حضرت محمد ﷺ کامعجزہ قرآن

قرآن کی تاثیر ایسی تھی اور ہے کہ گویا اس میں ایٹمی توانائی ہے جو دل و دماغ میں اتر جاتی ہے اور اپنے مخاطب کو بے بس کر کے اسے اپنا مطیع بنالیتی ہے۔

ڈاکٹر سید محی الدین علوی ۔ حیدرآباد

 

دعوت اسلامی کے لیے حضور اکرمؐ کے پاس آپ کے معجزہ کردار کے علاوہ دوسرا معجزہ قرآن تھا جو پے در پے نازل ہو رہا تھا اور اس کے سامنے فصحا اور شعرا کی زبانیں گنگ تھیں۔ ان کے پاس اس کا کوئی توڑ نہیں تھا اور نہ اس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں تھا۔ یہ عقلوں کو دنگ کر دینے والا اور چہروں کو فق کر دینے والا کلام تھا۔ یہ بار بار اپنے مخاطبین اور مخالفین کو چیلنج دینے والا کلام تھا۔ کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اس کی تردید کر سکتا۔ اس کلام کی بدولت رسول اکرمؐ تنہا ہوتے ہوئے بھی عظیم لشکروں کے مالک تھے اور بے بسی کے باوجود بہت زور آور تھے۔ اس کی حمایت نے آپؐ کو دوسروں کی حمایت کا محتاج نہ رکھا۔ قرآن مجید وہ عظیم کتاب ہے جس کا نزول اللہ رب العالمین کی طرف سے ہوا اور اس میں یہ تاثیر ہے کہ بھاری بھرکم ہونے کے باوجود بچے تک بآسانی اسے حفظ کر لیتے ہیں اور اس کے معنی و مطالب حکمت بھرے اور ساری دنیائے انسانیت کے لیے ہدایت کا سامان رکھتے ہیں۔ صداقت شعاری اس کی شان امتیازی ہے۔ یہ وہ مبارک کتاب ہے جس نے دنیا والوں کی کایا پلٹ دی اور انہیں تحت الثریٰ سے نکال کر اوج ثریا پر پہنچا دیا۔ قرآن مجید ایک ایسا قول فیصل ہے جس نے تمام انسانی مسائل کو حل کر دیا۔ اونچ نیچ کا فرق ختم کر دیا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ اے رسولؐ کہہ دو کہ اگر سب انسان اور تمام جن بھی مجمتع ہو جائیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں اور پھر وہ اس قرآن جیسی کوئی کتاب بنانا چاہیں تو ہر گز ہرگز ایسا نہ کرسکیں گے
(بنی اسرائیل ۸۸)
قرآن مجید کا یہ دعویٰ صدیوں سے قائم ہے اور آج بھی مخالفین اسلام بے بس ہیں۔ آج سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی نے علم و ادب میں نئی راہیں دکھائی ہیں۔ علوم و فنون کی بڑی بڑی یونیورسٹیاں قائم ہو گئی ہیں لیکن اہلِ دنیا کے سامنے یہ چیلنج برقرار ہے اور کوئی بھی اس کا جواب دینے سے عاجز ہے۔ قرآن میں جو عالمگیر سچائیاں بیان کی گئی ہیں ہر کوئی اس کا معترف ہے اور حق و صداقت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔ قرآن مجید کا مقابلہ مشکل ہے۔ قرآن مجید میں قوموں کے عروج و زوال کی جو داستانیں بیان کی گئی ہیں وہ عبرت انگیز ہیں۔ آج کا دور مادی ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے لیکن قرآن مجید میں زندگی گزارنے کے جو اصول بیان کیے گئے ہیں وہ پرانے ہونے کے باوجود آج بھی نئے اور کارآمد و مفید ہیں اور کوئی بھی ان جیسے اصول نہیں لا سکتا ہے۔ حقائق ازلی و ابدی ہیں اور مثالیں آس پاس کی ہیں۔ یہ ایسا کلام ہے جو کانوں میں رس گھولتا ہے۔ سننے والا مسحور ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو ناقابل فہم ہو یا جس کو دل و جان سے قبول کر کے عملی قالب میں ڈھالنا ممکن نہ ہو۔ یہی ہے وہ بات جسے حضرت جعفرؓ سے سن کر حبش کے بادشاہ نجاشی کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے تھے اور مظلوم و بے کس مکہ سے حبش آئے ہوئے مسلمانوں کو کفار مکہ کے وفد کے حوالے کرنے سے اس نے انکار کر دیا تھا۔ دعوت اسلامی کا یہ عظیم ہتھیار تھا جو حضورؐ کے پاس موجود تھا جس نے بادشاہوں کو ان کے بھرے درباروں میں اعترافِ حقیقت پر مجبور کر دیا تھا۔
