اداریہ

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔ اس سال ہمارے ملک نے اپنی آزادی کے پچہتر سال مکمل کر لیے ہیں۔ اس موقع پر ملک بھر میں آزادی کے امرت مہوتسو کا جشن بڑی دھوم دھام سے منایا گیا۔ اس دوران مختلف طریقوں سے ملک کے کارناموں کو عوام کے سامنے لایا گیا اور وشو گرو بنانے کے عزائم کا اعادہ بھی ہوا۔ پچھلے دنوں ملک عزیز کے قائدین کی جانب سے دیے جانے والے عجیب و غریب بیانات نے ہمیں آزادی کا امرت مہوتسو کے جشن اور ملک کو وشو گرو بنانے کے عزائم کی یاد دلا دی۔ ملک کے عوام کو یہ بات باور کرا دی گئی کہ اب ملک میں عوام کی فلاح و بہبود، انہیں بہتر زندگی فراہم کرنے اور ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے منصوبوں کی بنیاد پر انتخابات نہیں لڑے جائیں گے بلکہ سطحی و جذباتی نعروں اور مذہب کے استحصال کے ذریعے ہی الیکشن لڑے اور جیتے جائیں گے۔ کچھ ریاستوں کے ساتھ ساتھ گجرات میں بھی اگلے برس ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ چنانچہ ایک طرف بی جے پی اپنے گجرات میں قلعے کو بچانے کی فکر میں لگی ہے تو دوسری جانب عآپ اس قلعے میں سیندھ مارنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر دونوں ہی پارٹیاں ریاست کے ووٹروں کو مذہب کی بنیاد پر راغب کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ بی جے پی نے اتر اکھنڈ کی طرح یہاں بھی یونیفارم سیول کوڈ کا شوشہ چھوڑ رکھا ہے تو عآپ کے لیڈر نے اس معاملے میں کچھ اور آگے بڑھ کر ہندوستانی معیشت کو بہتر بنانے کا نسخہ کرنسی نوٹوں پر ہندو دیوی دیوتاوں کی تصاویر چھاپنے کے مطالبہ کی شکل میں دیا ہے۔ گویا اب یہی چیزیں ملک کی عوام کے اصل مسائل ہیں۔
حالاں کہ صورت حال یہ ہے ہمارے ملک کی عوام کا ایک بڑا حصہ آزادی کے پچہتر سال کے بعد بھی صحت اور تعلیم جیسی اہم ضرورتوں کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے۔ اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت بھی چھ سے چودہ سال کی عمر کے کم و بیش ساڑھے تین کروڑ بچے اسکول کی صورت تک نہیں دیکھ پاتے۔ پانچ سے نو سال کی عمر کی نصف سے زیادہ لڑکیاں مکمل ناخواندہ ہیں۔ ملک کی کم و بیش نصف بستیاں ایسی ہیں جن میں کوئی پرائمری اسکول تک نہیں ہے اور صرف 20 فیصد بستیوں میں ہی سکنڈری اسکول موجود ہے جب کہ 80 فیصد بستیاں اس سے محروم ہیں۔ دوسری جانب ایک سو تیس کروڑ آبادی والا ملک اپنی عوام کی صحت پر جی ڈی پی کا محض 1.5 فیصد حصہ ہی خرچ کرتا ہے جو آبادی کے تناسب کے اعتبار سے پوری دنیا میں سب سے کم ہے۔ میڈیکل انفراسٹرکچر کا یہ عالم ہے کہ ایک ہزار لوگوں کے لیے محض 1.4 بستر، ایک ہزار چار سو لوگوں پر ایک ڈاکٹر اور ایک ہزار لوگوں پر 1.7 نرسز موجود ہیں۔ ان سہولتوں میں بھی شہری و دیہی آبادی کے درمیان بے انتہا تفاوت پایا جاتا ہے، اس طرح کہ میڈیکل انفراسٹرکچر کا 75 فیصد حصہ میٹرو شہروں میں مرکوز ہے جہاں ملک کی محض 27 فیصد آبادی بستی ہے جب کہ باقی 73 فیصد آبادی ان بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے۔ پھر یہ سہولتیں بھی اس قدر غیر معیاری ہیں کہ ایک سروے کے مطابق مریضوں کی ایک بڑی تعداد علاج و معالجے کی غیر معیاری سہولتوں کے سبب موت کے گھاٹ اتر جاتی ہے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ناخواندہ لوگوں کی اتنی بڑی آبادی اور علاج و معالجے کی اس قدر کم اور غیر معیاری سہولتوں کے ساتھ ہم اپنے ملک کو ایک تعلیم یافتہ اور صحت مند ملک نہیں بنا سکتے تو اسے وشو گرو کیسے بنا سکتے ہیں؟ لیکن ان باتوں کی فکر کسے ہے۔ کسی کو یہ فکر ہے کہ ملک میں یکساں سیول کوڈ کیسے لایا جائے گویا اس کے خیال میں یہی ایک طریقہ ہے جس سے ملک کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ کوئی چاہتا ہے کہ بھارت کے کرنسی نوٹ ہندو دیوی دیوتاوں کی تصویروں سے مزین ہو جائیں تاکہ ملک کی معیشت ‘سنبھل’ جائے۔ کیا انہی اسکیموں سے ہم بھارت کو ایک عالمی طاقت بنانے جا رہے ہیں اور کیا واقعی وہ اس طرح عالمی طاقت بن سکتا ہے؟ معروف کام نگار وید پرتاب ویدک نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ آزادی کے بعد ملک میں ایک بھی حکومت ایسی نہیں آئی جس نے صحت اور تعلیم کے میدان میں کوئی انقلابی اقدامات کیے ہوں، حالاں کہ ان کے بغیر ملک کو کبھی عالمی طاقت نہیں بنایا جا سکتا۔
تشویش صرف اس امر کی نہیں کہ انتخابی مباحث سنجیدہ موضوعات سے عاری ہو گئے ہیں بلکہ اس بات کی ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے لیے پورے دھڑلے کے ساتھ مذہب کا استعمال بلکہ استحصال اب معمول کی بات ہو چکی ہے۔ بھارت کی سیاست کبھی اس نچلی سطح پر آجائے گی یہ شاید اس ملک کے سنجیدہ شہریوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا ہو گا، اور نہ یہ سوچا ہو گا کہ اروند کیجریوال جیسا باشعور اور تعلیم یافتہ سیاست داں بھی اس کا شکار ہو کر اسی رنگ میں رنگ جائے گا۔ لیکن یہ تمام سیاست داں اپنے اپنے طرز عملوں سے ملک کے آئینی جمہوری اور سماجی تانے بانے کو اس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں کہ اس کی تلافی شاید طویل عرصے تک بھی
نہیں ہو سکے گی۔
***