرہ کے سرمایہ دارانہ نظام یعنی capitalism کو اپنائے ہوئے تھے، جبکہ کچھ دوسرے ملکوں کو کمیونزم پسند تھا جس میں نجی ملکیت کے بجائے سماج کی یا سرکار کی ملکیت ہوتی ہے اور معاشی سرگرمیوں کی مکمل منصوبہ سازی کی جاتی ہے۔ دنیا میں ایک تیسرا سسٹم بھی رائج تھا جس میں پرائیویٹ سیکٹر کو بھی اہمیت دی جاتی ہے مگر ساتھ ہی بنیادی اور ضروری اشیاء، مصنوعات اور خدمات پر سرکاری کنٹرول ہوتا ہے اور معاشی منصوبہ سازی بھی کی جاتی ہے۔ اس تیسرے سسٹم میں چونکہ اول الذکر دونوں نظاموں کی خاص چیزوں کو اپنایا جاتا ہے اس لیے اس کو ملی جلی معیشت یا Mixed Economy کہا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں اسی تیسرے نظام کا انتخاب کیا گیا یعنی Mixed Economy کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ آزاد ہندوستان میں ٹاٹا اور برلا جیسے نجی سیکٹر کے صنعت کاروں کے لیے بھی میدان ہے اور ساتھ ہی بنیادی ضرورت کی ریل، ڈاک، تار وغیرہ سرکاری یا پبلک سیکٹر بھی کام کریں گے۔
1950ء میں منصوبہ سازی کا فیصلہ لیا گیا اور پلاننگ کمیشن وجود میں آیا۔ 1951سے پنچ سالہ منصوبہ بندی کی شروعات ہوئی اور پہلا پانچ سالہ منصوبہ بنایا گیا۔ اس منصوبے میں زراعت اور آبپاشی پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اس کے بعد کے منصوبے میں معاشی ڈھانچے کو مضبوط کرنے والی صنعتیں لگائی گئیں۔ ملک کو ترقی وخوشحالی، معاشی برابری اور خود کفالت کے مقاصد کو سامنے رکھا گیا۔ جدید ہندوستان کے پروجکٹ بھاکرہ نانگل ڈیم اور اسٹیل پلانٹ اسی طرف ایک اہم قدم تھا۔ ہندوستان ایک زرعی ملک ہے اس بات پر توجہ دیتے ہوئے زرعی اصلاحات کا بیڑا اٹھایا۔ زمینداری کے نظام کو ختم کیا گیا۔ زمین جوتنے والوں کو زمین کا مالکانہ حق دیا گیا۔ زمین کی ملکیت کی حد یعنی Land Ceiling مقرر کی گئی اور اس حد سے زیادہ کی زمین کو Landless یعنی محروم لوگوں میں تقسیم کیا گیا۔ یہ انقلابی اقدامات تھے جن کے دور رس نتائج ظاہر ہوئے۔ اس کے باوجود آبادی کے تناسب میں اناج وغیرہ کم پیدا ہو رہا تھا۔ پیداوار کو بڑھانے کے لئے نئے انداز سے کھیتی کی ترغیب دی گئی۔ چینی مل قائم کیے گئے۔ زرعی یونیورسٹیاں اور زرعی کورسز کو شروع کیا گیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے مرکزی وزیر تعلیم ہوتے ہوئے ٹیکنیکل تعلیم پر توجہ دی۔ ملک میں I.I.Ts وجود میں آئے۔ نجی سیکٹر میں صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
اندرا گاندھی نے سوشلسٹ نظریات کو آگے بڑھاتے ہوئے کئی اہم اقدامات کیے۔ ان کا ایک بڑا فیصلہ 1969میں 14بڑے بینکوں کا نیشنلائزیشن تھا۔ 1980میں 6اور بینکوں کو قومی تحویل میں لیا گیا۔ اسٹیٹ بینک 1955سے ہی سرکاری سیکٹر کا بینک تھا۔ بینکوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ قرض دینے میں کسانوں، دستکاروں سماج کے پچھڑے طبقات کو ترجیح دیں اور شرح سود بھی کم رکھیں۔ انہوں نے غریبی ہٹا نے کی مہم بھی شروع کی اور متعدد اسکیمیں جاری کیں۔ چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ امپورٹ ایکسپورٹ کو آسان کیا گیا۔
معاشی اصلاحات کا دور
