قبرستان کے تحفظ کے لیے خواتین میدان میں
مسرود وقف قبرستان کمیٹی کی صدر فریدہ بانوکی مثالی جدجہد
افروز عالم ساحل
بھوپال میں غائب ہوتے قبرستانوں کی کہانیوں کے درمیان ایک ایسی کہانی بھی ہے، جو آپ کو غور و فکر کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ یہ کہانی بھوپال مسرود (وارڈ نمبر 52) علاقے کے عورتوں کی ہے۔ جب ان عورتوں نے دیکھا کہ ان کے علاقے کے ایک قبرستان پر زمین مافیاؤں کی دخل اندازی زیادہ ہی بڑھتی جارہی ہے اور مرد حضرات انہیں روکنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں تب یہ عورتیں قبرستانوں کے تحفظ کے لئے خود ہی میدان میں کود پڑیں۔ حالانکہ ان کے لیے یہ کام اتنا آسان نہیں رہا۔ انہیں جہاں ایک طرف گالیاں دی گئیں اور ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں و سوال اٹھائے گئے، وہیں ان کے خلاف یہ الزام لگاتے ہوئے کہ ان کا ارادہ قبرستان پر قبضے کا ہے، مقدمہ بھی درج کرایا گیا۔ اس کے باوجود عورتوں کی اس کمیٹی نے برسوں سے زمین مافیاؤں کے چنگل میں پڑی قبرستان کی اس زمین کو نہ صرف آزاد کرا دیا ہے بلکہ اس کے سبھی دستاویزات وقف بورڈ، تحصیل اور ریوینیو ریکارڈ سے بھی نکال کر پیش بھی کر دیئے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت کرتے ہوئے مسرود وقف قبرستان کمیٹی کی صدر فریدہ بانو بتاتی ہیں کہ یہ سفر بڑا مشکلوں بھرا ہے۔ شروع سے لے کر اب تک پریشانی ہی پریشانی رہی۔ ہمیں کافی برا بھلا کہا گیا۔ ہمارے خلاف بد کلامی کی گئی ہے لیکن ہم عورتیں ڈٹی رہیں اور اپنی لڑائی جاری رکھی کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ قبرستان کا بچا رہنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سفر میں ان کی ایک ساتھی اور اس کمیٹی کی سکریٹری منور جہاں ساتھ چھوڑ چکی ہیں۔ انہیں اسی قبرستان میں دفن کیا گیا ہے۔ ان کے چلے جانے کے بعد اب بھی سکریٹری کا عہدہ خالی ہے۔فریدہ بانو کے مطابق ان کی جدوجہد کی کہانی کی شروعات سال 2017 میں ہوئی۔ یہ کہانی مسرود کے قدیم قبرستان سے جڑی ہے۔ اس قبرستان پر قبضہ کی نیت سے زمین مافیاؤں نے یہاں موجود قبروں پر مٹی اور ملبہ ڈال کر برابر کرنا شروع کر دیا تاکہ قبرستان کا وجود ہی ختم ہو جائے۔ پہلے سے موجود قبرستان کمیٹی میں شامل مردوں نے ابتدا میں اس کی مخالفت کی لیکن بعد ازاں انہوں نے زمین مافیاؤں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ تب فریدہ اپنی دوستوں کے ساتھ اس قبرستان کو بچانے کی لڑائی میں کود پڑیں۔ اس طرح سے یہ قبرستان ختم ہونے سے بچ گیا۔ حالانکہ فریدہ بانو یہ بھی بتاتی ہیں پہلے تو ہم پر خوب ہنسا گیا۔ لیکن جب ہم کامیاب ہوتے نظر آئے تو لوگ گالی گلوج اور الٹے سیدھے الفاظ کے استعمال پر اتر آئے۔
فریدہ بانو بتاتی ہیں کہ اس قبرستان کی زمین کو تین بار بیچا جا چکا ہے۔ ابھی بھی اس پر زمین مافیاؤں کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں۔ ایسے میں ہماری کوشش ہے کہ کسی طرح سے قبرستان کی باؤنڈری بن جائے تاکہ یہ قبرستان ہر طرح سے محفوظ ہو جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ جس تیزی سے ہمارے قبرستان غائب ہو رہے ہیں اس کے بعد تو ہمیں مرنے کے بعد دو گز زمین کا نصیب ہونا بھی مشکل ہو گا۔ آگے آنے والی نسل کیا کرے گی۔ آگے آنے والے دن کیسے ہوں گے۔
وہ کہتی ہیں کہ وقف جائیدادوں کو خرد برد کرنے میں بیشتر مسلمان ہی شامل ہیں۔ لیکن ہم بولتے نہیں، خاموش رہتے ہیں۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اب عورتوں کو ہی اس کے تحفظ کے لئے آگے آنا چاہیے کیونکہ جب ہمارا دخل بڑھے گا، تب ان کے اندر ایک ڈر پیدا ہو گا۔
49 سال کی فریدہ بانو سال 2009 سے ’امن دیپ مہیلا ادھیکار سمیتی‘ بنا کر اپنے علاقے کی بچیوں و عورتوں کو مفت تعلیم دینے کا کام کر رہی ہیں، ان کا یہ کام اب بھی جاری ہے اور اس کام میں بھی انہیں کافی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا۔ حالانکہ فریدہ بانو کی خود کی کہانی بھی کافی کچھ سوچنے پر مجبور کر دینے والی ہے۔ ایک طویل گفتگو میں بتاتی ہیں کہ جب وہ 11 ویں کلاس میں تھیں، تب ہی ان کے گھر والوں نے ان کی شادی کر دی۔ لیکن انہیں پڑھنے کی خواہش بہت تھی چنانچہ انہوں نے کچھ دن رک کر پھر سے سسرال میں اپنی پڑھائی جاری رکھی اور گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ حالانکہ یہ پڑھائی کرنا بھی ان کے لئے کافی جدوجہد بھرا کام رہا۔ اس کام میں بھی انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
فریدہ بانو ہفت روزہ دعوت کے ذریعہ ملک کی تمام عورتوں سے یہ اپیل کرنا چاہتی ہیں کہ آج کے زمانے میں عورتوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ آپ پیدا ہوئیں، بڑی ہوئیں اور شادی ہو گئی، صرف یہی زندگی نہیں ہوتی ہے۔ اس سے ہٹ کر بھی زندگی ہوتی ہے۔ دنیا میں آئے ہیں تو کچھ کرنے کا بھی سوچنا چاہیے۔ اور آئی ہیں تو ایک دن جانا بھی ہے۔ اس کی تیاری بھی تو ہونی چاہیے۔
بتا دیں کہ اس قبرستان کے تحفظ کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، اس میں عورتوں کو ہی سبھی اہم ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔7 رکنی کمیٹی میں صدر، سکریٹری اور خازن کے عہدہ پر خواتین ہیں جبکہ ممبروں میں 4 مرد بھی شامل ہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021