امریکی عہدیدار برائے مذہبی آزادی نے حجاب پر لگی پابندی پر تنقید کی، ہندوستان کا کہنا ہے کہ تبصرہ حقائق پر مبنی نہیں

نئی دہلی، فروری 12: ریاستہائے متحدہ کے دفتر برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی جانب سے کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کی تنقید کے ایک دن بعد ہندوستان نے ہفتے کے روز کہا کہ ملک کے اندرونی معاملات پر ’’تبصرے‘‘ خوش آئند نہیں ہیں۔

مرکزی وزارت خارجہ کے ترجمان اندم بغچی نے کہا ’’ہمارا آئینی ڈھانچہ اور طریقہ کار، نیز ہماری جمہوری اخلاقیات اور سیاست وہ سیاق و سباق ہے جس میں مسائل پر غور اور حل کیا جاتا ہے۔ جو لوگ ہندوستان کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ ان حقائق کی مناسب تعریف کریں گے۔‘‘

جمعہ کے روز امریکہ کی بین الاقوامی مذہبی آزادی کے سفیر رشاد حسین نے کہا تھا کہ کرناٹک میں حجاب پر پابندی خواتین اور لڑکیوں کو پسماندہ کرتی ہے۔

حسین نے ٹویٹ کیا ’’مذہبی آزادی میں اپنے مذہبی لباس کو منتخب کرنے کی صلاحیت شامل ہے۔ بھارتی ریاست کرناٹک کو مذہبی لباس کی اجازت کا تعین نہیں کرنا چاہیے۔ اسکولوں میں حجاب پر پابندی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی اور خواتین اور لڑکیوں کو پسماندہ کرتی ہے۔‘‘

حسین کا یہ بیان مرکزی وزیر برائے امور خارجہ ایس جے شنکر کی میلبورن میں چوتھی کواڈ وزارتی میٹنگ میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات کے چند گھنٹے بعد آیا ہے۔

کرناٹک میں، گورنمنٹ ویمنز پری یونیورسٹی کالج کی طالبات گزشتہ ماہ اس وقت سے احتجاج کر رہی ہیں جب انھیں حجاب میں ملبوس ہونے کی وجہ سے کلاس میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسی طرح کے احتجاج ریاست بھر میں ہوئے ہیں۔ 5 فروری کو کرناٹک حکومت نے ایسے کپڑوں پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا تھا جو ’’مساوات، سالمیت اور امن عامہ کو خراب کرتے ہیں۔‘‘

جمعرات کو کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک عبوری حکم نامہ جاری کیا جب تک عدالت میں اس پر سماعت ہو رہی ہے تب تک اسکولوں اور کالجوں میں زعفرانی اسکارف یا حجاب پر پابندی لگا دی جائے۔

کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی واڈرا اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی سمیت کئی افراد اور گروہوں نے حجاب پر پابندی کی مذمت کی ہے۔