1991میں نئی معاشی پالیسی (New Economic Policy) نے معاشی ترجیحات کا رخ بدلنا شروع کر دیا اس کے پیچھے اندرونی اور بیرونی دونوں عوامل کار فرما تھے۔ ایک تو عالمی اداروں کی طرف سے لبرلائزیشن اور پرائیوٹائزیشن کو اختیار کرنے اور گلوبلائزیشن کا دباؤ تھا۔ دوسری طرف ملک میں بیرونی قرضوں کا بار بڑھ رہا تھا۔ پبلک سیکٹر کی کمپنیاں منافع کے بجائے خسارے میں چل رہی تھیں، اس لیے انہیں نجی ہاتھوں میں سونپنے کے لیے Disinvestment کا عمل شروع ہوا۔
گلوبلائزیشن
عالمی اداروں کی پالیسیوں کے مدنظر گلوبلائزیشن کی طرف ملک گامزن ہوا۔ بین الاقوامی تجارتی اور ثقافتی رابطوں میں اضافہ ہوا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس میں مدد کی۔ 1995ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) وجود میں آئی جس کے ذریعے ممالک کو اپنی منڈیوں کے دروازے دوسرے ممالک کے لیے کھلے رکھنے پر زور دیا گیا۔ اس سے عالمی سطح پر ہندوستان میں بھی باہر کے ملکوں کا سامان دستیاب ہونے لگا اور باہر کی کمپنیوں سے اشتراک کر کے نئی تکنیک سے اشیاء کی پیداوار ہوئی۔ مگر اس کے ساتھ ہی میڈیا کے گلوبلائزیشن سے فحاشی کو بھی فروغ حاصل ہوا۔
نوٹ بندی اور جی ایس ٹی
2014ء میں مرکز میں این ڈی اے کی حکومت برسر اقتدار آگئی۔ اس دور میں بھی گزشتہ حکومت کے زمانے میں شروع کی گئی لبرلائزیشن اور گلوبلائزیشن کی پالیسی پر عمل جاری رہا۔ نومبر 2016ء میں ایک بہت اہم فیصلہ ملک کی کرنسی کی منسوخی (demonetization) کا فیصلہ تھا جس کے تحت ایک ہزار اور پانچ سو کی کرنسی نوٹ یکلخت بند کرنے کا اعلان کیا گیا۔ حکومت کے دعوؤں کے برعکس اس نوٹ بندی کا ملک کی معیشت پر بہت برا اثر پڑا۔ اس کے بعد ملک بھر میں GST یعنی گڈس اینڈ سروس ٹیکس کے نفاذ سے چھوٹے کاروباری بہت پریشان ہوئے کیونکہ اس میں بہت سی کارروائی کرنی پڑتی تھی۔ 2020 کے شروع میں کرونا کی عالمی وبا کووڈ-19 نے ہمارے ملک کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ اب تازہ ترین مسئلہ زرعی قوانین ہیں۔ حکومت نے زراعت سے متعلق تین قوانین بنائے ہیں جو پارلیمنٹ سے بھی منظور ہو چکے ہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے لئے ’وردان‘ (نعمت) ثابت ہوں گے جبکہ زیادہ تر کسان یونین ان کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ یہ سطور لکھتے وقت بھی آندولن جاری ہے۔ حالانکہ کسان نمائندوں اور حکومت کے ذمہ داروں کے درمیان کئی دور کے مذاکرات ہو چکے ہیں۔
کووڈ ۱۹
کورونا وبا نے پوری دنیا پر معاشرتی و معاشی اثرات ڈالے ہیں۔ ہندوستان وبا سے متاثر ملکوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔ لاک ڈاؤن نے صنعتی پیداوار پر برا اثر ڈالا اس سے روزگار بھی متأثر ہوا۔ بھارت کی GDP میں 23.9 فیصد کی کمی درج کی گئی۔ زراعت کے علاوہ تمام ہی شعبہ جات میں کمی دیکھی گئی جبکہ زراعت میں 3.4 فیصد کی ترقی ہوئی۔ وبا کے منفی اثرات ابھی تک جاری ہیں۔ معاشی اور معاشرتی زندگی ابھی معمول پر نہیں آئی ہے۔
مسائل کیا ہیں؟
