یو پی اور اتراکھنڈ کے مدارس اسلامیہ کا وجود خطرے میں

اتراکھنڈ کے مدارس میں مارچ سے رامائن پڑھانے کی تیاری، طلباء کا مستقبل قابل تشویش

لکھنؤ (دعوت نیوز بیورو )

الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ میں مفاد عامہ کی عرضی پر روزانہ سماعت سے بہت کچھ واضح
اتر پردیش و اتراکھنڈ کے سرکاری مدارس ان دنوں شدید دباؤ میں ہیں خاص طور پر سرکاری گرانٹ ان ایڈ پر چلنے والے مدرسے کچھ زیادہ ہی نشانے پر ہیں۔ پہلے یو پی کے مدرسوں کی بڑے پیمانے پر جانچ کرائی گئی لیکن جب جانچ میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا تو عدالت کا راستہ اپنایا گیا۔ ذرائع کے مطابق مدارس اسلامیہ کے خلاف سرگرم لابی نے ایک وکیل انشمان سنگھ راٹھور کی جانب سے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کرائی ہے جس میں مدارس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگایا گیا ہے۔ مفاد عامہ کی عرضی پر جسٹس وویک چودھری اور جسٹس ودھیارتی کی دو رکنی بنچ روزانہ سماعت کر رہی ہے۔ اس معاملے میں ریاستی حکومت کے علاوہ یو پی کے عربی، فارسی مدرسہ تعلیمی بورڈ کو فریق بنایا گیا ہے۔ مدارس عربیہ کی جانب سے ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے کورٹ میں اپنا موقف پیش کرنے کی عرضی دی ہے۔ مدرسہ بورڈ کے وکیل افضال صدیقی کا کہنا ہے کہ مفاد عامہ کی عرضی دینے والے وکیل کا مدرسوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے اس لیے وہ مفاد عامہ کی عرضی دینے کے مجاز بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے اس معاملے میں بورڈ کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ ضرورت کے مطابق اپنے نصاب تعلیم میں تبدیلی کے لیے تیار ہے اور اس کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی جا سکتی ہے۔
اسی دوران قومی کمیشن برائے حقوق اطفال نے بھی اس معاملے میں فریق بننے کے لیے عدالت میں عرضی دی ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ کچھ مدارس میں ہندو بچے بھی پڑھتے ہیں جو کہ آر ٹی ای کے تحت آتے ہیں۔ کمیشن کو ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کا موقع دیا جائے۔ واضح رہے کہ حقوق اطفال کمیشن اس سے پہلے بھی ہندو بچوں کو مدرسوں سے نکال کر قریبی اسکولوں میں داخل کرانے کا فرمان سنا چکا ہے۔ اس کے بعد ہی اس معاملے نے طول پکڑا تھا اور عدالت میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کی گئی تھی۔ قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کے سامنے آجانے سے مفاد عامہ کی عرضی کا منشا واضح ہو گیا ہے۔ مفاد عامہ کی اس عرضی میں سب سے بڑا سوال یہ اٹھایا گیا کہ کیا کوئی حکومت سرکاری اخرجات پر مذہبی تعلیم بھی دے سکتی ہے؟ الٰہ آباد ہائی کورٹ کی بنچ نے اس پر مرکزی حکومت سے بھی جواب طلب کر لیا ہے۔ کورٹ نے مرکزی حکومت سے وضاحت طلب کی ہے کہ کیا کوئی ریاستی حکومت آئینی اعتبار سے مذہبی تعلیم کے لیے بورڈ قائم کر سکتی ہے؟ عدالت نے یو پی مدرسہ تعلیمی بورڈ کا نصاب تعلیم اور کتابیں بھی طلب کی ہیں تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ ان مدرسوں میں کس نوعیت کی تعلیم ہو رہی ہے۔ کورٹ کے سامنے آر ٹی ای یعنی سب کے لیے بنیادی تعلیم کے حق کا سوال بھی اٹھایا گیا ہے، گویا کہ کورٹ کو یہ تاثر دینے کی کوشش ہو رہی ہے کہ مدارس بچوں کو دینی تعلیم دے کر ان کے بنیادی تعلیم کے حق کو پامال کر رہے ہیں۔ ایسے میں مدارس عربیہ کے منتظمین اور اساتذہ پریشان ہیں کہ قانونی طور پر ان سوالوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ مدارس اسلامیہ ٹیچرز یونین کے لیڈر سید اقبال حسین عرف پھول میاں نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت میں کہا کہ ایک طرف تو وزیراعظم سب کا ساتھ سب کا وکاس کے تحت مسلمانوں سے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر دینے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کے ماتحت وزیر اقلیتی بہبود اسمرتی ایرانی مدرسہ جدید کاری اسکیم کے تحت سائنس اور ریاضی کے اساتذہ کو ملنے والا مشاہرہ روک دیتی ہیں۔ جس سے کہنے اور کرنے کا فرق صاف طور پر واضح ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق جب تک وزارت فروغ انسانی وسائل اس اسکیم کو چلاتی رہی سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا لیکن وزارت اقلیتی امور میں منتقل ہونے کے بعد نہ تو اس اسکیم کا رینیول کیا گیا اور نہ ہی پچھلے بقایا جات اداکیے گئے ۔مایوس ہو کر انہوں نے ریاستی حکومت سے اپنے وسائل سے اس اسکیم کو جاری رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق ریاستی حکومت شکشا متروں کی طرز پر سائنس اور ریاضی کے ٹیچروں کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر دے تو کم سے کم مدرسے کے بچے جدید مضامین پڑھنے سے محروم نہ رہیں گے۔
واضح رہے کہ یو پی کے مختلف مدارس میں تقریبا 25 ہزار اساتذہ اس اسکیم کے تحت مقرر کیے گئے تھے جو سال 2021 سے اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں۔ پہلے ریاستی حکومت اپنے حصے کی رقم دے دیتی تھی لیکن اس بار اس نے بھی ہاتھ روک لیے ہیں جس سے ان اساتذہ کو بے روزگار ہونے کی نوبت آگئی ہے۔ پھول میاں مزید کہتے ہیں کہ تمام سرکاری حکام کو پتہ ہے کہ ریاستی حکومت سے منظور شدہ مدارس میں درجہ آٹھ تک ایس سی ای آر ٹی ای کا ہی نصاب تعلیم پڑھایا جاتا ہے۔ ریاستی حکومت کا محکمہ تعلیم ہی ان کتابوں کو شائع کر کے مدارس کو فراہم کرتا ہے تاہم، مفاد عامہ کی عرضی میں اس نصاب پر بھی سوال کھڑے کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے آسام کے مدارس سے سرکاری سلوک پر کہا کہ یو پی کے اہل مدارس بھی تشویش میں ہیں کہ پتہ نہیں ان کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے، کہیں ان کے مدارس کو بھی محکمہ تعلیم میں ضم تو نہیں کر دیا جائے گا ؟
الٰہ آباد ہائی کورٹ لکھنو بنچ کے سینئر ایڈووکیٹ محمد فاروق کہتے ہیں کہ مدارس کو اپنے نظام کو درست کرنا چاہیے، چونکہ ان کو سرکاری امداد ملتی ہے اور وہ سرکاری نصاب بھی پڑھاتے ہیں تو یہ کہنا تو غلط ہے کہ سرکاری خرچ پر مذہبی تعلیم دی جا رہی ہے۔ لیکن جس طریقے سے مدرسوں کا نظام چل رہا ہے اس کو بھی درست کرنا ہوگا تبھی مدرسوں کا مستقبل بہتر ہو سکے گا۔
یو پی سے متصل ریاست اتراکھنڈ میں بھی مدرسوں کا تشخص خطرے میں ہے۔ اتراکھنڈ وقف بورڈ کے چیئرمین شاداب شمس نے مدرسوں میں رامائن کا درس دینے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے مطابق مدرسے کے طلبہ رام کی سیرت پڑھ کر علم حاصل کریں گے اس میں غلط کیا ہے؟ انہوں نے ریاست کے چار اضلاح میں اسی سال مارچ اور اپریل سے نئے نصاب میں رام کی سیرت کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے لیے نئے اساتذہ کی بحالی ہوگی جبکہ جمیعت علمائے ہند کے ریاستی صدر مولانا محمد عارف نے میڈیا رپورٹس میں حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ ان کے مطابق اس فیصلے میں مدارس کی مرضی شامل نہیں ہے۔ اسے سرکار کی جانب سے ہم پر تھوپا جا رہا ہے۔ مدارس کی مرضی معلوم کیے بغیر اس کے نصاب یا نظام میں تبدیلی کرنا دستور میں اقلیتی طبقوں کو دیے گئے حقوق کی سراسر پامالی ہے۔ لہذا ہمیں اپنے حقوق کے تحت آزادی ملنی چاہیے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 فروری تا 17 فروری 2024