وعدوں اور دعوں کے باوجود فضائی آلودگی ایک سنگین مسئلہ
زہریلی ہوا سے پُر آلودگی اور سپریم کورٹ کی وارننگ
پروفیسر ظفیر احمد ، کولکاتا
عوام بیمار ہوگی تو معیشت آئی سی یو میں چلی جائے گی
ہمارے ملک میں فضائی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے، ہر سال فضائی آلودگی اونچائی پر پہنچ رہی ہے جسے معمول پر لانا یا محدود کرنا نا ممکن نظر آرہا ہے۔ خصوصاً دارالحکومت دلی میں اس مسئلہ کے حل کے تمام تر وعدوں اور دعووں کے باجوود ہر سال موسم سرما کے آغاز میں دلی-این سی آر کے علاقے کو زہریلی ہوا کے قہر کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور فی الوقت دلی، گیس چیمبر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس سنگین صورتحال پر روک لگانے کے لیے درجہ بندی رسپانس، ایکشن پلان (جی آر اے پی) پر عمل آوری شروع کی ہے جو انسداد آلودگی کے رہنما خطوط کا مجموعہ ہے۔ حکومت دلی اور مرکزی حکومت فضائی آلودگی کے مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔ دلی حکومت نے 18؍ نومبر تک اسکولوں کو بند کر دیا ہے اور مصنوعی بارش (Artificial Rain) کے لیے بھی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن یہ مسئلہ کا کوئی پائیدار حل نہیں ہوسکتا۔ عدالت عظمی کی سختی قابل ستائش ہے۔ مرکزی حکومت اپنی نگرانی میں تمام متصل ریاستوں سے رابطہ کرکے ماہرین کی نگرانی میں حتمی منصوبہ تیار کرے تاکہ ایسے انتہائی سنگین اور حساس مسئلہ کا دائمی حل نکل آئے اور فضائی آلودگی کو کمترین سطح پر لایا جاسکے جس سے عوامی صحت کو بہتر بنایا جاسکے۔ موجودہ حالات میں مرکزی اور پنجاب کی حکومتیں اس سے بہتر کر بھی نہیں سکتی تھیں۔ مرکز، ہریانہ، اتر پردیش کی بی جے پی حکومتوں کو اپنے ذرائع و سائل کو بہتر طریقے سے استعمال میں لانا ہوگا اور اپنے سامنے سائنسی اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر اپنے طور پر بھر پور کوشش کرنی ہوگی۔ مرکزی حکومت کو اس ضمن میں قائدانہ رول ادا کرنا چاہیے تھا مگر اس کی اس طرح کی کاہلی اور طور طریق سے ستر فیصد شہریوں کو فضائی آلودگی کی مار جھیلنی پڑ رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی کو اس سنگین مسئلہ کو ترجیحات میں رکھ کر آگے آنا ہوگا ورنہ صحت مند بھارت کا دعویٰ محض جملہ ثابت ہوگا۔ عوام بیمار ہوگی تو معیشت آئی سی یو میں چلی جائے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ اتوار سے دلی این آر سی میں فضائی آلودگی کا گراف مزید اوپر چلا گیا ہے۔ کئی علاقوں میں اے کیو آئی کی سطح 500 تک پہنچ گئی ہے۔ سسٹم آف ایر کوالیٹی اینڈ ویدر فور کاسٹنگ اینڈ ریسرچ کی پیش گوئی کے مطابق دلی، این آر سی کو بہت جلد راحت ملنے کی توقع نہیں ہے۔
فضائی آلودگی کی سنگین اور حساس صورت حال پر نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ کی بنچ نے پڑوسی ریاستوں پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش اور راجستھان کی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ کوڑا (پرالی) کے جلانے پر سختی سے روک لگائیں۔ ساتھ ہی دلی حکومت کو بھی لتاڑا ہے۔ زہریلی ہوا اور فضائی آلودگی کے وقت ٹرانسپورٹ پر طاق-جفت کا منصوبہ بہت زیادہ موثر نہیں ہے۔ اس سنگین مسئلہ پر مختلف ریاستوں کے درمیان لعن طعن کا سلسلہ جاری ہے۔ سپریم کورٹ نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر وقت سیاسی جنگ نا قابل قبول ہے کیونکہ کوڑا جلانے کے مسئلے پر دلی او متصل ریاستوں کے درمیان بیان بازی شروع ہوجاتی ہے۔ کسانوں کو کوڑا جلانے سے روکنے کے لیے بہت ساری کوششیں بھی کی گئیں ہیں انہیں معاوضہ دینے کی بات بھی آئی ہے، مشینوں کا انتظام بھی کیا گیا ہے، معاشی سزا دینے کی بات بھی ہوئی ہے۔ کئی طرح کے جرمانے بھی تجویز کیے گئے ہیں مگر کوڑا جلانا بند نہیں ہوا۔ ریاستی حکومتوں نے اپنے دفاع میں بہت سارے اعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ان سب حرکتوں کو فوری بند کیا جائے اور عدالت کو ضروری معلومات فراہم کی جائیں ۔ اس کی ذمہ داری متعلقہ تھانہ کے افسروں کو دی گئی ہے تاکہ ریاستوں کے محکموں کی نگرانی کی جاسکے اور تمام تھانوں کے ذمہ داروں کی نگرانی ریاست کے چیف سکریٹریز کریں گے۔
دلی اور ملک کی فضائی آلودگی کی بڑی وجہ ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی بڑی تعداد ہے۔ عدالت نے ریاستی حکومت کو دلی کی طرف رجسٹرڈ ٹیکسیوں کو چلانے کی اجازت دینے کا حکم دیا ہے۔ ڈیزل سے چلنے والی تمام گاڑیوں کو جن کی عمر پانچ سال ہوچکی ہے دلی میں ممانعت کر دی گئی ہے۔ یہ جگ ظاہر ہے کہ فضائی آلودگی سے دلی اور این سی آر کے لوگوں کی صحت پر بہت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دھان کی زراعت بڑھانے خصوصاً پوسا 44 کوالیٹی والے دھان کی زراعت کی بھی بات چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر فصلوں پر ایم ایس پی بڑھا کر دینے کا مشورہ بھی آیا ہے۔ اب جبکہ فضائی آلودگی انتہائی سنگین شکل اختیار کر گئی ہے اور جو کچھ بچا ہے اسے دیوالی اور تیوہاری موسم پورا کر دے گا۔ سپریم کورٹ کے دیگر بنچوں نے کیمیکلس والے پٹاخے جلانے پر دلی سمیت ملک بھر میں پابندی عائد کر رکھی ہے۔ توقع ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے اس پر عمل آوری کو لازم کیا جائے گا۔ عدالت نے دہلی پولیوشن کنٹرول بورڈ کو ہدایت دی ہے کہ رئیل ٹائم ڈاٹا جاری کرے جو فضا کو مختلف ذرائع سے آلودہ کرنے کی ذمہ دار ہے۔
یہ عدالت کی طرف لازمی مداخلت ہے۔ ان تمام ہدایات اور پابندیوں سے اوپر اٹھ کر عوام الناس کو مذہبیت اور رسم و رواج کے ساتھ اپنی انسانی اور اخلاقی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا۔ مذہب کا استعمال بندگان خدا کے لیے رحمت ہے نہ کہ زحمت؟
اوسط ایر کوالیٹی انڈیکس (اے کیو آئی) دلی کے اکثر علاقوں میں 400 سے 500 کے درمیان درج کی گئی ہے جسے طبی اعتبار سے کافی خطرناک مانا جارہا ہے۔ 400 یا اس سے زائد اے کیو آر کو بہت سنگین مانا جاتا ہے جس کی وجہ سے کئی خطرناک اور کرانیک بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے اگر یہ فضائی آلودگی لمبے عرصے تک برقرار رہتی ہے تو اس ماحول میں رہنے والے لوگوں کو ذیابطیس سے لے کر مینٹل ہیلتھ میں خرابی کے ساتھ آکسیجن کی سطح بھی کم ہوسکتی ہے اور جسم کے کئی حصوں پر برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق فضائی آلودگی سے سانس لینے میں تکلیف، دمہ، کھانسی، بخار، گلے میں خراش، آنکھوں میں جلن جیسے طبی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ آلودہ ہوا میں کاربن مونو آکسائیڈ، لیڈ، نائیٹروجن آکسائیڈ اور اوزون کی مقدار ہوسکتی ہے جس سے صحت پر خطرناک اثرات کا پڑنا فطری ہے۔ ایسے کیمیکلس جسم میں آکسیجن کی سطح کم کرتے ہیں۔ جب خون میں آکسیجن کی مقدار کم ترین سطح پر آجاتی ہے تو اسے ہاپو کیسمیا کہتے ہیں۔ نتیجتاً پھیپھڑوں کی قوت عمل متاثر ہوتی ہے۔ سردرد، دل کی تیز رفتار کا مسئلہ، سانس لینے میں دقتیں اور جلد کے نیلی پڑنے کے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ایسے حالات سے مقابلے کے لیے اور پھیپھڑوں کو صحت مند رکھنے کے لیے غذا میں ایسی اشیا کو شامل کیا جائے جس سے خون میں آکسیجن کی سطح برقرار رہے۔ لیمن جس میں وٹامن سی ہوتا ہے او اینٹی آکسیڈنٹ کا کام کرتا ہے جو ہومو گلوبن کے مقدار کو بڑھانے میں معاون بھی ہوتا ہے یہ لیمن، جگر کو ڈی ٹاکسیفائی بھی کرتا ہے اور فاسد مادہ کو خارج کرتا ہے۔ روزانہ خالی شکم ایک گلاس گرم پانی میں لیمن ڈال کر پینے سے آکسیجن کا لیول معمول پر رہتا ہے۔ وٹامن سی والی چیزیں جسم کی قوت دفاع کو بڑھانے میں بھی معاون ہوتی ہیں اس کے علاوہ موسمی سبزیوں کا استعمال بھی صحت کے لیے مفید ہوتا ہے مثلاً چقندر کی طرح گاجر میں وٹامن کے ساتھ فائیٹو کیمیکلس، اینڈی انفلیمیٹری اور اینٹی آکسائیڈنٹس کے خواص پائے جاتے ہیں۔ یہ جسم سے فاسد مادے نکالنے کے ساتھ لنگس میں آکسیجن لیول بڑھانے میں بہت مفید ہے۔ انار جو ایک جنتی پھل ہے جس میں وٹامن B3 اور B6 اور کولن ہوتا ہے جو جسم میں نائٹرک آکسائیڈ کی مقدار کو کم کرکے خون کی ترسیل میں معاون ہے۔ مطالعہ سے واضح ہوا ہے کہ انار کا استعمال خون کے نسوں کے پھیلاو میں معاون ہے اور ہیمو گلوبن کی سطح بھی بڑھتی ہے اور آکسیجن کے لیول میں اصلاح بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر سبزیوں اور پھلوں سے بھی اپنے آپ کو صحت مند رکھا جا سکتا ہے۔
اسلام انسانی صحت اور اس ماحول کو جس میں انسان رہتا ہے رب کائنات کی عظیم نعمتیں قرار دیتا ہے اور ایسے رویے اختیار کرنے سے روکتا ہے جو انہیں تباہ کرنے والے ہوں۔ وہ انسانوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے آپ کو قتل نہ کریں یعنی ایسے طور طریقے اختیار نہ کریں جن سے ان زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں۔ فضائی آلودگی سراسر انسانی بے اعتدالیوں کا نتیجہ ہے۔ حکومت خود جانتی ہے کہ کہاں کہاں بے اعتدالیاں ہو رہی ہیں مثلاً جنگلات کی کٹائی، پانی اور ایندھن کا بے جا و بے دریغ استعمال وغیرہ۔ اور انہیں روکنے کے لیے قوانین بھی بنا رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے چاہیے کہ وہ عوام الناس میں بھی آلودگی سے متعلق شعور پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اور عوام الناس کو بھی چاہیے کہ وہ اس معاملے میں سنجیدگی اختیار کریں اور ایسے کاموں سے پرہیز کریں جن سے ماحول خراب ہوتا ہو۔
***
***
فضائی آلودگی کی سنگین اور حساس صورت حال پر نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ کی بنچ نے پڑوسی ریاستوں پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش اور راجستھان کی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ کوڑا (پرالی) کے جلانے پر سختی سے روک لگائیں۔ ساتھ ہی دلی حکومت کو بھی لتاڑا ہے۔ زہریلی ہوا اور فضائی آلودگی کے وقت ٹرانسپورٹ پر طاق-جفت کا منصوبہ بہت زیادہ موثر نہیں ہے۔ اس سنگین مسئلہ پر مختلف ریاستوں کے درمیان لعن طعن کا سلسلہ جاری ہے۔ سپریم کورٹ نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر وقت سیاسی جنگ نا قابل قبول ہے ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2023