عتبہ بن امیہ کو جو ابو سفیان کا خسر تھا اور سرداران قریش نے اسے اپنا نمائندہ بنا کر حضورؐ کے ہاں بھیجا تو حضورؐ سے سورہ حم السجدہ کی آیات سننے کے بعد اس کے دل کی دنیا بدل گئی اور واپس آ کر اپنے ساتھیوں سے یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ ”محمد کا کام محمد کو کرنے دو اگر وہ عرب پر غالب آگئے تو ان کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی اور ان کی عزت تمہاری عزت ہوگی‘‘۔
طفیل بن عمرو دوسی مشہور شاعر تھا جب وہ مکہ گیا تو لوگوں نے اس کے خوب کان بھرے لیکن حب اس نے حضورؐ سے اللہ کا کلام سنا تو اس کے دل کی دنیا بدل گئی اور اسلام قبول کرلیا۔
حضرت عمر فاروقؓ کا ایمان لانا بھی تاثیر قرآن ہی کا معجزہ ہے اسلام لانے سے پہلے وہ چلے تو تھے حضورؐ کو قتل کرنے لیکن راستے میں ان کے ایک ہم قبیلہ دوست نعیم بن عبداللہ ملے اور انہوں نے حضرت عمر فاروقؓ کو اطلاع دی کہ ان کی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید بھی حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں تو پہلے وہ غصہ کی حالت میں اپنی بہن کے گھر گئے اور مارپیٹ شروع کر دی۔ بہن کو بچانے ان کے بہنوئی سعید بن زید درمیان میں آئے تو حضرت عمر فاروقؓ نے ان کی بھی پٹائی کر دی۔ حضرت عمر فاروقؓ سے ان کی بہن حضرت فاطمہؓ نے جبکہ ان کی پیشانی سے خون بہہ رہا تھا کہا ’’عمرؓ اب تم جو چاہے کرلو لیکن اب اسلام ہمارے دل سے نہیں نکل سکتا“ بھائی کا دل پسیجا اور انہوں نے کہا کہ اچھا جو کلام ابھی تم پڑھ رہے تھے وہ لے آؤ۔ بہن نے کہا یہ اللہ کا کلام ہے اور اسے نا پاک حالت میں نہیں پڑھا جا سکتا اگر تم پڑھنا چاہتے ہو تو پہلے غسل کر لو چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور حضرت خباب بن الارتؓ جو ان دونوں میاں بیوی کو قرآن پڑھا رہے تھے اور حضرت عمرؓ سے ڈر کے مارے چھپ گئے تھے وہ کمرے سے باہر آ گئے۔ یہ سورہ طہٰ تھی جو حضرت خباب بن الارت نے پڑھنی شروع کر دی وہ پڑھتے جاتے اور حضرت عمرؓ کی دل کی دنیا بدلتی جاتی۔ وہ رو رہے تھے۔ وہ وہاں سے اٹھے اور سیدھا وقت دار ارقم پہنچے جہاں حضورؓ تشریف فرما تھے وہاں پہنچ کر انہوں نے حضور اکرمؐ کے سامنے اسلام قبول کیا جس کے بعد وہاں موجود صحابہ نے فرطِ مسرت سے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ایک شخص سوید بن صامت تھا جس کے پاس حکمتِ لقمان کا ایک نسخہ تھا۔ حضورؐ نے اسلام کی دعوت دی تو اس نے کہا ’’آپ کے پاس بھی وہی کچھ ہے جو میرے پاس ہے‘‘ حضور نے اس سے فرمایا ’’بیان کرو‘‘ اس نے کچھ عمدہ سے اشعار سنائے۔ آپ نے فرمایا یہ کلام تو اچھا ہے لیکن میرے پاس قرآن ہے جو اس سے افضل تر ہے اور ہدایت و نور ہے‘۔ پھر آپ نے اسے قرآن سنایا وہ شخص بلا کسی لیت و لعل کے مسلمان ہوگیا۔
