عمر خالد کی تقریر دہشت گردانہ کارروائی نہیں: دہلی ہائی کورٹ
نئی دہلی، مئی 31: لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق دہلی ہائی کورٹ نے پیر کو کہا کہ فروری 2020 میں مہاراشٹر کے امراوتی ضلع میں سرگرم کارکن عمر خالد کی طرف سے کی گئی تقریر ’’بد ذائقہ‘‘ تھی لیکن اس وجہ سے وہ دہشت گردانہ کارروائی نہیں بنجاتی۔
دہلی پولیس نے الزام لگایا تھا کہ وہ تقریر فروری 2020 میں قومی راجدھانی میں فسادات بھڑکانے کی سازش کا حصہ تھی۔
23 فروری سے 29 فروری 2020 تک ہوئے دہلی فسادات میں 53 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
عمر خالد کو 14 ستمبر 2020 کو فسادات کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا اور اسے فسادات کو ہوا دینے کی مبینہ سازش رچنے کے الزام میں غیر قانونی (سرگرمیاں) روک تھام ایکٹ کے تحت الزامات کا سامنا ہے۔
پیر کو جسٹس سدھارتھ مردل اور رجنیش بھٹناگر کی بنچ خالد کی طرف سے دائر ایک اپیل کی سماعت کر رہی تھی جس میں ٹرائل کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کیا گیا تھا جس نے اسے ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
جسٹس مردل نے کہا ’’اگر استغاثہ کا معاملہ اس بات پر مبنی ہے کہ تقریر کتنی جارحانہ تھی، تو یہ بذات خود ایک جرم نہیں بنے گا۔‘‘
جج نے ریمارکس دیے کہ خالد کی تقریر ’’جارحانہ اور ناگوار‘‘ تھی۔
انھوں نے مزید کہا ’’یہ ہتک عزت، یا دیگر جرائم کے مترادف ہو سکتا ہے، لیکن یہ دہشت گردی کی سرگرمی کے مترادف نہیں ہے۔‘‘
ہائی کورٹ نے اس معاملے کی مزید سماعت کے لیے 4 جولائی کی تاریخ دی ہے۔۔
پچھلے مہینے ججوں نے کہا تھا کہ امراوتی میں خالد کی تقریر ’’ناگوار اور ناقابل قبول‘‘ تھی۔
27 اپریل کو ایک اور سماعت میں عدالت نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا وزیر اعظم کے بارے میں بات کرتے ہوئے لفظ ’’جملہ‘‘ کا استعمال کرنا مناسب ہے؟ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم نے مبینہ طور پر اپنی تقریر میں یہ لفظ استعمال کیا تھا۔
تاہم ان کے وکیل نے دلیل دی تھی کہ کسی نے بھی تقریر کی فوٹیج اس وقت نہیں دیکھی تھی جب اسے فسادات کے مقدمے میں پہلی معلوماتی رپورٹ کے حصے کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ وکیل نے نشان دہی کی تھی کہ نیوز چینل ریپبلک ٹی وی نے نچلی عدالت کو بتایا تھا کہ تقریر کی فوٹیج اس کی اپنی نہیں ہے بلکہ اسے بھارتیہ جنتا پارٹی کی انفارمیشن ٹیکنالوجی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے ٹویٹ کیا تھا۔
کارکن نے یہ بھی دلیل دی تھی کہ اس کی تقریر میں لفظ ’’انقلاب‘‘ کے استعمال کو تشدد کی دعوت کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