یوکرین جنگ ۔۔ تھکن اور دراڑ

امریکہ و یوروپ کی معیشت پر کاری ضرب

مسعود ابدالی

یوکرین کی سخت مزاحمت کی بدولت ماسکوکی طرف سے مذاکرات پر آمادگی کے اشارے
یوکرین روس جنگ نویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔ جب 24 فروری کو صدر پوتن نے طبلِ جنگ بجایا اس وقت ان کے جرنیلوں کا خیال تھا کہ عسکری کارروائی کا دورانیہ چار دن سے زیادہ نہیں ہوگا اور یکم مارچ کو دارالحکومت کیف میں ماسکو نواز حکومت کے قیام کے بعد روسی افواج کی فاتحانہ واپسی شروع ہو جائے گی۔ جنگ کے ابتدائی ایام میں لگ بھی کچھ ایسا ہی رہا تھا۔ روسی افواج نے جارحانہ پیش قدمی کرکے جنوب مشرقی یوکرین کے بڑے حصے پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ دنباس (Donbas)کے نام سے مشہور اس علاقے کے دوصوبوں یعنی دینیاتسک (Donetsk)اور لوہانسک (Luhansk) کے کچھ حصوں پر روس 2014 میں قبضہ کرکے اپنی مرضی کی حکومت بناچکا تھا چنانچہ پیش قدمی کرتی ہوئی فوج کو ابتدائی مرحلے میں کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ دوسری طرف فضا سے داغے جانےوالے تباہ کن میزائیلوں نے یوکرین کے دفاعی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ ایک اندازے کے مطابق جنگ کے آغاز سے وسط اکتوبر نے روس نے یوکرین پر 4500 میزائیل برسائے۔
جنگ شروع کرتے ہی روس نے اپنی سرحد سے متصل مشرقی یوکرین میں زاپوریژیا (Zaporizhzhia) کے جوہری پاور پلانٹ پر قبضہ کر لیا جو زاپوریژیا صوبے کے شہر اینرہودار (Enerhodar)میں دریائے دنیپر (Dniper)کے کنارے واقع ہے۔ سوویت دور کا یہ پلانٹ 1986 میں مکمل ہوا تھا جس میں 6 جوہری ری ایکٹر نصب ہیں اور پلانٹ میں بجلی پیدا کرنے کی مجموعی گنجائش 5700 میکاواٹس (MW)ہے۔ یہ یورپ کی سب سے بڑی جوہری تنصیب ہے جبکہ گنجائش کے اعتبار سے اس کا شمار دنیا کی دس بڑی جوہری تنصیبات میں ہوتا ہے۔ چند ہی دنوں میں جوہری پلانٹ کے قریب واقع تھرمل (پن بجلی گھر) پلانٹ بھی روس کے قبضے میں آگیا ۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں یوکرینی فوج کا سب سے مہلک اسلحہ ترک ساختہ ڈرون تھے۔ ان ڈرونوں کے ذریعے یوکرین نے روسی فوج کی صفوں کی پشت پر حملے کرکے ان کی رسد میں خلل ڈالا اور کئی محاذ پر روسی کمک کے راستے مسدود ہوگئے۔ اسی کے ساتھ امریکہ نے یوکرین کو جدید ترین ہِمارس (HIMARS) راکٹ فراہم کردیے ۔ہمارس راکٹ اپنے دشمن کو پچاس میل دور سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔امریکی اسلحہ ساز ادارے لاک ہیڈ مارٹِن نے یہ راکٹ 1990 میں تیار کیے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ اسے مزید مہلک اور تیر بہدف بنایا گیا ہے۔ اس ہتھیار کی عملی آزمائش نہتے افغانوں پر کی گئی تھی۔ امریکی حملے کے آغاز پر جارح فوج کا سب سے بڑا مسئلہ افغانستان کا طبعی جغرافیہ تھا۔ملک کا بڑا علاقہ کوہستان پر مشتمل ہے ، کھائیوں، غاروں اور چٹان کی اوٹ کو افغان جنگجو حفاظتی مورچوں کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ ان راکٹوں پر خصوصی بارودی مواد نصب کیے گئے جن کی ہلاکت خیزی کا یہ عالم تھا کہ ان کی ضرب سے بلند و بالا پہاڑوں کی مضبوط چٹانیں سُرمہ بن کر بکھر جاتی تھیں لیکن چٹانوں کو رائی بنادینے والے والا بارود حریت پسندوں کے عزم کو پست نہ کرسکا۔ اسکے برعکس یوکرین میں ہمارس راکٹوں کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ امریکہ کے علاوہ جرمنی اور برطانیہ نے جدید ترین توپوں، زمین سے فضامیں مار کرنے عوالے راکٹوں اور گولہ بارود کا ڈھیر لگا دیا۔
