یو پی الیکشن : مسلمان ووٹرز اس بار کس جانب رخ کریں گے؟
اکثریت بنام اقلیت سے فاشسٹ طاقتوں کو شہ مل رہی ہے۔دانشوروںکے ساتھ ہفت روزہ دعوت کی خاص بات چیت
افروز عالم ساحل
یو پی میں انتخابی بگل بج چکا ہے۔ پہلے مرحلے میں گیارہ اضلاع کی 58 نشستوں پر دس فروری کو ووٹ ڈالیں جائیں گے۔ اب جبکہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہیں، طاقت کے تمام عوامل میں ایک بڑا عامل مسلم ووٹوں کو بھی مانا جا رہا ہے۔ یو پی کے مسلم ووٹر جس طرف رخ کرتے ہیں اقتدار کی ہوا اسی سمت میں بہتی ہے۔ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس الیکشن کو اکثریت بنام اقلیت قرار دے کر مسلمانوں کے ووٹوں کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے، جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کی نظر ابھی بھی نہ صرف مسلم ووٹروں پر ٹکی ہوئی ہے، بلکہ کچھ سیاسی پارٹیاں تو یہ سمجھ رہی ہیں کہ مسلم ووٹوں پر صرف انہی کا حق ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے سیاسی تجزیہ کاروں اور سینیئر صحافیوں سے گفتگو کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یو پی الیکشن میں اس مرتبہ کس قسم کے نتائج کے امکانات ہیں۔ مسلمان ووٹرز اس بار کس جانب رخ کریں گے؟ کیا اسدالدین اویسی کے انتخابی میدان میں اترنے سے کوئی خاص فرق پڑے گا یا کسان تحریک اور کوویڈ کے دوران یو پی میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے لوگ بی جے پی سے اپنا منہ موڑ لیں گے؟ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ الیکشن اقلیتوں کے تحفظ کے لحاظ سے کتنا اہم ہے؟
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں سیاسی تجزیہ نگار و سینئر صحافی انیل مہیشوری کہتے ہیں کہ میری نظر میں پورے تیس یا پینتیس سال بعد ایسا الیکشن دیکھنے میں آ رہا ہے، جس میں صرف دو سیاسی جماعتیں ایس پی اور بی جے پی ہی سب سے با اثر نظر آرہی ہیں۔ الیکشن اس بات پر ہے کہ کون مودی کے ساتھ ہے اور کون مودی کے خلاف ہے۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ ان میں کس کا پلڑا بھاری ہو گا، اس لحاظ سے یہ الیکشن سب سے زیادہ غیر متوقع ہو گا۔ انیل مہیشوری انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمس سے وابستہ رہے ہیں اور انہوں نے یو پی کی سیاست کو کافی قریب سے دیکھا ہے۔ اگلے کچھ دنوں میں یو پی الیکشن پر ان کی ایک کتاب مارکیٹ میں آرہی ہے، جسے اوم بکس انٹرنیشنل نے شائع کیا ہے۔
بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) اور کانگریس کے سوال پر انیل مہیشوری کہتے ہیں کہ بی ایس پی اب حاشیے پر چلی گئی ہے۔ کانگریس پہلے سے ہی حاشیے پر تھی، لیکن اس بار انہوں نے کافی محنت کی ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس مرتبہ شاید وہ بیس تا پچیس سیٹیں لاکر تیسرے نمبر پر آجائے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ میڈیا ہمیشہ مسلمانوں کی غلط تصویر پیش کرتا ہے کہ وہ یکطرفہ ووٹنگ کرتے ہیں جو کہ پوری طرح سے غلط ہے۔ میں تو یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ یو پی میں مسلمانوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جن کے ووٹ بی جے پی کو جا سکتے ہیں۔ دراصل اس مرتبہ نتائج کا دارومدار یہاں کے نوجوان ووٹروں پر ہے، کیوں کہ یو پی میں اس وقت ساٹھ فیصد سے زائد ووٹرز ایسے ہیں جن کی عمریں چالیس سال سے کم ہیں۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سنٹر آف ایڈوانس اسٹڈی ان ہسٹری کے پروفیسر محمد سجاد کہتے ہیں کہ سیاست کو بہت دور سے دیکھنے والے بھی کہہ رہے ہیں کہ یو پی میں اصل مقابلہ بی جے پی اور ایس پی کے درمیان ہی ہے۔ باقی رہیں دوسری پارٹیاں تو وہ بعض سیٹوں پر اثر ڈالیں گی، کہیں جیت جائیں گی یا کسی کو جتانے یا ہرانے کا سبب بن جائیں گی۔ پروفسیر سجاد بہار و اتر پردیش کی سیاست پر کافی گہری نظر رکھتے ہیں۔ بہار کی مسلم سیاست پر ان کی دو کتابیں آچکی ہیں۔ وہ اتر پردیش کی مسلم سیاست پر بھی لکھتے رہے ہیں۔ انیل مہیشوری کی موجودہ کتاب میں یوپی کی مسلم سیاست پر ایک حصہ ان کا بھی شامل ہے۔
