امریکی حکومت کی رپورٹ میں ہندوستان میں ’’انسانی حقوق کو درپیش اہم مسائل‘‘ کو نشان زد کیا گیا
نئی دہلی، مارچ 21: پیر کو ریاستہائے متحدہ کی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک سالانہ رپورٹ میں ہندوستان میں ’’انسانی حقوق کو در پیش سنگین مسائل‘‘ کو نشان زد کیا گیا، بشمول ماورائے عدالت قتل، تشدد اور من مانی گرفتاریاں۔
یہ رپورٹ ریاستہائے متحدہ کے سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کی جانب سے واشنگٹن کے ایک سینیئر اہلکار کے ذریعے نئی دہلی کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر غیر معمولی تنقید کرتے ہوئے بھارت میں ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافے‘‘ کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنے کے تقریباً ایک سال بعد جاری کی گئی۔
انسانی حقوق سے متعلق یہ رپورٹ کو بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومن رائٹس اینڈ لیبر آف دی یونائیٹڈ اسٹیٹس کے محکمہ خارجہ نے شائع کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے ’’سرکاری بدانتظامی کے لیے جواب دہی کا فقدان حکومت کی تمام سطحوں پر برقرار ہے۔ تعلیم یافتہ پولیس افسران کی کمی اور زیادہ بوجھ اور کم وسائل والے عدالتی نظام نے کم تعداد میں سزائیں سنائی ہیں۔‘‘
غیر قانونی یا سیاسی طور پر حوصلہ افزا قتل سے متعلق حصے میں اس رپورٹ میں اپریل میں پولیس حراست میں وڈیول وگنیش نامی ایک دلت شخص کی موت کا نوٹس لیا گیا ہے۔ وگنیش کو مبینہ طور پر گانجہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن مبینہ طور پر پولیس حراست میں اسے شدید مارا پیٹا گیا۔
رپورٹ میں ان الزامات کا بھی نوٹس لیا گیا ہے کہ تین پولیس اہلکاروں نے اس کے بھائی پر دباؤ ڈالا کہ وہ ان کے خلاف درج شکایت واپس لے لے، اس کے بدلے میں حکام نے وگنیش کے خلاف دائر الزامات کو واپس لے لیا۔
ریاستہائے متحدہ کی حکومت کی رپورٹ میں ایک مبینہ فرضی انکاؤنٹر کا بھی نوٹس لیا گیا جس میں 2019 میں حیدرآباد میں ایک جانوروں کے ڈاکٹر کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور قتل کے الزام میں گرفتار چار افراد مارے گئے تھے۔ مئی میں سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ ایک کمیٹی نے کہا تھا کہ پولیس نے جان بوجھ کر ان چاروں افراد پر گولی چلائی تھی تاکہ ان کی موت واقع ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ ’’معتبر اطلاعات ہیں کہ سرکاری اہلکاروں نے تشدد اور بدسلوکی کا سہارا لیا ہے۔ قانون حکام کو جبری اعترافات کو ثبوت کے طور پر تسلیم کرنے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے رپورٹ کیا ہے کہ حکام نے اعتراف جرم کروانے کے لیے تشدد کا استعمال کیا۔‘‘
اس رپورٹ میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم رہنما عمر خالد کی غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت گرفتاری پر بھی بات کی گئی ہے۔
اس میں پادری اسٹین سوامی کی موت کا بھی ذکر کیا گیا، جنھیں بھیما کوریگاؤں کیس میں الزامات کا سامنا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’متعدد عدالتوں نے [بھیما کوریگاؤں احتجاج] سے متعلق سازش کے الزامات میں قید 16 کارکنوں میں سے اکثر کو ضمانت سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں کئی ہلاکتیں ہوئیں۔ ملزموں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے خلاف الزامات سیاسی طور پر محرک تھے۔‘‘
امریکی حکومت کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ مرکزی حکومت بعض اوقات انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو حراست میں لینے کے لیے UAPA کا استعمال کرتی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت مسلم برادری کے کارکنان اور حکومت کے ناقدین کو نشانہ بنا رہی ہے اور ان کے گھروں اور ذریعۂ معاش کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کر رہی ہے۔