اتر پردیش: کاشی وشوناتھ مندر کے بارے میں تبصرہ کرنے پر دلت پروفیسر کے خلاف مقدمہ درج
نئی دہلی، مئی 11: اترپردیش پولیس نے منگل کو لکھنؤ یونیورسٹی کے ایک دلت پروفیسر کے خلاف وارانسی کے کاشی وشوناتھ مندر کے بارے میں قابل اعتراض تبصرہ کرنے کے الزام میں پہلی معلوماتی رپورٹ درج کی ہے۔
روی کانت، جو یونیورسٹی کے ہندی ڈپارٹمنٹ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، کے خلاف شہر کے حسن گنج پولس اسٹیشن میں امن دوبے نامی ایک طالب علم کی شکایت کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
دی وائر کے مطابق دوبے نے اپنی شکایت میں الزام لگایا کہ ایک نیوز ویب سائٹ کے لیے آن لائن مباحثے کے دوران پروفیسر کے ریمارکس نے کیمپس میں ہندو طلبہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ کانت کاشی وشوناتھ مندر اور گیانواپی مسجد کمپلیکس کے تنازعہ کے بارے میں بات کر رہے تھے۔
کانت نے دعویٰ کیا کہ اس نے بحث کے دوران اپنی ذاتی رائے نہیں دی تھی بلکہ انھوں نے بی پتابھی سیتارامیا کی لکھی ہوئی کتاب فیدرز اینڈ سٹونز سے ایک کہانی کا حوالہ دیا تھا۔
کانٹ پر دفعہ 153-A (مذہب وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 504 (امن کی خلاف ورزی کو ثابت کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین)، 505 (2) (عبادت گاہوں میں عوامی فساد کے لیے سازگار بیانات) اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 66 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق اس سے پہلے منگل کو لکھنؤ یونیورسٹی کیمپس میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کی طرف سے کانت کے خلاف ایک احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
اے بی وی پی کیمپس کے صدر پردیپ کمار موریہ نے کہا کہ کچھ طلبا نے کانت سے اس وقت ملاقات کی تھی جب وہ پراکٹر کے دفتر کے اندر تھے اور ان سے اپنے ریمارکس کے لیے معافی مانگنے کو کہا تھا۔
دی انڈین ایکسپریس کے مطابق موریہ نے مزید کہا ’’وہ [کانت] پراکٹریل بورڈ کے ارکان کی موجودگی میں باہر آئے اور اپنے تبصرے پر افسوس کا اظہار کیا۔ طلبہ کو تسلی دی گئی۔ تاہم چند منٹ بعد کانت نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ اے بی وی پی اسے ’لِنچ‘ کرنا چاہتی ہے۔ اس کے بعد ہم نے ایک بار پھر مظاہرہ شروع کیا اور یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ انھیں برطرف کیا جائے کیوں کہ وہ کیمپس میں نفرت پھیلا رہا ہے۔‘‘
کانت نے دعویٰ کیا کہ اس بحث کی ایک ترمیم شدہ ویڈیو سوشل میڈیا پر ان کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر شیئر کی جا رہی ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق انھوں نے کہا ’’پروکٹوریل بورڈ کے دفتر میں میں نے طلبہ پر واضح کر دیا کہ اگر وہ مکمل ویڈیو دیکھیں تو ان کی الجھن دور ہو جائے گی۔‘‘ "میں نے ٹی وی مباحثے میں جو کچھ کہا اس پر افسوس کا اظہار کیا اگر میں نے اس سے دوسرے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔‘‘
پروفیسر نے یہ بھی کہا کہ انھیں اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیوں کہ وہ دلت ہیں۔
انھوں نے الزام لگایا ’’اس کے پیچھے کچھ ساورن [اونچی ذات کے] اساتذہ کا ہاتھ ہے۔ جب میں پراکٹر کے دفتر کے اندر تھا، طلباء دروازے پر زور سے دستک دے رہے تھے…ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجھے مارنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس کے بارے میں سوشل میڈیا پر لکھا لیکن بعد میں اس پوسٹ کو ڈیلیٹ کر دیا۔‘‘
اس واقعے کی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں طلبا کو کانت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ایک ویڈیو میں، مبینہ طور پر پراکٹر کے دفتر کے باہر طلبا کے ایک گروپ کو پولیس کی موجودگی میں ’’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔
کانت نے کہا کہ اس نے مقامی پولیس سٹیشن میں کئی طلبا کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔
شکایت میں کانت نے کہا کہ اے بی وی پی کے اراکین اور ’’دیگر شرپسند عناصر‘‘ نے ان کے تبصرے کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا۔
دریں اثنا ہندوستان ٹائمز کے مطابق لکھنؤ یونیورسٹی کے ترجمان درگیش سریواستو نے کہا کہ کانت کو ویڈیو میں اپنے ریمارکس کی وضاحت کے لیے نوٹس بھیجا گیا ہے۔ انھیں تین دن میں جواب دینے کو کہا گیا ہے۔
سریواستو نے ان دعوؤں کی بھی تردید کی ہے کہ طلباء نے کیمپس کے اندر کانت پر حملہ کرنے کی کوشش کی یا بدتمیزی کی۔