پروفیسر محمد سجاد مزید کہتے ہیں کہ سب نے طرح طرح کی افیم چاٹ رکھی ہے۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ کوویڈ کے دوران لوگوں میں جو ناراضگی پائی جاتی تھی وہ ووٹ دیتے وقت بھی باقی رہے گی۔ یہ ممکن ہے کہ لوگ نفرت وتعصب کے نشے میں یہ بات بھول جائیں۔ اگر اس کا اثر اب تک زائل نہیں ہوا ہے تو پھر بی جے پی کا یہ الیکشن ہارنا بہت مشکل ہے۔
سینیئر جرنلسٹ قربان علی ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں بتاتے ہیں کہ اس مرتبہ یو پی الیکشن میں مقابلہ سخت ہے۔ بعض لوگوں کا یہ سوچنا کہ فرقہ پرست طاقتیں کمزور ہوگئی ہیں، غلط ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں بھی غلطی پر رہوں، لیکن بطور صحافی گراؤنڈ پر تو مجھے یہی نظر آرہا ہے۔ بی جے پی کا یہ الیکشن ہارنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 7-8 برسوں میں جس طرح دماغوں کو کمیونلائز کیا گیا اس میں جب ووٹ کا مسئلہ آتا ہے تو ’کاسٹ لائن‘ بھی ٹوٹ جاتی ہے اور الیکشن ہندوتوا کے ایجنڈے پر چلا جاتا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں بھی اس ایجنڈے کو چیلنج نہیں کرتیں بلکہ وہ بھی اسی لائن پر چل پڑتی ہیں۔ اب راہل گاندھی بھی ہندو راجیہ کی بات کرتے ہیں اور اکھلیش یادو بھی پرشورام جینتی مناتے ہیں اور مسلمانوں کو ’ٹیکن فار گرانٹیڈ‘ لیتے ہیں کہ آخر یہ جائے گا کہاں؟ اور گراؤنڈ پر بھی لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی جیسی بھی ہے لیکن ہے تو اپنی ہندوؤں کی پارٹی۔
یو پی کی سیاست اور سوشل میڈیا کو قریب سے دیکھنے والے جے این یو کے ریسرچ اسکالر استخار علی کا کہنا ہے کہ بھلے ہی اس الیکشن میں انتخابی ریلیاں آن لائن یعنی سوشل میڈیا پر ہو رہی ہیں لیکن بی جے پی یہ لڑائی زمین پر لڑ رہی ہے۔ جو بی جے پی کبھی سوشل میڈیا کے ذریعہ سے اقتدار میں آئی تھی وہی بی جے پی سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے مسلمانوں سے متعلق منفی و مثبت دونوں طرح کے پوسٹوں کو دکھا کر ہندوؤں کو یکجا کر رہی ہے۔ ہمارے مسلمان نوجوان جذبات میں آکر ہر روز سوشل میڈیا پر جو چاہتے ہیں لکھ دیتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ بی جے پی اس کا الیکشن میں کس طرح فائدہ اٹھا رہی ہے۔ سوشل میڈیا ہمارے پوسٹ ہماری طرح سوچ رکھنے والوں کو ہی نظر آتے ہیں لیکن ہندوتوا کیمپ میں ہمارے بارے میں کیا باتیں ہوتی ہیں وہ ہم تک نہیں پہنچتیں جبکہ وہ ہمارے تمام پوسٹوں پر نظر رکھتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ ہندوتوا وادی مسلم ناموں سے سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اور بلا تردد اشتعال انگیز باتیں لکھ کر پھیلاتے ہیں۔ ایسے اکاؤنٹس کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ استخار علی کا تعلق اتر پردیش کے ضلع مرزاپور سے ہے اور وہ ان دنوں جرمنی کی ایک مشہور یونیورسٹی میں بطور ریسرچ فیلو ہیں۔
مسلمانوں کو اس الیکشن میں کیا کرنا چاہیے؟
