ترک شہریوں کی علم دوستی اور کتابوں سے محبت

استنبول میں آٹھویں بین الاقوامی سی این آر کتاب میلہ کا اہتمام۔شائقینِ کتب کا ہجوم امڈ پڑا

افروز عالم ساحل

اتنی لمبی قطار دیکھ کر ذہن میں یکایک یہ خیال آیا کہ کہیں ہم غلط جگہ تو نہیں آ گئے ہیں۔ لیکن آس پاس کا ماحول دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ مجھے تو یہیں آنا تھا۔ ابھی میں کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ وہاں کھڑے ہوئے گارڈ نے اعلان کیا کہ اسٹوڈنٹس اور ٹیچرس کو ٹکٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے، ان کے لیے داخلہ مفت ہے۔ یہ اعلان سننے کے بعد سکون ہوا کہ چلو قطار میں لگنے سے بچ گیا۔۔

دراصل یہ کہانی استنبول کے آٹھویں بین الاقوامی سی این آر کتاب میلہ کی ہے، جو 26 مارچ کو شروع ہو کر اپریل 2022 کو اختتام پذیر ہوا۔ یہ میلہ استنبول کے اینیکاپی علاقے کے ’ڈاکٹر معمار قادر ٹوپباش پرفارمنس اینڈ آرٹ سنٹر‘ جو ’یوریشیا شو اینڈ آرٹ سنٹر‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، استنبول میٹروپولیٹن میونسپلٹی اور صوبائی ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل ایجوکیشن کے تعاون سے منعقد کیا گیا تھا۔

اس کتاب میلے میں 350 سے زائد اشاعتی اداروں کے اسٹالز تھے اور ان تمام اسٹالوں پر ترک اور کرد زبان کی کتابیں فروخت کی جارہی تھیں۔ اس میلے کی خاص بات یہ بھی تھی کہ یہاں 7 سے 70 سال تک کتابوں سے محبت کرنے والے لوگ موجود تھے۔ بچوں کی کتابوں میں دلچسپی دیکھنے کے لائق تھی۔

ہمارے وطن میں جس عمر کے بچے دن رات موبائل میں مصروف رہتے ہیں، وہیں یہاں کے بچوں کے ہاتھوں میں کتاب دیکھ کر مجھے ایک الگ طرح کا احساس ہو رہا تھا۔ ننھے منے بچوں کے لیے یہاں کتابوں کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ بچوں کے لیے یہاں ایک ’آرٹ کارنر‘ تھا، جہاں چھوٹے چھوٹے معصوم سے بچے اپنی تخلیقیت کو کاغذ پر اتار رہے تھے۔ ان کی پینٹنگ دیکھنے کے لائق تھی۔ ان سے قبل پینٹنگ بنا کر جا چکے بچوں کی پینٹنگس دیواروں پر لگا دی گئی تھیں۔ انہیں دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ اگر بچوں کو موبائل فونوں سے دور رکھا جائے تو ان میں مزید تخلیقی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میں نے اب تک کے اپنے تجربے میں پایا ہے کہ یہاں کے والدین بچوں کو موبائل فونز نہیں دیتے۔ ان کے ہاتھوں میں بچپن سے ہی کتاب، قلم، رنگین پنسل یا کھلونے ہوتے ہیں۔

میں اس کتاب میلے میں ان خیالوں میں گم تھا کہ کیا یہاں کے لوگ نوجوان مصنفوں کی قدر یا عزت کرتے ہوں گے، یا پھر یہاں بھی ہمارے وطن کی ہی طرح کا معاملہ ہو گا۔ تبھی میری نظر ایک لڑکی پر پڑی، جس کی عمر بمشکل ۱۶ یا ۱۷ سال ہو گی۔ وہ اس میلے کی سب سے بڑی سیلیبریٹی معلوم ہو رہی تھی۔ بڑی عمر کے لوگ بھی اس کے ساتھ سیلفی لینے کو بے قرار تھے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ بچی ہے کون اور لوگ اس کے ساتھ تصویر یا آٹوگراف لینے کے لیے بے چین کیوں ہیں۔ میری بھی کوشش تھی کہ اس سے مل کر اس سے بات چیت کی جائے اور اس کے ساتھ ایک تصویر لی جائے لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ بڑھتی ہوئی بھیڑ کی وجہ سے کچھ لوگ اسے سیکیوریٹی حصار میں لے کر باہر نکل گئے۔ میں چاہ کر بھی اس کے لڑکی کے بارے میں جان نہیں سکا۔ لیکن آگے بڑھنے پر یہ اندازہ ضرور ہوا کہ ہو نہ ہو وہ کسی کتاب کی مصنف ہو گی، کیونکہ زیادہ تر اسٹالوں پر مصنف کے آنے کا وقت مقرر تھا، لوگ اس مصنف کی کتاب خرید کر اس سے دستخط اور اس کے ساتھ تصویر لینے کے لیے بے قرار نظر آرہے تھے۔ ایک خبر کے مطابق اس کتاب میلے میں 650 سے زائد مصنفین کے ’دستخطی دن‘ طے گئے تھے۔

