علوم القرآن از مولانا گوہر رحمنؒ۔ایک تعارف

قرآنی علوم کی اہم اور اصولی باتوں پر کلام۔ متقدمین، متاخرین اور ان کے معاصرین کے تفسیری منہج پر گفتگو

عمر فاروق

اردو تفاسیر میں تفہیم القرآن کے بشمول سات تفاسیر کا تفصیلی تعارف
قرآن خالقِ کائنات کا انسانوں کے نام آخری اور ابدی پیغام ہے جو اس نے اپنے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفی (ﷺ) پر نازل فرمایا۔ یہ سرچشمہ ہدایت قاطعِ ظلمات، نورِ مُبین، دلوں کے امراض کے لیے شفاء، دکھی انسانیت کے ہر درد کا درماں، سراسر رحمت، دستورِ حیات اور کتابِ فرقان ہے۔ یہ ماضی حال اور مستقبل سے آگاہ کرنے والی، قوموں کے عروج و زوال سے واقف کرانے والی اور عزت و ذلت کے حقیقی معیارات سے روشناس کرانے والی کتاب ہے۔ یہ حلال و حرام، نجس و طیب، جنت و جہنم، مومن و کافر نیز اطاعت و سرکشی کے مابین فرق کرتی ہے۔ یہ انسان کے جملہ انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اصولی رہنمائی کرتی ہے۔ یہ نظر کو ایک منفرد زاویہ بخشتی ہے جس سے انسان کفر و شرک و جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی چیزوں اور حالات کی اصل ماہیت کو بھانپ سکتا ہے۔ مگر آج مسلمان اسی کتاب کو عملاً ترک کرکے ذلیل و خوار ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ ہے کہ کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔
خوار از مہجوریِ قرآں شُدی
شکوہ سنج گردشِ دوراں شُدی
زیرِ نظر کتاب ’’علوم القرآن‘‘ ادارہ تفہیم القرآن مردان پاکستان کے سابق صدر اور معروف عالمِ دین مولانا گوہر رحمن کی تصنیف ہے جسے حال ہی میں ملت پبلکیشنز سر نگر نے دو ضخیم جلدوں میں شائع کیا ہے۔ اس میں انہوں نے بہت عمدگی کے ساتھ علوم القرآن کے حوالے سے تمام اہم اور اصولی باتیں بالتفصیل بیان کی ہیں جن سے واقف ہونا قرآن کے ہر سنجیدہ طالب علم کے لیے ضروری ہے۔ اس کتاب کو فاضل مصنف نے دس ابواب میں تقسیم کیا ہے۔پہلی جلد چھے ابوب اور 520 صفحات پر مشتمل ہے اور دوسری جلد چار ابواب اور 628 صفحات پر مشتمل ہے۔
باب اول بعنوان ’’تعارفِ قرآن‘‘ میں فاضل مصنف نے قرآنِ مجید کی قرآنی اور فنی تعریف بیان کرنے کے بعد خلقِ قرآن کے مسئلے پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں۔ اس کے لیے انہوں نے ائمہ اربعہ کے علاوہ امام ابو زرعہ رازی، ابو حاتم رازی، امام محمد بن اسماعیل، امام المتکلمین ابوالحسن اشعری وغیرہ کی اس مسئلے سے متعلق آراء کو بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ عجمی رسم الخط میں قرآن لکھنا اور اس کا بغیر ترجمہ شائع کرنا ممنوع ہے۔ وحی کے متعلق مختلف مباحث کے بعد آخر میں وہ منکرینِ وحی کے شبہات کا بھی جواب دیتے ہیں۔
باب دُوَم ’’نزولِ قرآن‘‘ میں نزول کے معانی وغیرہ سے بحث کرنے کے بعد وہ قرآن کے تدریجی نزول میں پوشیدہ اسرار و حِکم بیان فرماتے ہیں۔ فاضل مصنف ان روایات کو دلائل کی بنیاد پر ناقابلِ قبول مانتے ہیں جن میں یہ ذکر ہوا ہے کہ فَترۃُ الوحی کے زمانے میں حضورؐ نے اپنے آپ کو پہاڑوں سے گرانے کی کوشش کی۔ اس باب کے آخر میں انہوں نے قرآن کی ترتیبِ نزولی اور ترتیبِ تلاوت پر بھی بحث کی ہے۔
باب سوم ’’قرآن کا نزول سات حرفوں میں‘‘ میں مولانا نے حروفِ سبعہ کی حقیقت پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ حروفِ سبعہ سے مراد لغاتِ سبعہ ہیں نہ کہ قُراء کی قراءتِ سبعہ؟ اس باب میں انہوں نے ابن قتیبہ، ابن حزم ظاہری، بدرالدین عینی، بدرالدین زرکشی، جلال الدین سیوطی، ملا علی قاری اور علامہ انور شاہ کشمیری وغیرہم کی تحقیقات پیش کی ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ حروفِ سبعہ کی حقیقت کے بارے میں اختلافِ آراء کی وجہ سے قرآن کی حقیقت پہ کچھ اثر نہیں پڑتا۔