اس سوال کے جواب میں قربان علی کہتے ہیں کہ ان دنوں یہ ایجنڈا چلایا جا رہا ہے کہ فرقہ پست طاقتوں کو اگر شکست دینا ہے تو مسلمانوں کو سماجوادی پارٹی کو ہی ووٹ دینا چاہیے۔ میرے خیال میں یہ مناسب بات نہیں ہے کیوں کہ مسلمانوں کے متعلق سماجوادی پارٹی کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں رہا ہے۔ مودی حکومت میں جتنے بھی قوانین پاس کیے گئے ہیں، سماجوادی پارٹی نے ان میں ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی سب کی تائید کی ہے۔ سی اے اے اور این آر سی پر ابھی تک اس پارٹی نے کوئی موقف نہیں اپنایا ہے۔ ایسے میں مسلمان خود کو کسی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ نہ باندھیں بلکہ اب تک جس طرح سے حکمت عملی کے ساتھ ووٹ دیتے آئے ہیں اسی کو اس بار بھی اپنائیں۔ ہر سیٹ پر امیدوار کو دیکھیں کہ کون بی جے پی امیدوار کو ہرانے کی طاقت رکھتا ہے اسی کو اپنا ووٹ دیں۔ اگرچہ جمہوریت میں سب کو اپنی پسند کا امیدوار منتخب کرنے کا حق ہے۔
کتنی ہے اتر پردیش میں مسلم آبادی اور کیا رہی حصہ داری؟
سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق اتر پردیش میں 19.26 فیصد آبادی مسلم ہے۔ اتر پردیش کی 403 اسمبلی سیٹوں میں 157 نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹرز ہار جیت کا فیصلہ کرنے کی قوت رکھتے ہیں اور جسے چاہیں اقتدار عطا کر سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود 2017 کے اسمبلی الیکشن میں محض پچیس مسلم امیدوار ہی الیکشن میں کامیابی حاصل کر پائے۔ ان میں سے سترہ ایس پی، چھ بی ایس پی اور دو کانگریس سے تھے۔ حالانکہ دوسرے نمبر پر رہنے والے مسلم امیدواروں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ اس بار 84 مسلم امیدوار دوسرے مقام پر تھے۔ کچھ سیٹوں پر انہیں بہت کم ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی۔ مثلا بی ایس پی کی سیدہ خاتون ڈومریا گنج اسمبلی حلقہ سے بی جے پی کے راگھویندر پرتاپ سنگھ سے محض 171 ووٹوں کے فرق سے ہار گئیں۔ دوسری طرف ایس پی کے لیاقت علی میراپور اسمبلی حلقہ سے محض 193 ووٹوں سے ہار گئے جبکہ شراوستی اسمبلی حلقہ سے ایس پی کے محمد رمضان کو صرف 445 ووٹوں سے شکست ہوئی تھی۔
سال 2012 میں ریاست میں 68 مسلم ممبر اسمبلی منتخب ہوئے تھے، جبکہ 2007 کے اسمبلی انتخابات میں صرف 56 مسلمان ہی الیکشن جیت سکے تھے۔
اعداد وشمار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ 68 اسمبلی حلقوں میں مسلم آبادی 35 تا 78 فیصد ہے۔ یہاں مسلمان جسے بھی ووٹ دیں اس کی جیت یقینی ہے۔ ہم آپ کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ ان 68 نشستوں میں آٹھ نشستیں ایس سیز اور ایس ٹیز کے لیے محفوظ ہیں۔
اتنا ہی نہیں اعداد وشمار کے مطابق ان 68 سیٹوں کے علاوہ 89 اسمبلی حلقوں میں مسلم آبادی 20 تا 28 فیصد ہے۔ یعنی یہاں مسلمان متحد ہو کر کسی ایک امیدوار کو ووٹ دیں تو اس کی جیت ممکن ہو سکتی ہے۔ ان 89 نشستوں میں سے گیارہ نشستیں ایس سیز اور ایس ٹیز کے لیے محفوظ ہیں۔
2011 کی مردم شماری کے اعداد وشمار کے مطابق ریاست کے جن اضلاع میں مسلم آبادی دس فیصد یا اس سے زائد ہے ان میں دو سو سے زیادہ اسمبلی حلقے ہیں۔ یعنی یہاں بھی مسلمان ایک فیصلہ کن طاقت ہیں۔
غور طلب پہلو یہ ہے کہ گزشتہ 2017 اسمبلی الیکشن میں یو پی ’’فرقہ پرست سیاست‘‘ کی ایک نئی تجربہ گاہ بن کر ابھرا تھا۔ وہ ریاست جو کبھی گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ تھی وہ اب پوری طرح سے نفرت، تقسیم اور تعصب کی سیاست کا مرکز بن چکی تھی، اور حکومتی ادارے فرقہ پرستی کے زہر سے پوری طرح آلودہ ہو چکے ہیں۔ 2017 میں راقم الحروف نے یو پی کے تمام ہی اضلاع کا دورہ کیا تھا اور اپنے انتخابی کوریج میں پایا تھا کہ یو پی کا یہ الیکشن مکمل طور پر مسلم بنام ہندو ہی لڑا گیا تھا۔ سیکولر پارٹیوں نے بھی اپنے ذاتی ووٹوں سے زیادہ مسلم ووٹوں پر ہی توجہ دی تھی۔ اس چکر میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ ان کا ذاتی ووٹ بھی اب کمیونل ہو چکا ہے۔ وہ یہ سمجھتے رہے کہ ان کی ذات کا ووٹر تو ان کے ساتھ ہی ہے لیکن ان کے اس یقین کا واضح فائدہ بی جے پی اتحاد کو ہی ملا۔ اس بار بھی گراؤنڈ پر یہی کچھ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
اویسی بھی ہیں میدان میں، کس کا بگاڑیں گے کھیل؟
