یوسف گم گشتہ ۔علامہ یوسف القرضاویؒ

جنہوں نے اپنا قلم اور قدم اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

یوسف گم گشتہ یعنی وفات یافتہ علامہ یوسف القرضاوی کا حادثہ وفات اسلامی دنیا کا بہت بڑا حادثہ ہے۔26 ستمبر2022 کو آفتاب طلوع ہوا اور اسی روز علوم اسلامیہ کا آفتاب قطر میں غروب ہوگیا اور علم دین کی دنیا میں اندھیرا چھا گیا۔96 سال کی عمر پائی، اسلامی دنیا کے اہل علم اور اہل دانش نے محسوس کیا کہ عالم اسلام یتیم ہوگیا۔جو اہل علم نہیں ہیں جوفروغ علم سے، ذوق کتاب سے، جستجو و تحقیق سے، فکری قیادت سے، شعر وادب کی دنیا سے، فلسفہ ونظریات کے دھاروں سے، عالم اسلام کے احوال سے، اسلام کو پیش آنے والے خطرات سے، زمانہ کے چیلنجوں سےاوراس دنیا میں دین کے خدمت گزاروں سے اور قلم کے شہسواروں سے واقف نہیں، انہیں نہیں معلوم کہ بہت بڑے عالم دین اور رہنما اور قائد کی موت کیا ہوتی ہے خاص طور پر اس وقت جب کارزار ہستی میں فلسفوں کی بستی میں طبل جنگ پر چوٹ لگائی جاچکی ہو اور حق اور باطل کا معرکہ برپا ہو چکا ہو ۔ برصغیرکے عام کم پڑھے لکھے مسلمانوں کو سمجھانے کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ ایک اورعلامہ سید سلیمان ندوی ایک اورانور شاہ کشمیری ایک اورحمید الدین فراہی ایک اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ ایک اور ابوالکلام آزاد ایک اور ابوالاعلی مودودی ایک اور ابوالحسن علی ندوی کی موت کا حادثہ پیش گیا ہے۔موت العالم موت العالم۔
علامہ یوسف القرضاوی کی تصنیفات کی تعداد ایک سو ستر ہے وہ عالم اسلام کے جلیل القدر مصنف اور بہت بڑے ربانی عالم اور فقیہ تھے پورے عالم اسلام سے ،خواص وعوام سے ان کا تذکیر کا مربیانہ تعلق تھا، عرب دنیا کے سیاسی سماجی اور علمی اور نظریاتی نشیب وفراز سے اور حالات سے خوب اچھی طرح واقف تھے وہ اسلام کے صف اول کے مجاہد تھے وہ سپاہی بھی تھے سپہ سالار بھی تھے اور خود ہی لشکر جرار بھی تھے، یورپ اور امریکہ کے فقہ الاقلیات کے اداروں سے بھی وابستہ تھے وہ ہندوستان کی شخصیات اور تحریکوں سے واقف تھے اور ان سے ان کے قریبی روابط تھے ،وہ روایتی انداز کے عالم نہیں تھے وہ بہت سے مسائل میں مجتہدانہ نقطہ نظر رکھتے تھے اور لوگوں کو اختلاف رکھنے کا حق بھی دیتے تھے اور انانیت پسند لوگوں کی طرح یہ نہیں کہتے تھے کہ’’ مستند ہے میرا فرمایا ہوا ‘‘ سعودی عرب کی طرف سے ان کو ان کے علمی دینی کاموں کے احترام میں فیصل ایوارڈ بھی دیا کیا ۔لیکن سعودی عرب میں جب حکومت اور سیاست کی گاڑی پٹری سے اتر گئی اور اخوان کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو ان کو دہشت گرد بھی قرار دیا گیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قضیہ فلسطین میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے شدید مخالف تھے اور امریکہ کے دباو میں کئی عرب حکومتیں اسرائیل سے پینگیں بڑھارہی تھیں۔یوسف القرضاوی نے حق گوئی سے کبھی پہلو تہی نہیں کی ،کبھی تملق اور چاپلوسی کو روا نہیں رکھا،صداقت شجاعت اور عدالت کو انہوں نے اپنا شیوہ بنایا انہوں نے قطر میں رہتے ہوئے جب ضرورت ہوئی حکومت سے اختلاف کیا۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جو خدا سے ڈرتا ہو اور کسی لومۃلائم کی پروا نہ کرتا ہو جس کے دل میں خدا کے سوا کسی کا خوف نہ ہو ۔
