لکھنؤ کی ایک عدالت نے اپنی کتاب میں ہندوتوا پر تبصرہ کرنے پر سلمان خورشید کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا

نئی دہلی، دسمبر 23: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق اتر پردیش کے لکھنؤ شہر کی ایک مجسٹریٹ عدالت نے بدھ کے روز پولیس کو حکم دیا کہ کانگریس کے سینئر لیڈر سلمان خورشید کے خلاف ان کی کتاب ’سن رائز اوور ایودھیا: نیشن ہڈ ان آور ٹائمز‘ میں ہندو مذہب کا بوکو حرام اور آئی ایس آئی ایس جیسی دہشت گرد تنظیموں سے موازنہ کرنے پر پہلی معلوماتی رپورٹ درج کی جائے۔

نومبر سے ہی سلمان خورشید کی اس کتاب کو بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندو سینا کے لیڈروں کی جانب سے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دو وکلاء، ونیت جندال اور راج کشور نے بھی خورشید کی کتاب پر یہ کہتے ہوئے پابندی لگانے کی درخواست کی تھی کہ اس سے عوامی امن میں خلل پڑ سکتا ہے۔ لیکن دہلی ہائی کورٹ نے کتاب پر پابندی لگانے سے انکار کر دیا تھا۔

بدھ کے روز ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ شانتنو تیاگی نے پولس کو حکم دیا کہ وہ اتر پردیش کی رہائشی شبھانگی تیاگی کی شکایت پر تین دن کے اندر ایف آئی آر درج کرے۔

اس نے الزام لگایا ہے کہ کتاب کے کچھ حصے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ خورشید کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے لیے تھانے میں درخواست دی گئی ہے۔ چوں کہ پولیس نے اس کی درخواست پر کوئی کارروائی نہیں کی اس لیے اس نے عدالت میں درخواست دائر کی۔

مجسٹریٹ نے کہا ’’درخواست کے مطالعہ اور اس کی حمایت میں اٹھائے گئے دلائل پر میری رائے ہے کہ سلمان خورشید کے خلاف قابلِ سزا مقدمات بنائے گئے ہیں۔‘‘

کانگریس کے سینئر رہنما کی کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’سناتن دھرم اور کلاسیکی ہندو مذہب جسے باباؤں اور سنتوں کے نام سے جانا جاتا ہے، کو ہندوتوا کے ایک مضبوط ورژن کے ذریعے ایک طرف دھکیل دیا جا رہا ہے، تمام معیارات کے مطابق حالیہ برسوں کا یہ سیاسی ورژن داعش اور بوکو حرام جیسے گروہوں کے جہادی اسلام سے ملتا جلتا ہے۔‘‘

تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب بی جے پی کے انفارمیشن ٹیکنالوجی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے ٹویٹر پر اس اقتباس کو شیئر کیا۔ اس کے بعد بی جے پی کے دیگر لیڈروں نے بھی بابری مسجد تنازعہ سے متعلق خورشید کی کتاب کے اس اقتباس پر تنقید کی۔

اتراکھنڈ کے نینی تال شہر میں خورشید کے گھر کو 15 نومبر کو آگ لگا دی گئی تھی۔ اس معاملے میں چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