علمائے کشمیر کی دینی و علمی خدمات۔370 علماء کے تذکرے
نام کتاب : علمائے کشمیر کی دینی و علمی خدمات
مصنف: خاکی محمد فاروق، کشمیر
صفحات: ۵۷۲
قیمت : سات سو روپیے
ناشر : سنڈیکیٹ میڈیا سرینگر کشمیر
مبصر : عمر فاروق، کشمیر
تاریخ ایک آئینہ ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں ہر قوم اپنی بھلی یا بری تصویر دیکھ سکتی ہے۔ اس آئینے پہ اگر کوئی گردو غبار ڈالنے کی کوشش کرے تب بھی کچھ ہی محنت کے بعد اس کی یہ دُھندلاہٹ دور ہوسکتی ہے ۔اگر کوئی تصویر دیکھنے والا اسے اپنے موافق نہ پاکر اس کو ٹکڑوں میں تقسیم کردے یا اسے سِرے سے ہی مٹانے کی کوشش کرے تب بھی اس کا بچا ہوا ایک ایک ٹکڑا خود بخود ہر معاملے کی صحیح تصویر دکھائے گا۔ تاریخ کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ اس کے حافظے میں چھوٹے لوگوں کے لیے جگہ نہیں ہوتی، وہ ہمیشہ بڑے لوگوں کو ہی یاد رکھتی ہے۔چھوٹے عالموں، فلسفیوں، دانشوروں، سائنسدانوں اور سیاستدانوں کو یاد رکھنا اس کے لیے بہت مشکل ہے۔یہ ہمیشہ ہر میدان کے قائدین اور ائمہ کو ہی یاد رکھتی ہے۔مثال کے طور پر ایک طرف یہ قافلہ صالحین میں سے انبیاء، صدیقین اور شہداء کو یاد رکھتی ہے تو دوسری طرف لشکرِ مفسدین میں سے فرعون، نمرود، قارون اور ابولہب جیسوں کو ہی یاد رکھتی ہے۔ چھوٹے لوگوں کے لیے اس کے حافظے میں یا تو سرے سے جگہ ہی نہیں یا اگر ہے بھی تو بہت ہی کم، کیونکہ تاریخ، افراد اور ان کے رویوں سے تشکیل پاتی ہے۔ مگر لوگ تاریخ کے ساتھ اس وقت بڑا ظلم کرتے ہیں جب وہ محض اپنے تعصب یا ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے نشہ میں مست ہوکر اپنے من پسند چھوٹوں کو دوسروں کے بڑوں کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں۔ جسے اللہ نے ہی پستہ قد پیدا کیا ہو اسے یوں کھینچ کھینچ کر بڑا کرنے کی سعیِ لاحاصل میں اپنا وقت برباد کرنا چہ معنی دارد؟ اسی طرح تاریخ ساز شخصیات کے ساتھ ایک بہت بڑا ظلم جو روا رکھا گیا ہے وہ یہ کہ ان کی تعلیمات کے اصل مغز کو بیان کرنے کے بجائے چھلکوں پر ہی اکتفا کیا گیا جس کی وجہ سے ہمارے ذہن میں صرف ان کی دھندلی سی ہی تصویر آتی ہے۔
کشمیر کی بات کریں تو یہاں بھی بے شمار علماء کرام اور اولیاء اللہ کی زندگیوں کو محض معجزوں، کرامتوں اور مافوق البشر صفات سے متصف شخصیات کے طور پر ہی پیش کیا گیا جس کی وجہ سے عوام ان کی ان کرامتوں کی سماعت پہ واہ واہ تو کرتی ہے لیکن انہیں ان ’’نامکمل تذکروں‘‘ میں کوئی قابلِ تقلید اور قابلِ عمل بات نظر نہیں آتی۔ مگر خدا اپنے ان محبوب بندوں کی تعلیمات پر زیادہ دیر تک گرد پڑی رہنے نہیں دیتا بلکہ اپنے بعض بندوں کو ان کی اصل تعلیمات سے عوام الناس کو روشناس کرانے کی توفیق سے دیتا ہے۔ان ہی میں سے ایک کشمیر کے ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے جناب خاکی محمد عمر فاروق صاحب بھی ہیں جنہوں نے حال ہی میں کم و بیش 370 اولیائے کشمیر کی سوانح کو مرتب کرکے ’’علمائے کشمیر کی دینی و علمی خدمات‘‘ جیسی علمی، تحقیقی اور تاریخی کتاب لکھ کر ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے اور یوں نئی نسل کے لیے اپنے درخشاں ماضی کو جاننے اور پھر اسے حال بنانے کی راہ بھی متعین کی ہے۔ یہ کتاب سینڈیکیٹ میڈیا سرینگر نے شائع کی ہے۔ خاکی محمد عمر فاروق صاحب ایک بہترین مصنف، شعلہ بیان مقرر، تاریخ داں اور شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ان کی علم دوستی کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تا حال ان کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتب کی تعداد کم و بیش پچیس ہے۔