جدید ترین اسلحہ، تربیت اور زبردست مالی امداد سے پسپا ہوتی یوکرینی فوجیں سنبھل گئیں اور ستمبر کے آخر سے زوردار جوابی حملوں کا آغاز ہوا۔ یوکرینی فوج نے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے مقبوضہ Kherson, Zaporizhzhia, Luhansk, Donetsk صوبوں کے کئی علاقے روسیوں سے واپس چھیں لیے۔ اس دوران روس کے ایران ساختہ شاہد 136 ڈرونوں نے یوکرین کے بجلی گھروں اور آبنوشی کے ذخائر کو نشانے پر رکھ لیا۔ ترک ڈرون کے مقابلے میں شاید 136 خودکش ہیں یعنی یہ ہدف پر تباہ کن راکٹوں کے ساتھ خود ہی گر جاتے ہیں۔ اسی لیے ان سستے ’جنگی کھلونوں‘ کو disposable drone کہا جاتا ہے۔ ان ڈرون حملوں میں یوکرین کے ایک تہائی کے قریب بجلی گھر تباہ ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے ملک کا بڑا علاقہ تاریک اور پینے کے پانی کی قلت ہے۔ گزشتہ دنوں گروپ 7 کی مجازی (virtual) چوٹی کانفرنس میں یوکرین کے صدر ولادیمر زیلنسکی نے شکوہ کیا کہ روس کے بمباروں اور مہلک میزائلوں سے کہیں زیادہ نقصان ہمیں شاید ڈرونوں نے پہنچایا ہے۔ ایران، جوہری منصوبے پر تعاون کے بدلے روس کو خودکش ڈرون فراہم کر رہا ہے جبکہ اسرائیل روس سے تعلقات کے مد نظر غیر جانب دار ہے۔
امریکہ کی قومی سیکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی نے الزام لگایا ہے کہ ڈرون کے ساتھ ایران نے ’قلیل تعداد‘ میں سپاہی بھی مقبوضہ کریمیا بھیج دیے ہیں جو روسی افواج کو یوکرین پر ڈرون حملوں کی تربیت دے رہے ہیں۔ ایران اور روس دونوں نے امریکہ کے دعوے کو سفید جھوٹ قرار دیا ہے۔ کیا یوکرین کے خلاف ایرانی مدد کا واویلا اس کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کی پیش بندی ہے؟ اگر واقعی ایرانی سپاہ کریمیا بھیجی گئی ہے تو فرقہ وارانہ منافرت بھی خارج از امکان نہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں سُنّی تاتار آباد ہیں جنہیں روسیوں کی جانب سے نسل کشی کا سامنا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ روس تاتار کشیدگی اب شیعہ ایران اور سنی تاتار تصادم میں تبدیل ہو جائے۔
یوکرینیوں کے تابڑ توڑ زمینی حملوں کےساتھ روس کی زمینی اور آبی سرحدوں کے اندر بھی یوکرین نے کئی کامیاب کارروائیاں کی ہیں۔
جن میں سب سے اہم روس کو کریمیا سے ملانے والے پل پر کار دھماکہ ہے۔ آبنائے کرش پر تعمیر کیا جانے والا یہ پل یوکرین میں تعینات فوج کو کمک اور اسلحہ کی فراہمی کا سب سے محفوظ راستہ سمجھا جاتا ہے۔ روسیوں کے مطابق پل کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا لیکن اس کلیدی پُل تک رسائی بذات خود یوکرینیوں کا بڑا کارنامہ ہے۔
اس واقعے کے چند ہی دن بعد یوکرینی سرحد کے قریب بیلگرود Belgorod چھاونی پر دھاوا بولا گیا اور روسی فوجی وردی میں ملبوس یوکرینی چھاپہ ماروں نے سپاہیوں پر اس وقت فائرنگ کردی جب یہ جوان نشانہ بازی کی مشق کررہے تھے۔ حملے میں 11 سپاہی ہلاک اور 15 زخمی ہوگئے۔
