امریکی حکومت کو 30 ستمبر کو شٹ ڈاؤن کا خطرہ
نئی دہلی، ستمبر 20: ریاستہائے متحدہ کو دو ہفتوں سے بھی کم عرصے میں گورنمنٹ شٹ ڈاؤن کے امکان کا سامنا ہے اور صورت حال بہت نازک ہوتی جا رہی ہے کیوں کہ قانون ساز قلیل مدتی اخراجات کے بل پر معاہدے تک پہنچنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
واشنگٹن میں اس وقت متعدد بجٹ تجاویز زیر بحث ہیں، لیکن کسی نے بھی اتنی حمایت حاصل نہیں کی ہے کہ ڈیموکریٹ کے زیر کنٹرول سینیٹ اور ریپبلکن زیرقیادت ایوان نمائندگان دونوں میں منظوری حاصل کر سکے۔
قانون سازوں کے لیے معاہدے تک پہنچنے کی آخری تاریخ 30 ستمبر کی آدھی رات ہے، جس کے بعد ضروری خدمات کے لیے حکومتی فنڈنگ فریز ہونے والی ہے۔
کانگریس میں اپنی گواہی کے دوران میرا ریسنک، ڈپٹی اسسٹنٹ سکریٹری برائے علاقائی سلامتی نے اشارہ کیا کہ وہ صحیح نتائج کا اندازہ نہیں لگا سکتیں، لیکن تاریخی طور پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سیاسی اور عسکری امور کے بیورو کو نئے لائسنسوں کی کارروائی میں چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے یا حکومتی شٹ ڈاؤن کی صورت میں تائیوان سمیت کسی بھی شراکت دار کو نئی فوجی فروخت کی سہولت فراہم کرنے میں بھی پریشانی ہو سکتی ہے، جب تک کہ اسے ہنگامی صورت حال نہ سمجھا جائے۔
انھوں نے تائیوان کے ساتھ دفاعی تعاون پر توجہ مرکوز کرنے والے ایوان نمائندگان کی سماعت کے دوران کہا کہ ’’یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس کی ہم روک تھام کرنے کی امید رکھتے ہیں۔‘‘
گورنمنٹ شٹ ڈاؤن سے ان لاکھوں کارکنوں کو شدید مالی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، جنھیں بغیر تنخواہ کے فارغ کیا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے پارکس اور میوزیم جیسی وفاقی جائیدادیں بند ہو جاتی ہیں۔
اگرچہ پالیسی سازوں کا مقصد عام طور پر اس طرح کی صورتِ حال سے بچنا ہوتا ہے، لیکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ منسلک کچھ حامیوں نے اب تک تمام مجوزہ بلوں کی مخالفت کی ہے۔
یہ آنے والا شٹ ڈاؤن حالیہ مہینوں میں دوسری مرتبہ ہے جب دنیا کی سب سے بڑی معیشت کو مالیاتی تعطل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جون میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ممکنہ طور پر قرضوں کے نادہندہ ہونے سے بچایا جب امریکی سینیٹرز نے ہفتوں کے کشیدہ مذاکرات کے بعد وفاقی قرض کی حد کو معطل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