اسوان :سونے کی سرزمین

ایک ایسے شہر کی داستان جس نے کئی تہذیبوں کو بدلتے دیکھا

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی
ایسوسی ایٹ پروفیسر، عین شمس یونیورسٹی، قاہرہ

اسوان کو تاریخی طور پر جنوبی مصر اور اس کے جنوبی دروازے کے اہم ترین شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔یہ مصر کا جنوبی گیٹ وے ہے اور دریائے نیل کے مشرقی ساحل پر اس کے پہلے آبشار پر واقع ہے۔ اس کا کچھ حصہ نیل کے چاروں طرف میدان میں ہے اور دوسرا پہاڑیوں پر ہے، جو مشرقی صحرائی سطح مرتفع کے کنارے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کے جنوب میں دریائے نیل کا پہلا آبشار ہے جو بالائی مصر اور ’نوبیا‘ کے درمیان قدرتی حد کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ قاہرہ سے 879 کلومیٹر دور ہے اور ریلوے، صحرائی اور زرعی زمینی سڑکوں، نیل کی کشتیوں اور گھریلو پروازوں کے ذریعے قاہرہ سے منسلک ہے۔یہ 2005ء سے دستکاری اور فنون کے شعبے میں یونیسکو کی فہرست میں رجسٹرڈ تخلیقی شہروں میں سے ایک ہے۔
قدیم مصری زبان میں اسوان کو ’سونو‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، جس کا مطلب بازار ہے۔ جہاں یہ ایک تجارتی علاقہ تھا اور تجارتی قافلوں کا ایک ٹھکانہ بھی تھا، وہیں یہ نوبیا آنے اور جانے والے قافلوں کا تجارتی مرکز تھا۔ بطلیما کے دور میں یونانیوں نے اس نام کو بدل کر ’سین‘ رکھ دیا، پھر اقباط نے اسے ’سوان‘ کہا۔ اسے سونے کا ملک بھی کہا جاتا تھا، کیونکہ یہ ’نوبیا‘ کے بادشاہوں کے لیے ایک بہت بڑا خزانہ یا قبرستان تھا جو وہاں ہزاروں سال سے مقیم تھے۔ ہجرت سے پہلے اسوان کی سرحدیں مشرق میں ’اسنا‘ سے جنوب میں ’سوڈان‘ کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی تھیں اور اس کے باشندے نوبیان کہلاتے تھے۔ چھٹی صدی عیسوی میں ’نوبیا‘ پر اسلامی فتح کے بعد کچھ عرب قبائل اس میں رہنے لگے۔ عرب کے آنے کے بعد اس کا تلفظ اور نام ’ اسوان‘ پڑا۔
چونکہ اسوان ملک کی جنوبی سرحد کی نمائندگی کرتا تھا، اس لیے اس کی اہمیت مصر کی پرانی سلطنت کے دور میں شروع ہوئی۔ یہ وسطی بادشاہوں کے دور میں ان فوجوں کے اجتماع کا مرکز بھی تھا، جنہوں نے جنوب میں اپنی حکمرانی کو بڑھانے کی کوشش کی۔ اسوان نے ’ہکسوس‘ کے خلاف جنگ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ بادشاہ محمد علی نے 1837ء میں مصر میں پہلا ملٹری اسکول قائم کیا۔ دسویں صدی عیسوی میں اسلامی دور میں اسوان کی ترقی ہوئی، جہاں سے بحری جہاز حجاز یمن اور بھارت جاتے تھے۔ چھٹی اور ساتویں صدی میں یہ ایک اہم ثقافتی مرکز بھی تھا۔ مصر کے دوسرے شہروں کی طرح اسوان کے زیادہ تر باشندوں نے سنی مکتبہ فکر اور صوفی طریقوں کے مطابق اسلام قبول کیا ۔ ان کا ایک حصہ عیسائیوں سے ہے جن میں سے زیادہ تر قبطی آرتھوڈوکس ہیں۔