یوکرینیوں کا سب سے بڑا کارنامہ روس کے تباہ کن جہاز ایڈمرل میکروو Admiral Makarovکی غرقابی ہے۔ یوکرینی بحریہ کے مطابق ایک مسلح ڈرون کشتی نے بحر اسود میں مقبوضہ کریمیا کی بندرگاہ سیوسٹاپول Sevastopol کے قریب 409 فٹ لمبے اس میزائیل بردار جہاز کو نشانہ بنایا.کہا جا رہا ہے کہ یہ ڈرون کشتی ترک ساختہ تھی۔ روس نے اس واقعے کو آبی دہشت کردی قرار دیا ہے۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکہ میں روس کے سفیر اناتولی انٹینوو (Anatoly Antonev) نے کہا کہ یوکرینی نازیوں نے بحری قزاقوں اور پیشہ ور دہشت گردوں کے تعاون سے سیوسٹاپول کی بندرگاہ پر حملہ کیا جس سے وہاں کھڑے جہازوں کو نقصان پہنچا۔ سفیر صاحب کا کہنا تھا کہ دہشت گردانہ کارروائی کی امریکہ اور نیٹو کی جانب سے ’پشت پناہی‘ پر بطور احتجاج روس غلہ کی فراہمی معطل کر رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ترکیہ کی کوششوں سے روس اور یوکرین نے گندم اور دوسری زرعی اجناس کی بحر اسود کے راستے ترسیل شروع کی تھی۔روس اور یوکرینی غلے سے لدے جہازوں کو ترک بحریہ بحرِ روم تک حفاظت فراہم کر رہی ہے۔ بحر روم کے کنارے واقع ملکوں بلکہ ساری دنیا میں ایک بار پھر گندم، جوار، مکئی اور دوسرے دانے مہنگے اور نایاب ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
ایک ہفتے کے دوران روسی فضائیہ کے دو بمبار طیارے تربیتی پرواز کے دوران رہائشی عمارتوں پر گر کر تباہ ہو گئے۔ بہت سے عسکری تجزیہ نگار ان حادثات کو روسی فوج کی تھکاوٹ اور کم حوصلگی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ شدید بمباری کے باوجود زمین پر روسی فوج کی کارکردگی بہت اچھی نہیں۔ دوسری جانب امریکہ اور نیٹو، یوکرین کے فضائی دفاعی نظام کو بہتر بنانے کے جتن کر رہے ہیں۔ صدر پوتن کے جرنیلوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر یوکرین فضائی اور میزائیل حملوں کو غیر موثر کرنے میں کامیاب ہوگیا تو یہ روس کا دوسرا افغانستان بن جائے گا۔
یوکرینیوں کی بے مثال مزاحمت ہے تو قابل تعریف، لیکن امریکہ، نیٹو اور یورپی یونین کو اس کی بھاری قیمت ادا کر نی پڑرہی ہے۔ اب تک امریکہ بہادر اس جنگ میں 51.92 ارب ڈالر پھونک چکے ہیں جبکہ یورپی اعانت کا حجم 16.24 ارب ہے۔ جہاں تک یوکرین کے مالی نقصان کا تعلق ہے تو عالمی بینک نے ستمبر کے آخر تک اس کا تخمینہ 348 ارب ڈالر لگایا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ دس ماہ کے دوران یوکرین کے 6000 شہری ہلاک اور 9000 سے زیادہ زخمی ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے 77 لاکھ شہری ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ جانی نقصان کے بارے میں کوئی مصدقہ خبر نہیں کہ ہر جنگ کی پہلی شہید سچائی ہے۔
