جن کے اکاؤنٹس بلاک کیے گئے ہیں ان کی جانب سے ٹویٹر کو قانونی چارہ جوئی کا کوئی حق نہیں، مرکز نے کرناٹک ہائی کورٹ کو بتایا

نئی دہلی، فروری 8: ہندوستان ٹائمز کے مطابق مرکز نے منگل کو کرناٹک ہائی کورٹ کو بتایا کہ ٹویٹر ایک غیر ملکی کاروباری ادارہ ہے اور اسے ان لوگوں کی طرف سے بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے جن کے اکاؤنٹس کو حکومتی احکامات پر بلاک کیا گیا ہے۔

ہائی کورٹ فروری 2021 اور فروری 2022 کے درمیان سوشل پلیٹ فارم پر 39 ٹویٹس اور اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کے مرکزی حکومت کے احکامات کو چیلنج کرنے والی ٹویٹر کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔

ٹوئٹر نے عدالت کو بتایا ہے کہ اگر ان کے اکاؤنٹس بغیر نوٹس کے بلاک کیے جائیں اور اکاؤنٹس پر پابندی کی وجہ نہ بتائی جائے تو دفعہ 19 کے تحت اس کے صارفین کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

درخواست کی برقراری پر سوال اٹھاتے ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آر سنکر نارائن نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اس معاملے میں متاثرہ ادارہ نہیں ہے۔ سنکرنارائن نے یہ بھی استدلال کیا کہ ٹویٹر صرف دفعہ 14 (قانون کے سامنے مساوات) کے تحت حقوق کی خلاف ورزی کا دعوی کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق سنکر نارائن نے کہا ’’ٹویٹر ایک پلیٹ فارم ہے، کوئی بھی اس میں شامل ہوسکتا ہے۔ اکاؤنٹ ہولڈر کوئی کاروبار نہیں کر رہا ہے۔ وہ صرف اظہار کرتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے ہندوستان کے مفادات متاثر ہونے کا امکان ہے… ثالث [ٹویٹر] کو خود کو اکاؤنٹ ہولڈر سے دور رکھنا چاہیے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ ٹویٹر کسی اکاؤنٹ کو بلاک کرنے پر اعتراض نہیں اٹھا سکتا کیوں کہ اس کا آئین کے تحت کوئی قانونی یا بنیادی حق نہیں ہے۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق سنکر نارائن نے کہا ’’درخواست گزار ایک غیر ملکی کمپنی ہونے کے ناطے آئین کی دفعہ 19 (1) [آزادی اظہار] اور دفعہ 21 [زندگی کا حق] کے تحت ضمانت یافتہ بنیادی حقوق کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔ درخواست گزار کمپنی کے پاس اس کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔‘‘

دی انڈین ایکسپریس کے مطابق حکومتی وکیل نے یہ بھی اعادہ کیا کہ بلاک کیے گئے اکاؤنٹس میں ایسا مواد شائع کیا گیا ہے جو ملک میں قومی سلامتی اور امن و امان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

جولائی میں ٹویٹر نے کرناٹک ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور ٹویٹس اور اکاؤنٹس بلاک کرنے کے حکومتی احکامات کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’’اختیارات کے ضرورت سے زیادہ استعمال کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘‘

ٹویٹر نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ فروری 2021 اور فروری 2022 کے درمیان الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے اسے 175 ٹویٹس اور 1,400 سے زیادہ اکاؤنٹس حذف کرنے کے لیے کہا۔