اسوان میں سردیاں مختصر ہوتی ہیں۔ موسم سرما بہت دلچسپ اور پرلطف ہوتا ہے جبکہ موسم گرما طویل اور بہت گرم ہوتا ہے۔گرمیوں میں چلچلاتی دھوپ کے ساتھ موسم ناقابل برداشت حد تک گرم ہو جاتا ہے۔ کم موسمی تغیرات کے ساتھ تمام موسموں میں اسوان کا موسم پورے سال روشن اور دھوپ والا رہتا ہے جبک بارشیں ہر سال نہیں ہوتیں۔ درحقیقت پوری دنیا میں اسوان کو مصر کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جو موسم سرما گزارنے کے لیے بہت مناسب جگہ ہے۔ یہاں معتدل آب و ہوا، گرم دھوپ اور پر سکون ماحول دستیاب ہے، یہاں تک کہ کشتیاں جو دریائے نیل پر بہتی ہیں وہ بھی اچھا نظارہ پیش کرتی ہیں۔
شہر اسوان اور اس کے گرد ونواح کو ایک سیاحتی اور آثار قدیمہ کا علاقہ سمجھا جاتا ہے، جہاں غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں خاص طور پر یورپ اور مشرقی ایشیا کے سیاحوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے اہم ترین سیاحتی مقامات میں سے ’پرانا اسوان ڈیم‘ شامل ہے۔ اس کی تعمیر کا کام 1899ء اور1906ء کے درمیان جنوبی مصر کے شہر اسوان میں شروع ہوا۔ اس کا سنگ بنیاد خدیوی عباس حلمی دوم نے رکھا تھا اور انہی کے دور میں اس کا افتتاح کیا گیا۔ اس پر ایک سڑک کی تعمیر ہوئی جو دریائے نیل کے مشرقی اور مغربی کناروں کو ملاتی ہے۔یہ ڈیم 2141 میٹر لمبا 9 میٹر چوڑا ہے اور اس کے 180 دروازے ہیں جو علاقے میں دستیاب گرینائیٹ سے بنائےگئے ہیں۔ اس سائز کا بنایا جانے والا یہ پہلا ڈیم تھا اور اس وقت اسے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم شمار کیا گیا تھا۔ ڈیم کا کام دریائے نیل کے سیلاب کے دوران پانی کو محفوظ کرنا ہے، جہاں آب پاشی کے لیے ضروری مقدار میں پانی نکالا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جزیرہ ’ہیسا‘ کو بہت ساری یادگاروں اور فرعونی نقشوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ممتاز کیا گیا ہے۔ یہ جزیرہ شہر اسوان کے مشرق میں ہائی ڈیم اور اسوان ریزروائر کے درمیان واقع ہے۔ نیوبین کے قدیم ترین جزیروں میں سے ایک ہے۔ یہ نام بادشاہ ہیس کے نام پر ہے جو ساتویں خاندان کے سب سے اہم بادشاہوں میں سے ایک ہے۔اس کے ممتاز مقام کی وجہ سے اسے ایک احیاء میلہ منعقد کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ جیسے سیاحت، پارٹیاں اور مصری شخصیات کا میلہ وغیرہ۔ ماضی میں یہ جزیرہ اس شہر میں رہنے والے پادریوں کے لیے قبرستان کے طورپر جانا جاتا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ ہمسایہ جزیرہ فیلہ کے باشندوں کے لیے بھی، کیونکہ یہ پتھر اور کوئلہ نکالنے کے لیے ایک قدرتی کان تھی جسے دریاکے پار لے جایا جاتا تھا، تاکہ تہرام کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ جزیرے کے گھر چمکدار رنگوں میں چمکتے ہیں۔یہ چھوٹے پہاڑ کی چٹانوں پر ایک خوبصورت ہم آہنگی کے ساتھ تقسیم کیے گئے ہیں جو کہیں اور تلاش کرنا مشکل ہے۔ پہاڑ کے پتھروں سے جڑی ہوئی چمکدار رنگ کی تصویریں جو گھروں کو باہر اور اندر سے آراستہ کرتی ہیں، ایک خوبصورتی اور نفاست بخشتی ہیں جو دیکھنے والوں کے دلوں کو موہ لیتی ہیں۔ فرعونی، قبطی اور اسلامی ماڈلز کی ہم آہنگی اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتی ہیں۔ گھروں کو چاروں طرف سے پہاڑ اور دریا گھیرے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے اس جزیرے کے لوگ آلودگی سے پاک اور صاف ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ بیماریوں سے پاک صحت مند آب و ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ گٹھیا اور جوڑوں کے درد کے مریضوں کے لیے ایک صحت مند مرکز ہے۔ یہ جزیرہ نیل کی مٹی سے مٹی کے برتن بنانے، جزیرے کے لوگوں کی دستکاری اور رنگین موتیوں کے ساتھ نیوبین لوازمات کی تیاری کے لیے بھی مشہور ہے جسے عورتیں پہنتی ہیں۔اس جزیرہ پر بھینڈی، مٹر، پیاز، مونگ پھلی اور کھجور کی کاشت ہوتی ہے۔ یہاں کے لوگ کشتیاں بنانے کے لیے مشہور ہیں، جو اس جزیرے سے باہر نکلنے، یا شہر میں داخل ہونے کے لیے نقل و حمل کا واحد ذریعہ ہیں۔ اس شہر کے زیادہ تر باشندوں کا پیشہ غیر ملکیوں اور سیاحوں کو ماہی گیری اور کشتیاں کرائے پر دینا ہے، اس کے علاوہ کچھ بڑھئی کا پیشہ بھی کرتے ہیں جو کہ ان کا بنیادی پیشہ ہے، جیسے کہ زرعی آلات کی تیاری اور فرنیچر کے بہت سے ٹکڑوں کے ساتھ جن کے لیے پورا ’نوبیا‘ مشہور ہے۔
اسوان کے اہم ترین سیاحتی مقامات میں سے فيلہ مندر بھی ہے جو فرعونی مصر کے سب سے مشہور مندروں میں سے ایک ہے۔ یہ دریائے نیل کے وسط میں جزیرہ فيلہ میں واقع ہے جو کہ مصر کے سب سے اہم دفاعی قلعوں میں سے ایک تھا۔ جزیرہ فيلہ پر بہت سے منادر ہیں جن میں سب سے مشہور مندر تیسرے بادشاہ تحتمس کا تعمیر کردہ ہے، اس کے ساتھ ہی وہ مندر بھی جو بادشاہ ’نخت نباف‘ نے تعمیر کیا تھا اور رومیوں کے مندر بھی قابل ذکر ہیں۔
فیلہ کے معنی قدیم مصری قبطی زبان میں حد یا انتہا کے ہیں کیونکہ یہ جنوب میں مصر کی آخری سرحد تھی۔ جزیرہ فيلہ پر فرعونی مجسموں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اسے قدیم فرعونی جزیروں کا زیور بناتی ہے، جہاں تیس خاندانوں سے منسلک ’نختنبو اول‘ کی قبر ہے اور رومی اور بطلیمی دور کے ستون ہیں جیسے حتھور کا مندر، امحوٹپ کا مندر اور ٹراجان کا چیپل وغیرہ۔ پانچویں صدی عیسوی میں جب عیسائیت ملک کا سرکاری مذہب بن گیا تو فرعونیوں کے زیادہ تر مندر گرجا گھروں میں تبدیل ہو گئے اور جزیرہ فيلہ ’الاسقفيات بشپوں‘ میں سے ایک کا مرکز بن گیا تھا، جس کی وجہ سے عیسائیت مصر اور سوڈان میں پھیلتی چلی گئی
***

 

***

 شہر اسوان اور اس کے گرد ونواح کو ایک سیاحتی اور آثار قدیمہ کا علاقہ سمجھا جاتا ہے، جہاں غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں خاص طور پر یورپ اور مشرقی ایشیا کے سیاحوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے اہم ترین سیاحتی مقامات میں سے ’پرانا اسوان ڈیم‘ شامل ہے۔ اس کی تعمیر کا کام 1899ء اور1906ء کے درمیان جنوبی مصر کے شہر اسوان میں شروع ہوا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 مئی تا 03 جون 2023