تقریباً پونے چھ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 370 علمائے کرام کے تذکرے سے پہلے مصنف کے فرزند خاکی عمر فاروق صاحب نے کتاب اور صاحب کتاب کا تعارف ہیش کیا ہے۔ اس کے بعد تقریظِ اول کے عنوان کے تحت مولانا مفتی اسحاق نازکی صاحب نے فنِ تاریخ کی اہمیت و افادیت پر سیر حاصل بحث کی ہے اور ساتھ ساتھ مصنف کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ مدیرِ اعلی ماہنامہ "الحیات” ڈاکٹر جوہر صاحب قدوسی نے تقریظِ دوم میں علم کی اہمیت پر گفتگو کرکے اس کتاب کا مغز دو جملوں میں بیان کیا ہے۔ وہ رقمطراز ہیں "اس کتاب کی سب سے بڑی دو خوبیوں میں (اول ) اس کے متن کا قدیم و جدید کی قید سے آزاد ہونا اور دوم، اس کے مضامین کا مسلکی۔ مکتبی اور گروہی عصبیت سے بالاتر ہونا شامل ہے” (صفحہ: ۲۷) وادیِ کشمیر کے نامور ادیب جناب ڈاکٹر شکیل احمد خان شفائیؔ نے "حرفِ چند” کے عنوان سے نفس مضمون کا ذکر کرتے ہوئے ایک عالمانہ تحریر رقم کی ہے جو انہیں کا خاصہ ہے اور اس کے بعد خود فاضل مصنف نے پیش لفظ لکھ کر اس کتاب کے حدودِ اربعہ متعین کیے ہیں۔ کتاب کا آغاز فاضل مصنف نے محسنِ کشمیر حضرت عبد الرحمن بلبل شاہ ؒ ترکستانی کے ذکرِ خیر سے کیا ہے تو وہیں اختتام علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے پوتے مولانا نسیم اختر شاہ کشمیری ؒ کے تذکرے پر کیا ہے۔ درمیان میں بیسیوں علماء کرام کا تذکرہ آیا ہے۔ مصنف نے ہر عالم کی علمی اور عملی زندگی پہ روشنی ڈالی ہے۔ کہیں اجمال سے کام لیا ہے تو کہیں تفصیل سے۔
اس کتاب کی کئی ایک خصوصیات ہیں۔ نمبر ایک: اس میں کشمیر کی معلوم اسلامی تاریخ سے لے کر آج تک کے مختلف علماء کا مفصل یا مجمل تذکرہ موجود ہے۔ نمبر دو: اس میں مسلکی، گروہی اور مکتبی امتیازات سے بالاتر ہو کر بیسیوں سنی علماء و فضلاء کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ نمبر تین: کتاب میں مذکور اکثر علماء کی تاریخ ولادت، تاریخ وفات، القابات، خاندانی اور تعلیمی پسِ منظر، علمی اور عملی اور ادبی خدمات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔نمبر چار: مصنف نے قاری کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا بھی برمحل جواب دیا ہے، مثال کے طور پر جب حضرت عبدالرحمن بلبل شاہ صاحب ؒ ترکستانی کشمیر تشریف لائے تو اس وقت یہاں کا بادشاہ "رینچن شاہ” تھا جو بودھ مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ تاریخ میں ان دونوں کے مکالمے کا ذکر تو ملتا ہے مگر دورانِ مطالعہ ایک حساس قاری کے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ آخر ان دو مختلف زبانیں بولنے والوں نے کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کی ہوگی؟ اس سوال کے جواب میں مصنف خود رقمطراز ہیں کہ "یہاں یہ امر قابلِ غور ہے کہ حضرت بلبل شاہ ؒ کی زبان فارسی اور عربی تھی جبکہ رینچن شاہ کی تبتی،اس لیے اس تاریخ ساز گفتگو میں ترجمان کی ذمہ داری شاہ میر نے انجام دی ہوگی کیونکہ یہی ایک شخص تھا جو اس وقت یہاں فارسی، کشمیری اور تبتی زبانیں جاننے والا تھا ” ( صفحہ : ۴۱) نمبر پانچ: مصنف نے ہر بات باحوالہ لکھی ہے۔ نمبر چھ: انہوں نے جگہ جگہ مفید حاشیے لکھ کر کتاب کی افادیت میں اضافہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر صفحہ ۱۲۴ پر لفظِ گنائی کی تحقیق میں مصنف نے بہت مفید حاشیہ لکھا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد بہت سے لوگ احساسِ کمتری سے باہر آئیں گے اور بہت سوں کو اپنے رویوں پہ نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ نمبر آٹھ: مصنف نے علماء و اولیاء سے منسوب غیر شرعی واقعات سے کلی طور پر اجتناب کیا ہے اور اس کے مقابلے میں ان کی ان صفات کو جگہ دی ہے جنہیں عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مصنف نے بابا نصیب الدین غازی ؒ کے تذکرے میں لکھا ہے کہ ان کی مختلف مقامات پر تعمیر کردہ مساجد کی تعداد بارہ سو سے زائد ہے۔ اسی طرح ان کے متعلق خاکی صاحب لکھتے ہیں کہ "بابا نصیب الدین ؒ کے بارے میں آیا کہ وہ جہاں بھی جاتے وہاں غسل خانے،بیت الخلاء اور مسافر خانے بنواتے اور سایہ دار درخت لگواتے تھے،یہی ان کے ساتھی بھی کرتے تھے۔اسی طرح بابا عبداللہ گزریالی نے زوجیلا پہاڑ پر ایک مسافر خانہ بھی بنایا تھا ۔ (صفحہ : ۱٦٣ ) اسی طرح انہوں نے حضرت شیخ نور الدین ولی ؒ کی زندگی کے مختلف ادوار کا تذکرہ کیا ہے کہ تیس سال کی عمر میں انہوں نے غار نشینی کرتے ہوئے ترکِ دنیا کی تھی۔ اس کے بعد مصنف لکھتے ہیں کہ ” حضرت شیخ العالم ؒ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے ریشیت کو اسلام کے رنگ میں رنگ دیا۔(صفحہ ۷۸) اولیائے کرام سے محبت کا دم بھرنے والوں کے لیے ان واقعات میں سبق بھی ہے اور عبرت بھی کہ کیا وہ ان کی اصل تعلیمات کو آگے لے جا رہے ہیں یا حکیم الامت علامہ اقبال ؒ کے الفاظ میں محض اپنے اسلاف کے مدفن بیچ کھا رہے ہیں؟ اسی طرح متعدد مقامات پر مصنف نے اولیاء اللہ کے مختلف کارناموں کا تذکرہ کیا ہے جن سے اصل تقوی کے لوازمات سمجھ میں آتے ہیں۔
چیست تقوی ترک شبہات و حرام
نے قماش و دختر و فرزند و زن ”
نمبر نو: انہوں نے ان علماء کی تصنیفات کا بھی ذکر کیا ہے، مثال کے طور پر مصنف نے صرف حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی ؒ کی ایک سو چودہ کتابوں کا تعارف کرایا ہے۔ نمبر دس: ان علماء و اولیاء کے تذکروں سے ان کے باہم مشترک صفات عالیہ سے بھی آگہی حاصل ہوتی ہے۔جیسے ان میں سے اکثر کی تربیت گھر سے ہی شروع ہوئی، وہ اپنی اخلاقی اور روحانی تربیت کے لیے کسی شیخ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے تھے، سیاحت بھی ان کی زندگیوں کا اہم حصہ تھا وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کتاب اس تارِ عنکبوت سے بھی نازک تصور کی نفی کرتی ہے کہ حکومت کا دین کی ترویج میں کیا کام؟ اور ان علماء کو بھی سوچنے پر ابھارتی ہے جو اسلامی نظامِ حکومت کی اہمیت کو "موعود اور مقصود” کی بحثوں میں الجھا کر اور ہاتھ پیر مارے بغیر ہی عوام الناس کو "لیستخلفنھم فی الارض” کا مژدۂ جانفزا سنا کر پتلی گلی سے نکلنے کا راستہ اپنے لیے ہموار کرتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ مصنف نے کتاب کے آخر میں کشمیر کی تاریخ پر لکھی گئی دسیوں کتابوں کی فہرست جمع کی ہے جو تاریخِ کشمیر کے حوالے سے مصادر، منابع اور مآخذ کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ فہرست ان لوگوں کے لیے بہت مفید ہے جو تاریخِ کشمیر پر پڑھنے یا لکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ مگر ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ تسامحات بھی در آئی ہیں اور اس پہ مستزاد میرے (ناقص) خیال میں چند مفید مشورے ہیں جن کی طرف مناسب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