انہیں دنوں ایک مشہور جادوگر حماد مکہ آیا اور قریش سے کہا ’’اگر تم کہو تو میں محمد کا علاج کر سکتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ حضورؐ کے پاس آیا اور کہا ’’ ائے محمد آؤ میں تمہیں منتر سناتا ہوں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’پہلے تم مجھ سے سن لو‘‘۔ پھر آپؐ نے اسے قرآن سنایا حماد نے کہا ’’ایک بار پھر سنا دیجیے‘‘۔ آپؐ نے پھر سنایا اس نے ایک بار پھر سنانے کی فرمائش کی آپ نے پھر سنایا۔ بالآخر وہ بول اٹھا:
’’میں نے بہیترے کاہن دیکھے ہیں، ساحر دیکھے ہیں، شاعر دیکھے ہیں لیکن ایسا کلام تو کسی سے بھی نہیں سنا۔ یہ کلمات تو اتھاہ سمندر ہیں۔ ائے محمدؐ اتھ بڑھائیے میں اسلام قبول کرتا ہوں‘‘۔
قرآن کی تاثیر ایسی تھی اور ہے کہ گویا اس میں ایٹمی توانائی ہے جو دل و دماغ میں اتر جاتی ہے اور اپنے مخاطب کو بے بس کر کے اسے اپنا مطیع بنالیتی ہے۔
مدینہ کا مشہور سردار اسعد بن زرارہ حضورؐکے بھیجے گئے مبلغ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی تبلیغی سرگرمیوں سے پریشان ہو کر ان کا خاتمہ کرنے کے لیے مسلح ہو کر گھر سے نکلا۔ لیکن حضرت مصعب بن عمیر سے چند ہی آیات قرآنی سن کر اتنا متاثر ہوا کہ فوری ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔
ثمامہ بن اثال مشہور سردار تھا۔ اس کو حضور اکرمؐ سے چڑ تھی اور مدینہ شہر اسے ناپسند تھا۔ وہ قید ہو کر آیا تو قید کے دوران اسے روزانہ قرآن مجید سننے کا موقع ملتا رہا اور رشد و ہدایت کی آواز کان سے ہوتی ہوئی دل تک پہنچتی رہی۔ جب آپؐ نے ازارہ مہربانی اسے قید سے آزاد کر دیا تو وہ سیدھا کنویں پر پہنچ گیا غسل کیا اور پھر واپس آکر آپؐ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔خالد بن عقبہ ایک مشہور شاعر تھا۔ وہ قرآن سن کر بے ہوش گیا۔ جب ذرا سنبھلا تو پکار اٹھا۔
’’بخدا اس کلام میں عجیب شیرینی ہے اس میں عجیب ترو تازگی ہے اس کی جڑیں سیراب ہیں اس کی شاخیں شیریں پھلوں سے لدی ہوئی ہیں اور بشر تو ایسا کلام کہہ ہی نہیں سکتا۔
ایک چرواہا جنگل میں بکریاں چراتا تھا۔ ذوالبجادین سے آنے جانے والے مسلمان مسافروں سے وہ قرآن سنتا رہتا تھا۔ بالآخر جنگل ہی میں وہ مسلمان ہو گیا اور گھر بار چھوڑ کر حضور اکرمؐ کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہو گیا۔ اس طرح جنگل کا ایک چرواہا بھیڑوں کے گلے سے نکل کر لشکر اسلام میں جا ملا۔
لبید عامری بھی ایک مشہور شاعر تھا۔ اس نے اسلام قبول کیا تو حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اس سے شعر سنانے کی فرمائش کی تو کہنے لگا۔ ’’امیر المومنین جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن عطا فرمایا ہے تب سے مجھے اشعار میں کچھ مزہ نہیں آتا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے خوش ہو کر اس کے لیے وظیفہ مقرر کر دیا۔
جنگ بدر کا واقعہ ہے۔ جبیر بن مطعم گرفتار کر لیے گئے۔ انہوں نے مسجد نبوی میں حضورؐ کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا جب حضورؐ نے یہ آیات پڑھیں کہ