وہ وقت آئے گا جب شیخ یوسف القرضاوی پر کتابیں لکھی جائیں گی سیمنار منعقد ہوں گے لوگ انہیں اپنِے وقت کا ابن تیمیہ اورابن قیم قرار دیں گے۔ دعوت وعزیمت کی تاریخ لکھنے والے ان کے مقام اور مرتبہ کا تعین کریں گے۔ بہت سے لوگ ان کو اپنے عہد کا امام عالی مقام قرار دیں گے ان کے افکار وخیالات سے اتفاق بھی ہوگا اور اختلا ف بھی ہوگا جیسا کہ اپنے عہد کی ہر بڑی علمی شخصیت کے ساتھ اتفاق اور اختلاف ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ مستقبل کے مورخین ان سیاہ بخت اور سیاہ رو اشخاص کا بھی تذکرہ کریں گے جنہیں یوسف القرضاوی سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ ایسے لوگوں کوایسا گروہ قرار دیا جائے گا جن کا شیطان سرغنہ ہوتا ہے ایسے لوگ ہر زمانہ میں موجود ہوتے ہیں امام ابن تیمیہ کے زمانہ میں بھی ان کے مخالفین موجود تھے، ان مخالفین کو اچھے ناموں سے نہیں یاد کیا جاتا ہے اور ان کو حزب الشیطان سمجھا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز ،چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی۔ان مخالفین کو شرار بولہبی کا نمائندہ سمجھاجائے گا۔چونکہ علامہ یوسف القرضاوی نے ان حکومتوں کی مخالفت کی جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایااوران ظالم حکومتوں نے امریکہ کی حمایت میں حماس کی مخالفت کی، اس حماس کی مخالفت کی جو اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی کے خلاف سد سکندری بن کر مزاحمت کا علم اٹھائے ہوئے ہے اس لیے کچھ دنیا دار علماء حکومت کے اشارے پر یوسف القرضاوی کو دہشت گرد قرار دینے لگے اس طرح کے ضمیر فروش اور بیگانہ ہوش اور مصروف ناو نوش حاکم وعالم ہر زمانہ میں اور ہر عہد میں پائے جاتے ہیں۔
علماء توہر ملک میں ہر دور میں ہوتے ہیں لیکن اکثریت ان علماء کی ہوتی ہے جن کا علم یک رخی یک فنی ہوتا ہے کسی ایک موضوع پر ان کواختصاص حاصل ہوجاتاہے محدث کی حیثیت سے مفسر کی حیثیت سے مفتی اور فقیہ کی حیثیت سے ،وہ اپنے دائرے سے باہر نہیں جاتے ملک کے حالات سے اور عالمی حالات سے باخبر نہیں ہوتے ہیں۔ وہ کنویں کے مینڈک تونہیں ہوتے لیکن کنویں کے باہر کی دنیا کی انہیں خبر نہیں ہوتی ہے اور صاف کہہ دیتے ہیں کہ میرا دائرہ کار نہیں ہے۔ انہیں سمجھ میں نہیں آتا ہے ایک شخص ایک فن کا معلم ہے تو سیاست میں دخل در معقولات کیوں کرے۔ لیکن یوسف القرضاوی ابوالاعلی مودودی ابو الحسن علی ندوی حسن البنا پوری امت کی قیادت کرتے تھے یہ سب وہ درویش خدا مست تھے کہ جو شرقی تھے نہ غربی ’’گھر جس کا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند‘‘ علامہ یوسف القرضاوی نے صرف عالمانہ اور محققانہ اور مفکرانہ کتابوں کا بیش بہا ذخیرہ نہیں چھوڑا بلکہ جہاد فلسطین کی پوری سرپرستی کی، حماس اور اس کے قائدین کی رہنمائی کی اور یہی حماس کی تحریک فلسطین کی سب سے بڑی مزاحمتی تحریک ہے جس کو امریکہ اور اسرائیل نے دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے اور مغرب کے مقلد اور امریک کے پٹھو مسلم حکمرانوں نے بھی’’ہز ماسٹر وائس‘‘ بن کر اسی گنبد کی صداکو دہرایاہے ۔یوسف القرضاوی عالم اسلام کے اتحاد کے سب سے بڑے داعی تھے اور عالم اسلام کے حالات پر نظر رکھتے تھے۔ انہوں نے اتحاد العالم الاسلامی کے نام سے تنظیم بھی بنائی تھی جس کی بڑی بڑی کا نفرنسیں منعقد ہوچکی ہیں۔دنیا کے بیشتر ملکوں کے علماء اور اہل دانش وبینش اس کے ممبر تھے یہ رابطہ عالم اسلامی کی متوازی تنظیم تھی، رابطہ کی پالیسیاں سعودی حکومت کے چشم وابروکو و یکھ کر تیار ہوتی تھیں لیکن اتحاد العالم الاسلامی کی تنظیم آزاد تھی کسی حکومت کی پسند اور نا پسندکی پابند نہیں تھی اور کسی کے اشارے پر نہیں چلتی تھی۔ اس کے ممبروں کی تعداد ہزاروں میں تھی جب کہیں کوئی پروگرام منعقد ہوتا ایسا لگتا ایک فوج ظفر موج ہے، دریا کی موجیں متلاطم ہیں،ہر ملک کے اور مشرق ومغرب کے نمائندے اسلام کے کارندے اسلام کی سربلندی کے جذبہ کے ساتھ موجود ہیں وہ نہ کسی میر وسلطان کے خدمت گزار ہیں نہ کسی کوکبہ شہر یار کے بار بردار ہیں۔ سادہ مزاج علامہ یوسف القرضاوی کو مسلمانوں کے درمیان جو محبوبیت حاصل تھی وہ شاہان کج کلاہ اور سلاطین عالم پناہ کو بھی حاصل نہیں تھی۔ان کا جو احترام تھا لوگوں کے دلوں میں ان کی جو محبت تھی وہ کسی اور کو میسر نہ تھی۔ شیخ یوسف القرضاوی نے اپنے عہد کی بڑی شخصیتوں کو بڑا سمجھا، ان کی پوری تصنیف ہے اپنے عہد کے مفکر اور متکلم اسلام مولانا ابو الاعلی مودودی پر، اسی طرح سے ان کی پوری تصنیف ہے مولانا ابو الحسن علی ندوی پرجن کی زبان اللہ کے ذکر سے ہروقت تر رہتی تھی اور جنہوں نے اپنے قلم کو اور قدم کو اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا دنیا کے ہر ملک میں جاکر اسلام کی صدا بلند کی۔ مولانا مودودی کا انتقال ہوا توامام یوسف القرضاوی قطر سے فورا لاہور پہنچ گئے اور نماز جنازہ پڑھائی۔ مولانا علی میاں کا رائے بریلی میں انتقال ہوا تو امیر قطر نے ان کے لیے خصوصی جہاز کا انتظام کیا اور جہاز لکھنو کے ایئرپورٹ پر پہنچ بھی گیا لیکن ان کو ایئرپورٹ سے باہر نہیں آنے دیا گیا کیونکہ قطر میں ہندوستانی سفارت خانہ سے ویزا نہیں مل سکا تھا۔ شیخ یوسف القرضاوی ان تمام شخصیتوں سے محبت کرتے تھے اور دل سے ان کا احترام کرتے تھے جنہوں نے دنیا کے مسلمانوں کا درد اپنے دل میں لیا تھا۔ ہرایک کی قدردانی اور ہر ایک سے استفادہ اور ہر ایک کا احترام، یہ توازن اوریہ اعتدال جو عرب علماء میں پایا گیا افسوس کہ ہندوستانی علماء میں مفقود رہا’’ نصیب مدرسہ یارب یہ آب آتشناک‘‘
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022