جنگ پر بے تحاشہ اخراجات نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شدید اقتصادی مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔ امریکی تو ٹھہرا ہاتھی کہ مر کر بھی سوا لاکھ کا۔ وہاں پریشانی تو ہے لیکن صرف گرانی کی حد تک، قلت کی آزمائش سے امریکہ اب تک محفوظ ہے۔ لیکن یورپ کا حال بہت خراب ہے۔ پہلے اس کی معیشت کو کورونا ناگن نے ڈسا اوراب جنگ کی شکل میں نئی مصیبت سرپر آن پڑی۔ مہنگائی کو قابو میں کرنے کے لیے یورپین سنٹرل بینک (اسٹیٹ بینک) شرح سود میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا عذاب کیا کم تھا کہ موسم سرما کے آغاز پر گیس کی لوڈ شیڈنگ نے سردی سے ٹھٹھرتے گوروں کے چودہ طبق روشن کر دیے۔
اسی کے ساتھ کساد بازاری کے کوڑے نے یورپی یونین کی بڑی بڑی کارپوریشنوں، خاص طور سے توانائی کمپنیوں کو ادھ موا کر دیا ہے۔ جرمنی کی سب سے بڑی بجلی کمپنی Uniper کا کہنا ہے کہ اگر سرکار نے اعانت نہ کی تو اسے تالا لگ جائے گا۔ اس کمپنی کی سالانہ آمدنی (revenue) کا تخمینہ 170 ارب ڈالر ہے۔ گزشتہ سال اسے 4 ارب ڈالر کا خسارہ ہوا اور اس سال کی ہر سہہ ماہی ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ خسارے کے بوجھ سے کراہتی یونی پرنے بلب روشن اور دروازے کھلے رکھنے کے لیے 60 ارب ڈالر کی فرمائش کی ہے۔ دوسری صورت میں 11 ہزار ملازمین بیروزگار ہو جائیں گے۔
سیاسی رہنما اپنے سر آئی بلا ٹالنے کے لیے ہر پریشانی کی وجہ روس اور یوکرین جنگ کو قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور بیروزگاری سے تنگ آئے عام یورپی بھی اب یوکرینی جنگ اور اس کے نتیجے میں نازل ہونے والی مصیبت سے جھنجھلائے ہوئے لگ رہے ہیں۔ کئی جگہ یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ روس کو نیچا دکھانے کے لیے یورپ کی معیشت کو آگ لگا دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ سوشل میڈیا پر ’یوکرین تنازعے کے بات چیت کے ذریعے پر امن حل‘ کے عنوان سے بحث شروع ہو گئی ہے۔
ہفتے کو چیک ریپبلک (سابق چیکوسلاواکیہ) کے دارالحکومت پراگ میں 70 ہزار افراد نے مہنگائی، گیس کی لوڈ شیڈنگ اور معاشی پریشانیوں کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا۔ جلوس کے شرکا روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے خاتمے اور یوکرین تنازعے کے پرامن حل کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ اسی کے ساتھ وزیر اعظم Peter Fiala سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے حالانکہ نئی حکومت نے گزشتہ برس نومبر کے آخر میں نظم و نسق سنبھالا ہے۔اسی قسم کے مظاہرے اگلے ہفتے پیرس، روم اور جرمنی کے شہروں میں متوقع ہیں۔
تاہم معاملہ یکطرفہ نہیں بلکہ ’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘۔ عین اس وقت جب چیک ریپبلک کے دارالحکومت پراگ میں ہزاروں افراد یوکرین جنگ بند کرکے تنازعے کو بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے، ماسکو میں روسی وزیر خارجہ سرجی لاورو (Sergei Lavrov) نے بھی کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔
روس کے سرکاری ٹیلی ویژن( RIA Novosti -RIAN) روسی رسم الخط (РИАН)پر گفتگو کرتے ہوئے جناب لاروو نے بہت ہی ’نرم‘ لہجے میں کہا ’اگر ہمارے مغربی ہم نشینوں (Colleagues) نے بات چیت کے ایک نئے دور کا اہتمام کیا تو وہ ہمیں مذاکرات کے لیے تیار پائیں گے‘۔ ہم نے نرم اس لیے کہا کہ جنگ کے آغاز کے بعد پہلی بار کسی روسی رہنما نے نیٹو یا یورپ کے لیے مخالف (Adversary) یا دشمن (Enemy) کے بجائے Colleagueکا لفظ استعمال کیا ہے جو دوست، ہم منصب، ساتھی یا ہم نشیں کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