’’کیا وہ خود بخود معرض وجود میں آگئے ہیں یا پیدا کیے گئے ہیں کیا آسمانوں اور زمین کی تخلیق انہوں نے کی ہے؟ لیکن وہ یقین نہیں کرتے‘‘ تو ایمان لے آئے۔
ایسا ہی واقعہ عثمان بن مظعونؓ کے قبول اسلام کا ہے۔ وہ بھی قیدیوں میں سے تھے لیکن انہوں نے جب یہ آیات سنیں ’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کا حکم دیتا ہے اور بدکاری اور ظلم سے روکتا ہے اور تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو‘‘ ان کے دل کی دنیا بدل گئی اور وہ فی الفور حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔
مشہور شاعر لبید بن ربیعہ جب قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت کو کعبہ میں آویزاں دیکھا تو قرآن کی فصاحت و بلاغت اور حسن ترتیب سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا اور پکار اٹھا کہ یہ انسانی کلام نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ بلا کسی پس و پیش کے دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔
حضرت ابو طلحہؓ انصاری نے جب یہ آیت سنی ’’تم نیکی کا اصلی درجہ نہیں پا سکتے جب تک اپنی محبوب چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں نہ دو“ تو ان کے دل پر اتنا اثر ہوا کہ اپنا پسندیدہ باغ اللہ کی راہ میں وقف کر دیا۔
رسول اکرمؐ کو قرآن کا معجزہ دیا گیا تھا جس کے سامنے
دنیا بے بس تھی اور کسی کی مجال نہ تھی کہ قرآن کے آگے کوئی بات کہہ سکے۔ قرآن کا چیلنج آج بھی برقرار ہے کہ کوئی اس جیسی ایک ہی آیت پیش کرے۔
حضرت ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ ارشاد رسولؐ ہے:
انبیا و سابقین میں کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا جسے معجزہ نہ دیا گیا ہو اور لوگ اس پر ایمان نہ لائے ہوں لیکن جو چیز مجھے دی گئی وہ اللہ جل شانہ کی طرف سے وحی ہے۔ قرآن کریم کے سبب میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے روز میرے پیروؤں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔ (مسلم)
حضور اکرمؐ کا یہ معجزہ آفتاب کی طرح درخشاں و تاباں ہے۔
ایک اعرابی نے ایک قاری سے یہ آیت سنی۔
اے زمین اپنا پانی جذب کرلے اور اے آسمان تھم جا۔ پانی جذب کر دیا گیا اور کام تمام کر دیا گیا:(ہود:۴۴)
تو میں کہنے لگا: ان الفاظ میں جو شاہانہ انداز جھلکتا ہے یہ تو صرف بادشاہ کائنات کو ہی زیب دیتا ہے کہ وہ ایسا حکم جاری فرمائے۔ چنانچہ وہ اعرابی مسلمان ہو گیا۔
***

قرآن مجید میں قوموں کے عروج و زوال کی جو داستانیں بیان کی گئی ہیں وہ عبرت خیز ہیں۔ آج کا دور ترقی کی منزلیں طے کرکے کہیں سے کہیں چلا گیا ہے لیکن آج بھی قرآن مجید میں زندگی گزارنے کے جو اصول بیان کیے گئے ہیں وہ پرانے ہونے کے باوجود آج بھی نصیحت ہیں اور کوئی بھی اس جیسے اصول نہیں لا سکتا ہے۔ حقائق ازلی و ابدی ہیں اور مثالیں آس پاس کی ہیں۔ یہ ایسا کلام ہے جو کانوں میں رس گھولتا ہے۔ سننے والا مسحور ہوجاتا ہے اور اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو ناقابل فہم ہو یا جس کو دل و جان سے قبول کرکے عملی قالب میں ڈھالنا ممکن نہ ہو۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21