اس الیکشن میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کا میڈیا میں بہت تذکرہ ہے۔رپورٹ لکھے جانے تک اویسی کی پارٹی اپنے امیدواروں کی چار فہرستیں جاری کر چکی ہے جس کے مطابق انہوں نے اب تک 28 امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے۔
انیل مہیشوری کہتے ہیں کہ اویسی سوالات اچھے اٹھا رہے ہیں۔ وہ یہ پوچھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی قائم کردہ لیڈرشپ نے مسلمانوں کے لیے کیا کیا؟ آج تک یو پی میں کسی حکومت میں کسی مسلمان کو وزیر اعلیٰ تو بہت دور کی بات ہے وزیر داخلہ بھی نہیں بنایا گیا۔ آخر مسلمانوں کا کب تک پالکی ڈھونے والے کہاروں کی طرح استعمال کیا جاتا رہے گا۔ یہ سوال اہم ہے، لیکن ان کی باتوں کا اثر شاید یو پی کے مسلمانوں پر زیادہ پڑنے والا نہیں ہے۔ البتہ کچھ سیٹوں پر وہ فرق ڈال سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ 22 جنوری کو ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ ان کی پارٹی ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ ’’بھاگیہ داری پریورتن مورچہ‘‘ کے تحت انتخابات میں حصہ لے گی، اور یہ مورچہ یو پی کی تمام 403 سیٹوں پر الیکشن لڑے گا۔
اسد الدین اویسی نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر اتر پردیش میں ’’بھاگیہ داری پریورتن مورچہ‘‘ کی حکومت بنتی ہے تو پانچ سال کی مدت میں ریاست میں دو وزرائے اعلیٰ اور تین نائب وزرائے اعلیٰ بنائے جائیں گے۔ اس میں ایک وزیر اعلیٰ پسماندہ سماج سے اور دوسرا وزیر اعلیٰ دلت سماج سے ہو گا۔ نائب وزیر اعلیٰ میں ایک مسلم کمیونٹی سے ہو گا۔ فی الحال یہ مورچہ پانچ چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے۔ آگے اس مورچے میں مزید کچھ پارٹیوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔
اسد الدین اویسی کی پارٹی نے اس سے قبل اتر پردیش میں سو اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ اوم پرکاش راج بھر نے بھی اسد الدین اویسی کے ساتھ مل کر ’بھاگیہ داری سنکلپ مورچہ‘ کا اعلان کیا تھا، لیکن یہ مورچہ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکا اور راج بھر اکھلیش یادو کے گٹھ بندھن میں شامل ہو گئے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اسد الدین اویسی بھی مسلسل سماج وادی پارٹی سے رابطے میں تھے اور وہ چاہتے تھے کہ سماج وادی پارٹی کے ساتھ اتحاد ہو جائے لیکن اکھلیش یادو نے اویسی کو گلے لگانے سے اجتناب کیا۔
میڈیا میں بار بار یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اویسی نے اس مرتبہ پہلی بار یو پی کی سیاست میں حصہ لیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اویسی 2017 کے یو پی اسمبلی انتخابات میں حصہ لے چکے تھے تب ان کی پارٹی نے 38 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا لیکن پانچ چھ سیٹوں کو چھوڑ کر ان کے زیادہ تر امیدواروں کے ووٹوں کی تعداد دو تین ہزار سے زیادہ نہیں رہی، صرف سمبھل اسمبلی نشتست پر شفیق الرحمان برق کے پوتے ضیاء الرحمن نے 60426 ووٹ حاصل کیے اور دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ 2017 کے یو پی اسمبلی الیکشن میں اویسی کی پارٹی کو 38 نشستوں پر کل 205232 ووٹ ملے تھے جو پورے یو پی میں ڈالے گئے ووٹوں کا صرف 0.2 فیصد تھا۔
***
سب نے طرح طرح کی افیم چاٹ رکھی ہے۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ کوویڈ کے دوران لوگوں میں جو ناراضگی پائی جاتی تھی وہ ووٹ دیتے وقت بھی باقی رہے گی۔ یہ ممکن ہے کہ لوگ نفرت وتعصب کے نشے میں یہ بات بھول جائیں۔ اگر اس کا اثر اب تک زائل نہیں ہوا ہے تو پھر بی جے پی کا یہ الیکشن ہارنا بہت مشکل ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 30 جنوری تا 5فروری 2022