جناب لاورو نے گفتگو کو مشروط کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہاکہ اگر ہماری دو شرائط کو تسلیم کر لیا جائے تو بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے ان دو شرائط کو کچھ اس طرح بیان کیا
1۔ مغرب کو روس کے مفادات اور اس کی سلامتی کا خیال رکھنا ہو گا۔ روس کئی سالوں نے نیٹو کی توسیع پر اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کر رہا ہے۔ کریملن نیٹو کے پھیلاو کو اپنے مفادات اور سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
2۔ روس کو توقع ہے کہ کشیدگی کم کرنے کے لیے مغرب سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کرے گا۔
روسی وزیر خارجہ نے ان دو نکات کی وضاحت نہیں کی لیکن کریملن یوکرین کو نیٹو کا رکنیت نہ دینے پر اصرار جاری رکھے گا۔ اس کے جواب میں روس یوکرین کو تحفظ و عدم مداخلت کی ضمانت دینے کو تیار نظر آرہا ہے۔ تناو کم کرنے کے اقدامات میں روس کے خلاف پابندیوں کا خاتمہ سرِ فہرست ہے۔
اسی دن صدر پوتن کے ترجمان ڈیمتری پیسکوف Dmitry Peskov نے روسی خبر رساں ایجنسی تاس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے گفتگو پہلے امریکہ سے ہونی چاہیے جو اس معاملے میں فیصلہ کن حیثیت (deciding vote) رکھتا ہے۔
روسی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ ’صرف‘ امریکہ سے مذاکرات پر اصرار حملے کو اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے ہے۔ روس دنیا سے یہ بات تسلیم کرانا چاہتا ہے کہ یوکرین کے خلاف اس کی فوجی کارروائی علاقے میں امریکی مداخلت کا رد عمل ہے اور اسے روسی جارحیت قرار دینا قرین از انصاف نہیں ہے۔ روس یوکرین کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اور کریملن نے اپنے دفاع اور انتہائی حساس تزویراتی (strategic) مفادات کے تحفظ کے لیے فوج کشی کی ہے۔ روس اس حملے کو جنگ کے بجائے ’خصوصی عسکری کارروائی‘ قرار دیتا ہے۔
الفاظ، اصطلاح، نیت، ترجیحات اور حکمت عملی سے قطع نظر، دنیا میں امن کے خواہش مندوں کے لیے روس کی جانب سے امن کے یہ موہوم ہی سہی لیکن مثبت اشارے انتہائی حوصلہ افزا ہیں۔ آتش و آہن کی بارش اور توپوں کی گھن گرج میں شاخ زیتون کی ہلکی سی سرسراہٹ ہی میزائیل باری سے دہشت زدہ یوکرینیوں کے لیے نشاط انگیز ہے۔
[email protected]
***

 

***

 ایک ہفتے کے دوران روسی فضائیہ کے دو بمبار طیارے تربیتی پرواز کے دوران رہائشی عمارتوں پر گر کر تباہ ہو گئے۔ بہت سے عسکری تجزیہ نگار ان حادثات کو روسی فوج کی تھکاوٹ اور کم حوصلگی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ شدید بمباری کے باوجود زمین پر روسی فوج کی کارکردگی بہت اچھی نہیں۔ دوسری جانب امریکہ اور نیٹو، یوکرین کے فضائی دفاعی نظام کو بہتر بنانے کے جتن کر رہے ہیں۔ صدر پوتن کے جرنیلوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر یوکرین فضائی اور میزائیل حملوں کو غیر موثر کرنے میں کامیاب ہوگیا تو یہ روس کا دوسرا افغانستان بن جائے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022