ہمارا ملک جن معاشی مسائل کی گرفت میں ہے ان میں غربت، بے روزگاری، معاشی نا برابری سرِ فہرست ہیں۔ ملک کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی خطِ غربت (Poverty line) کے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ خوراک، پینے کا صاف پانی، مناسب رہائش، علاج اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل بھی بہت سے شہریوں کا مقدر نہیں ہے۔ اسی طرح روزگار یا کسبِ معاش کا فقدان ہے۔ کرونا نے اس مسئلے کو مزید بد تر بنا دیا ہے۔ کسان شاکی ہے کہ اس کو اس کی پیداوار کی لاگت بھی نہیں مل رہی ہے جب کہ عوام بازار میں مہنگائی کا رونا روتے ہیں اور تعلیم اور علاج کافی حد تک نجی سیکٹر میں جا چکے ہیں۔ حکومت کی کئی اسکیمیں اچھی ہیں اگر ان کا صحیح نفاذ عمل میں آ جائے اور غریب عوام تک ان کا فائدہ پہنچ جائے۔ اس طرح دولت کا عدم توازن بھی ایک مسئلہ ہے غریب اور غریب ہو رہا ہے اور امیر اور امیر ہو رہا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان کی خلیج میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بینکوں کے تعلق سے جو خبر آتی رہتی ہیں ان کی وجہ سے عوام کا اعتبار کم ہوتا جا رہا ہے یہ بہت تشویش کی بات ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی ملک کی معیشت کو گِھن کی طرح کھا رہی ہے ملک کے مختلف مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات بھی معاشی سرگرمیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ آن لائن کاروبار میں اضافے سے amazon, flipkart وغیرہ پھل پھول رہے ہیں جبکہ روایتی دوکاندار پریشان ہیں۔
آخری بات
معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سرکاری سطح پر کوششیں جاری ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مارکیٹ میں سرمائے کا سرکولیشن بڑھے۔ معاشی ماہرین سرکاری خرچ میں اضافے کی سفارش کر رہے ہیں۔ غریب عوام تک امدادی اسکیموں کی پہنچ کو یقینی بنایا جائے۔ ترقی باروزگار ہو۔ حال ہی میں جاری گلوبل اسلامی معیشت پر رپورٹ کے مطابق انڈیا میں حلال کاروبار کے بہت مواقع ہیں اور ایکسپورٹ بزنس میں بھی اچھا موقع ہے اسے مزید ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ غیر سودی مالیاتی نظام کو ہندوستان میں رائج کرنے کی وقتاً فوقتاً آوازیں اٹھتی رہی ہیں اور حکومت اور ریزرو بینک نے بھی اس سمت میں کچھ قدم اٹھائے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس کو ملک میں لاگو کرنے کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوں گے اور بیرونی ممالک سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ غربت کے ازالے اور معاشی نابرابری کو دور کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسلام کا سوشل فائنانس نظام جس میں زکوٰۃ و صدقات وغیرہ آتے ہیں اس پر توجہ دی جائے تو وہ بھی ملک کے ایک طبقے کو معاشی طور پر اوپر اٹھانے میں کارگر ثابت ہو گا۔ عالمی معاشی بحران کو دور کرنے کے لئے شرح سود کو کم سے کم کرتے ہوئے صفر (zero) اور منفی (Negative) تک کم کر دیا گیا۔ اس صورتحال کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے اور سودی نظام کے متبادل بلا سودی نظام کے مختلف اجزاء پر ماہرین کو غور کرنا چاہیے۔ بہت ممکن ہے کہ متبادل نظام (Alternative System) ہمیں معاشی ترقی کی طرف گامزن کر دے۔
***
غربت کے ازالے اور معاشی نابرابری کو دور کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسلام کا سوشل فائنانس نظام جس میں زکوٰۃ و صدقات وغیرہ آتے ہیں اس پر توجہ دی جائے تو وہ بھی ملک کے ایک طبقے کو معاشی طور پر اوپر اٹھانے میں کارگر ثابت ہو گا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021