اتراکھنڈ: اعلیٰ ذات کے طالب علموں کی جانب سے کھانے کا بائیکاٹ کرنے پر دلت باورچی کو نوکری سے نکال دیا گیا

نئی دہلی، دسمبر 25: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق اتراکھنڈ کے چمپاوت ضلع کے ایک سرکاری اسکول میں باورچی کے طور پر کام کرنے والی ایک دلت خاتون کو اونچی ذات کے طلبا کے ذریعے دوپہر کے کھانے کا بائیکاٹ کیے جانے کے بعد برخاست کردیا گیا۔ ضلعی حکام نے دعویٰ کیا کہ سنیتا دیوی کی تقرری کے دوران اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔

ریاستی حکومت کے ایک اہلکار کے مطابق گورنمنٹ انٹر کالج، سکھی دھانگ کے پرنسپل پریم سنگھ کو اعلی حکام سے دیوی کی تقرری کی منظوری نہیں ملی۔

چمپاوت ضلع کے چیف ایجوکیشن آفیسر آر سی پروہت نے کہا ’’ہم نے انکوائری کے دوران پایا کہ کالج کے پرنسپل نے تقرری میں اصولوں پر عمل کرنے میں لاپرواہی کی تھی۔ اس کے بعد، ہم نے متفقہ طور پر دلت بھوجن ماتا [باورچی] کی تقرری منسوخ کردی۔‘‘

دیوی نے 13 دسمبر کو اسکول جوائن کیا تھا اور 22 دسمبر کو اسے نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ اس نے شکنتلا دیوی کی جگہ لی تھی، جو کہ ایک اونچی ذات کی خاتون تھی۔ اسکول میں باورچیوں کی دو پوسٹیں ہیں۔ دوسرے کا تعلق اعلیٰ ذات سے ہے۔

پرنسپل نے کہا کہ 14 دسمبر کو تقریباً 40 اعلیٰ ذات کے طلبا نے کھانا چھوڑ دیا۔

وہیں اعلیٰ ذات کے طلباء کے والدین نے بھی مڈ ڈے میل کے بائیکاٹ کی حمایت کی۔ انھوں نے الزام لگایا کہ سنیتا دیوی کو ایک مستحق امیدوار پشپا بھٹ پر ترجیح دی گئی جو کہ برہمن ہے۔

اس کے بعد حکومت نے اسکول میں سنیتا دیوی کی تقرری کی تحقیقات کا آغاز کیا۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق چیف ایجوکیشن آفیسر نے کہا کہ قواعد کے مطابق باورچی کو سب ایجوکیشن آفیسر کی منظوری کے بعد ہی کام دیا جاتا ہے۔

چیف ایجوکیشن آفیسر نے کہا ’’پرنسپل کو تقرری سے پہلے منظوری لینی چاہیے تھی لیکن وہ اصولوں پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔ معمول کے مطابق تقرری سے پہلے ڈی ای او [ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر] سے منظوری ضروری ہے۔ اب پوری کارروائی دوبارہ کی جائے گی اور دلت بھجن ماتا دوبارہ درخواست دے سکتی ہیں۔‘‘

خبر کے مطابق جب تک نیا باورچی مقرر نہیں ہوتا، ایک اعلیٰ ذات کی عورت دوپہر کا کھانا بنائے گی۔

دلت باورچی کو برطرف کرنے کے بعد پرنسپل نے کہا کہ طلبا نے اپنا بائیکاٹ ختم کر دیا ہے اور وہ اسکول میں پکا ہوا کھانا کھا رہے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ حکام کو دیوی کی تقرری میں ’’کچھ کوتاہیاں ملیں‘‘۔ ہم اس پوسٹ کے لیے معمول کے مطابق دوبارہ عمل شروع کریں گے۔‘‘

پیرنٹس ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر نریندر جوشی نے کہا کہ اونچی ذات کے طلبا کے والدین نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم کارکنوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔

اتراکھنڈ پریورتن پارٹی کے صدر پی سی تیواری نے ہندوستان ٹائمز کو بتایا ’’یہ ایک سماجی برائی ہے کہ اعلیٰ ذات کے طالب علم دلت عورت کی طرف سے بنائے گئے دوپہر کے کھانے کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں حکام کو اسے دوبارہ تعینات کرنا چاہیے اور ایک مثال قائم کرنی چاہیے۔‘‘

ایک مقامی کارکن انیتا آریہ نے کہا کہ اس طرح کا امتیازی سلوک درج فہرست ذات سے تعلق رکھنے والوں کو الگ کر دے گا۔

انھوں نے مزید کہا ’’دلت عورت کو بھوجن ماتا کے طور پر خدمت کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے اگر وہ اصولوں کو پورا کرتی ہے اور اونچی ذات کے طالب علموں کے والدین کو سمجھنا چاہیے کہ اس سے معاشرے کا آپسی تعلق مضبوط ہوگا۔‘‘