مدارس کی ہی کیوں؟ آرایس ایس کی ذیلی تنظیموں کی فنڈنگ کی بھی کرائی جائے تحقیقات :ڈاکٹر ایوب

نئی دہلی، ستمبر 14: حکومت نےمسلم اداروں خصوصی طور سے مدارس کو مشتبہ قرار دے کر اب سروے کے بہانے ان کی فنڈنگ کی تحقیقات کرانے کی ہدایت جاری کی ہے ،ایسے میں اہم  سوال  یہ ہے کہ مدارس کی ہی تحقیقات کیوں ؟آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کی بھی فنڈنگ کی تحقیقات کرائی جانی چاہیئے ،کہ ملک کے ایک خصوصی طبقے (مسلمانوں) کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کے پاس پیسہ کہاں سے آرہا ہے ۔ مدارس کی فنڈنگ تو کھلی کتاب کی طرح ہے وہ مسلمانوں کے چندے  اور مالی تعاون سے چلتے ہیں ۔پیس پارٹی کے قومی صدر ڈاکٹر ایوب سرجن نےحکومت کے ذریعہ مدارس کی فنڈنگ کی جاری تحقیقات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مذکورہ خیالات کا اظہار کیا۔

ڈاکٹر ایوب سرجن نے کہا کہ بی جے پی حکومت ملک کے ترقی کے ایشو کو پس پشت ڈال کر شروع سے  ہی مسلمانوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ،مسلمان کیا کھاتا ،پہنتا ،آمدنی کے ذرائع اور اس کے تعلیمی اداروں کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے ،اس کو اس کی بڑی فکر ہے ۔ حکومت حامی مسلم تعلیمی اداروں کو دہشت گردی کے اڈّے کہہ کر پروپگنڈہ کرتے رہتے ہیں ۔ان کے پاس ہندو مسلمان کے علاوہ کوئی ایشو نہیں ہے ۔

ملک میں مہنگائی و بے روزگاری جیسا  اہم عام مسئلہ کسی سے مخفی نہیں ہے ،عوام پریشان ہیں ،ایسے حالات میں اکثریت کو گمراہ کرنے و  اہم ایشوز سے بھٹکانے کے لئے کوئی بہانہ تو چاہیئے ،جو مدارس کے سروے اور اس کی فنڈمگ جیسے ایشو سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے؟ آر ایس ایس و ان کی ذیلی تنظیموں کو کون فنڈنگ کرتا ہے سبھی کو معلوم ہے ۔ ان کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ،اور کہاں خرچ کیا جاتا ہے ؟حکومت کسی کی بھی رہی ہو ،مگر کسی نے ان کی فنڈمگ پر سوال نہیں اٹھایا ،مگر مدارس جو غریب مسلمانوں کے چندے سے چلتے ہیں ،اس پر سبھی کی نظر رہتی ہے ۔

پیس پارٹی کو حکومت کے ذریعہ مدارس کے فنڈنگ کی تحقیقات کرائے جانے پر  اعتراض نہیں ہے ،مگر آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کی بھی تحقیقات ہونی چاہیئے ،کہ ان کے پاش بے شمار پیسہ کہاں سے آرہا  ہےاور کون ان کی فنڈنگ کر رہا ہے ،صرف مدارس کے سروے و فنڈنگ کی تحقیقات پر پیس پارٹی کو اعتراض ہے ۔

ڈاکٹر ایوب نے کہا کہ قانون کی نظر میں ہر شہری برابر ہے ۔آئین میں یہ نظم ہے کہ سبھی طبقات اپنے تعلیمی ادارےآزادانہ طور پر چلا سکتے ہیں ،ایسے میں حکومت کی مدارس پر مداخلت غیر آئینی و غیر جمہوری ہے ۔ حکومت مدارس کی آڑ میں سیاسی روٹی سیکنے کا کام کر رہی ہے ،جو پیس پارٹی کو منظور نہیں ہے ۔

ڈاکٹر ایوب  نے اس ضمن میں حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ راشٹریہ سویم سویک سنگھ (آر ایس ایس)کے سابق کارکن یشونت شندے نے مہاراشٹر کی ناندیڑ کی عدالت مںر داخل کےآ گئے ایک حلف نامہ مں  دعویٰ کا  ہے کہ اس نے 2004 کے لوک سبھا انتخابات سے ایک سال قبل بم بنانے کے لیے ٹریننگ دینے والے ایک کمپ  مںو حصہ لاس تھا اور اس کے لےح آر ایس ایس سے جڑی تنںس نے ذمہ دار تھں ۔اس کیمپ میں  ملک بھر مںے کئی بم دھماکےکرنے کی منصوبہ بندی بھی بنائی گئی تھی۔حلف نامے مںڈ شندے نے آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی)کے کئی کارکنوں کا نام لاد جو بم دھماکے کی منصوبہ بندی اور اسے انجام دینے مںے کئی سطحوں پر ملوث تھے۔انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کے کارکن نے باضابطہ طور پر عدالت میں اس تعلق سے حلف نامہ داخل کیا ہے ، اس کی جانچ کون کرے گا؟ اور خاطیوں کو سلاخوں کے پیچھے کب پہنچایا جائے گا؟انہوں نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ کیا یہ ملک کو تقسیم کرنے کی سازش کا حصہ نہیں ہے، ایسے لوگوں کو آزاد کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ جانچ ایجنسیاں ان پر کاروائی کیوں نہیں کرتیں؟