دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ عمر خالد عبوری ضمانت ملنے پر سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلا سکتا ہے
نئی دہلی، نومبر 26: بار اینڈ بنچ نے کی خبر کے مطابق دہلی پولیس نے جمعہ کو شہر کی ایک عدالت میں کہا کہ کارکن عمر خالد کو اگر عبوری ضمانت ملتی ہے تو وہ سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلا سکتا ہے اور اس سے بدامنی پھیل سکتی ہے۔
پولیس نے خالد کی جانب سے اپنی بہن کی شادی میں شرکت کے لیے دو ہفتوں کے لیے عبوری ضمانت کی درخواست پر یہ جواب دیا۔ اب اس درخواست پر سماعت اگلے ہفتے ہوگی۔
کارکن کے خلاف 23 فروری سے 26 فروری 2020 کے درمیان ہونے دہلی فسادات سے متعلق غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ فسادات میں 53 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ تشدد وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھا اور یہ ان لوگوں کا منصوبہ تھا جنھوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کو منظم کیا تھا۔
جمعہ کو دہلی پولیس نے کہا کہ انھوں نے خالد کے والدین اور شادی کے مقام کے منیجر سے شادی کی تصدیق کی ہے۔ تاہم انھوں نے اس بنیاد پر عبوری درخواست کی مخالفت کی کہ کارکن، جسے 13 ستمبر 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا، کو سنگین الزامات کا سامنا ہے، بشمول UAPA کے۔
پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ خالد رہا ہونے کی صورت میں کیس کے گواہوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
پولیس نے کہا ’’اس کی باقاعدہ ضمانت کی درخواست کو اس عدالت نے اور اپیل کو ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے خارج کر دیا ہے۔ مزید یہ کہ اس کے والدین تمام ضروری انتظامات کرنے کے اہل ہیں۔‘‘
18 اکتوبر کو دہلی ہائی کورٹ نے خالد کو یہ کہتے ہوئے ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا کہ ان کے خلاف الزامات پہلی نظر میں سچے ہیں اور اس لیے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی دفعہ 43D(5) اسے ضمانت دینے سے روکتی ہے۔
ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ خالد اور دیگر کارکنوں کے ذریعہ شہریت (ترمیمی) ایکٹ اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے خلاف جو مظاہرے کیے گئے تھے وہ ’’معمولی احتجاج نہیں‘‘ تھے۔