باب چہارم ’’تدوینِ قرآن‘‘ میں فاضل مصنف نے عہدِ نبوی اور اس کے بعد تدوینِ قرآن کے کام کو بیان کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ معوذتین کے بارے میں ابنِ مسعود کا قول سنداً ثابت نہیں ہے۔ اس مقام پر انہوں نے مولانا سید ابولاعلی مودودیؒ سے اختلاف کیا ہے۔ اس کے بعد قرآن کے نقطے، حرکات، اجزاء اور رکوعات کی تقسیم بھی زیرِ بحث آئی ہے۔
باب پنجم ’’اعجاز القرآن‘‘ میں مولانا نے قرآن کے اعجازی پہلوؤں کے متعلق خامہ فرسائی کی ہے۔ قریش کے سرداروں اور دورِ جدید کے دانشوروں کی آراء کو بیان کرنے کے بعد قرآن کے وجوہ الاعجاز بھی بیان کیے ہیں۔ نیز مسیلمہ کذاب اور ابن المقفع کی قرآن کے مقابلے میں ایک نیا کلام گھڑنے کی مضحکہ خیز کوششوں کا بھی جائزہ لیا ہے۔
باب ششم ’’النسخ فی القران‘‘ میں نسخ کے لغوی اور شرعی معنی بیان کرنے کے بعد انہوں نے شیعوں کے عقیدہ بداء پر گفتگو کی ہے۔ نیز نسخ فی الاحکام کے جائز ہونے کے دلائل بھی دیے ہیں۔ نسخ کے متعلق انہوں نے چاروں فقہی مذاہب کی آراء کو بیان کیا ہے۔ مصنف کی ذاتی تحقیق کے مطابق آیاتِ منسوخہ کی تعداد چھ ہے۔ یہ باب پہلی جلد کا سب سے آخری اور ضخییم ترین باب ہے۔
دوسری جلد کے پہلے باب یعنی باب ہفتم بعنوان ’’مضامینِ قرآن‘‘ میں فاضل مصنف نے قرآن کے بنیادی مضامین پر گفتگو کرنے کے بعد جِنّات اور ملائکہ کی حقیقت کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ نیز ان کے بارے میں متجددین کی آراء پر بھی نقد کیا ہے۔ مزید اس باب میں حروفِ مقطعات، اقسام القرآن اور امثالِ قرآن کے مباحث بھی زیرِ بحث آئے ہیں۔
باب ہشتم ’’تفسیر اور اصولِ تفسیر‘‘ میں انہوں نے تفسیر اور تاویل کے متعدد لغوی اور اصطلاحی مفاہیم بیان کرنے کے بعد قرآن کی تفسیر کے اصول بالتفصیل بیان کیے ہیں۔ نیز دورِ صحابہ اور اس کے قریب کے مختلف کبار مفسرین کا بھی تفصیلاً تذکرہ کیا ہے ۔
باب نہم ’’متجددین کا منہجِ تفسیر‘‘ میں انہوں نے خصوصیت کے ساتھ سرسید احمد خان اور ان کے بقول مصر میں جدیدیت اور آزاد عقلیت کے امام شیخ محمد عبدہ کی تفسیری آراء پر نقد کیا ہے۔
باب دہم ’’مدون تفاسیر اور تعارفِ مفسرین‘‘ میں فاضل مصنف نے متقدمین، متاخرین اور ان کے معاصرین کی بہت ساری تفاسیر کا تعارف کرایا ہے اور ان مفسرین کے تفسیری منہج پر بھی بحث کی ہے۔ اردو تفاسیر میں انہوں نے سات تفاسیر کا تفصیلی تعارف کرایا ہے۔ مصنف کے نزدیک مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی تفسیر یعنی تفہیم القرآن کا اصل مقدمہ ان کی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ ہے، اس کو پہلی جلد کی ابتداء میں شائع کیا جانا چاہیے تاکہ اس کی افادیت بہت زیادہ بڑھ جائے۔
بحیثیت مجموعی یہ قرآنِ مجید کے سنجیدہ طلباء کے لیے بہت مفید کتاب ہے۔قرآن کے ہر طالب علم کو اس کا ضرور بالضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حروفِ سبعہ اور تدوین قرآن وغیرہ کے مسائل پر کچھ علماء کی آراء ان سے مختلف بھی ہے۔ اہلِ علم اختلاف کا پورا حق رکھتے ہیں۔ ناشر حضرات اس عمدہ کاوش کے لیے مبارک بادی کے مستحق ہیں کہ آئے روز ان کے ادارے سے اس طرح کی بہت اہم علمی اور فکری کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اللہ تعالی ہمیں قرآن کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین۔
***

 

***

 مصنف کے نزدیک مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی تفسیر یعنی تفہیم القرآن کا اصل مقدمہ ان کی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ ہے، اس کو پہلی جلد کی ابتداء میں شائع کیا جانا چاہیے تاکہ اس کی افادیت بہت زیادہ بڑھ جائے۔بحیثیت مجموعی یہ قرآنِ مجید کے سنجیدہ طلباء کے لیے بہت مفید کتاب ہے۔قرآن کے ہر طالب علم کو اس کا ضرور بالضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اگست تا 12 اگست 2023