۱) خاکی عمر فاروق صاحب کی تحریر بعنوان "تعارف” میں کئی غلطیاں ہیں،انہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔
۲) کتاب میں شیعہ علماء کو یکسر طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ میرے خیال سے امت مسلمہ کشمیر کے وسیع تر مفاد میں ان کا تذکرہ بھی آجانا چاہیے تھا۔
۳) یہ کتاب خواتین علماء کے تذکرے سے خالی ہے۔ ایک طرف ہم خواتین کی تعلیم پہ اتنا زور دیتے ہیں اور دوسری طرف کسی ایک بھی خاتون کو اس کتاب میں جگہ نہیں ملی ہے۔ صرف ایک جگہ صفحہ ۳٦٣ پر گل محمد بادشاہ کی دو صاحبزادیوں کا تذکرہ آیا ہے۔ جن میں ان کی بڑی بیٹی فرخندہ بیوی مثنوی اور شرح وقایہ کا درس دیا کرتی تھیں اور دوسری بیٹی تاج النساء تھیں جو بڑی عابدہ اور عالمہ تھیں۔
۴) حواشی اگر ہر صفحے کے نیچے ہی لکھے جاتے تو میرے خیال سے یہ زیادہ بہتر رہتا۔
۵) ایک اور بات وہ یہ کہ کتاب کو مختلف ابواب میں تقسیم نہیں کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر آٹھویں صدی ہجری کے علماء، نویں صدی ہجری کے علماء وغیرہ جیسے عناوین دے کر کتاب سے استفادے کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔
٦ ) ہر عالم کے نام کے ساتھ ہی قوسین میں ان کا سنِ ولادت اور سنِ وفات لکھا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
۷) چوں کہ کتاب میں بسیار معلومات موجود ہیں انہیں مکمل طور پر ذہن میں مستحضر رکھنا مشکل ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ از اول تا آخر ہر شخصیت کے تذکرے کو کئی ذیلی عناوین میں تقسیم کیا جائے تاکہ پوری کتاب کا باضابطہ ایک نظام بن جائے اور قاری کے لیے یاد رکھنا آسان ہو۔
۸) کچھ تاریخ ساز شخصیات کا بھی تذکرہ نہیں آیا ہے۔ انہیں بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
۹) کتاب میں اکثر علماء کا ایک دوسرے کے ساتھ علمی یا نسبی تعلق ہے۔اس لحاظ سے فلو چارٹ کی مدد سے ان کے باہمی تعلق کو اجاگر کیا جاسکتا ہے۔
سو بات کی ایک بات کہ میں نے اس کتاب کو بہت ہی مفید پایا۔ یہ بالخصوص ہر کشمیری صغیر و کبیر اور مرد و زن کی ضرورت ہے۔ اس کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ اس کتاب کو مقبولیت حاصل ہوگی۔ ان شاءاللہ المستعان۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مصنف کی جملہ دینی،علمی اور فکری کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان سے زیادہ سے زیادہ کام لینے کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو ان کی تصنیفات سے استفادے کی توفیق بھی عنایت فرمائے۔آمین
(کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ نمبر 7006531215)
***
***
کشمیر میں بھی بے شمار علماء کرام اور اولیاء اللہ کی زندگیوں کو محض معجزوں، کرامتوں اور مافوق البشر صفات سے متصف شخصیات کے طور پر ہی پیش کیا گیا جس کی وجہ سے عوام ان کی ان کرامتوں کی سماعت پہ واہ واہ تو کرتی ہے لیکن انہیں ان "نامکمل تذکروں” میں کوئی قابلِ تقلید اور قابلِ عمل بات نظر نہیں آتی۔ مگر خدا اپنے ان محبوب بندوں کی تعلیمات پر زیادہ دیر تک گرد پڑی رہنے نہیں دیتا بلکہ اپنے بعض بندوں کو ان کی اصل تعلیمات سے عوام الناس کو روشناس کرانے کی توفیق سے دیتا ہے۔جس کی ایک عمدہ مثال کتاب ہذا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 مئی تا 03 جون 2023