اتراکھنڈ کی کابینہ نے تبدیلیِ مذہب مخالف قانون کے تحت قید کی سزا کو 10 سال کرنے کی تجویز کو منظوری دی
نئی دہلی، نومبر 17: انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق اتراکھنڈ کی کابینہ نے بدھ کو ریاست کے انسداد تبدیلیِ مذہب قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ قید کی سزا کو پانچ سال سے بڑھا کر دس سال کرنے کی تجویز کو منظوری دے دی۔
اتراکھنڈ بی جے پی کی حکومت والی ان کئی ریاستوں میں سے ایک ہے جنھوں نے تبدیلی مذہب کے خلاف قانون نافذ کیا ہے۔ اتراکھنڈ فریڈم آف ریلیجن ایکٹ جو 2018 میں منظور ہوا، کہتا ہے کہ ’’زبردستی یا دھوکہ دہی سے تبدیلی مذہب‘‘ ناقابل ضمانت جرم ہیں۔
کابینہ کی طرف سے منظور کردہ تجویز سے جبری مذہب کی تبدیلی کو قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے گا، جس سے پولیس افسر کسی بھی شخص کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کر سکے گا۔
ایک نامعلوم سرکاری اہلکار نے بتایا کہ ترامیم کو متعارف کرانے والی ایک قانون سازی ریاستی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں پیش کی جائے گی، جو 29 نومبر سے شروع ہو رہا ہے۔
اخبار کے مطابق ریاستی بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر مہندر بھٹ نے کہا کہ یہ قدم ریاست میں جبری تبدیلی مذہب کو روکنے کے لیے سنگ میل ثابت ہو گا۔
اس قانون کے تحت جیل کی سزاؤں میں اضافہ بی جے پی کے، فروری میں ریاستوں میں اسمبلی انتخابات سے قبل ’’لو جہاد‘‘ سے نمٹنے کے وعدے کا حصہ تھا۔
’’لو جہاد‘‘ ایک سازشی نظریہ ہے جو ہندوتوا کارکن استعمال کرتے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ اس میں مسلمان مرد شامل ہیں جو ہندو خواتین کو ان سے شادی کرنے کے لیے لالچ دیتے ہیں تاکہ بعد میں انھیں اسلام قبول کروا سکیں۔
یہ اصطلاح فروری 2020 میں لوک سبھا میں بی جے پی کی زیرقیادت مرکز کے اس بیان کے باوجود استعمال کی جا رہی ہے کہ ’’کسی بھی مرکزی ایجنسی کی طرف سے ’’لو جہاد‘‘ کا کوئی معاملہ رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔‘‘