اس ہال کے دوسری جانب باہر کی طرف جانے پر لوگوں کی پھر سے قطار نظر آئی۔ اس قطار میں زیادہ تر نوجوان ہی تھے۔ لڑکیوں کی تعداد تھوڑی زیادہ تھی۔ میں یہ سمجھنے کی کوشش میں لگ گیا کہ آخر یہاں کیا ہو رہا ہے۔ آگے پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ قطار مصنفوں سے ان کی کتابوں پر دستخط کرانے کے لیے ہے، جسے قطار میں موجود لوگوں نے اس میلے سے ابھی ابھی خریدی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہاں قریب دس مصنف بیٹھے ہوئے تھے اور ان میں صرف ایک کو چھوڑ کر تمام نوجوان لڑکیاں ہی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہاں لڑکیوں کی تعلیم پر کس قدر دھیان دیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ترکی کے ہر کتاب میلے میں تجربہ کار مصنفین، میلے کے آٹوگراف سیشنز میں مہمان ہوتے ہیں، اس دوران اپنے قارئین کے لیے اپنی کتابوں پر دستخط کرتے ہیں اور اپنے مداحوں سے بات کرنے کا موقع رکھتے ہیں۔

یہاں بتاتا چلوں کہ جب سے میں استنبول میں ہوں، میں تیسرے ’کتاب میلے‘ کے لیے گھوم رہا تھا۔ گزشتہ دنوں استنبول کے ’ساتواں اسکودار کتاب میلہ‘ کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ یہاں بھی ترکی کے نوجوانوں میں کتابوں سے محبت دیکھنے کے لائق تھی۔ نوجوانوں کے اندر کتابوں سے ایسی محبت میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ یہ کتاب میلہ 19 فروری سے شروع ہو کر 27 فروری تک جاری رہا۔ اس میلے میں 120 پبلشنگ ہاؤسز اور 450 ادیبوں نے شرکت کی تھی، تقریباً 550 تقریبات منعقد کی گئیںتھیں، اور ان 9 دنوں میں تقریباً دو لاکھ پچاس ہزار محبان کتب نے اس میلے سے استفادہ کیا تھا۔

میرے لیے پریشانی کی بات یہ تھی کہ یہاں فروخت ہونے والی کتابیں ترکی زبان میں ہی ہوتی ہیں۔ پھر بھی میں تلاش میں تھا کہ شاید اس کے علاوہ کچھ نظر آجائے۔ اسی دوران میری نظر ایک کتاب پر پڑی، جس پر سيد ابو الاعلیٰ مودوديؒ کی تصویر تھی۔ اس کتاب کا نام ’BABAM MEVDUDİ: Meyvesi Bol Gölgesi Geniş Ağaç ‘ یعنی ’میرے والد مودودی: ایک درخت جس میں بہت زیادہ پھل اور سایہ ہے’۔ دراصل یہ کتاب سيد ابو الاعلیٰ مودوديؒ کی بیٹی حمیرہ مودودی کی اردو میں لکھی ہوئی کتاب ’شجرہائے سایہ دار‘ کا ترجمہ ہے۔ اسی اسٹال پر معلوم ہوا کہ مولانا مودوديؒ کی بیشتر کتابوں کا ترکی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے جو یہاں دستیاب ہے۔ میں باقی کتابوں کو بھی دیکھنا چاہتا تھا لیکن اتفاق سے تمام کتابیں پہلے ہی فروخت ہو چکی تھیں۔

لوگ دوسرے ممالک سے استنبول آتے ہیں تو سیاحتی مراکز پر گھومنے کے لیے جاتے ہیں، لیکن میری خوش قسمتی یہ رہی کہ میں ہوٹل میں اپنا سامان رکھنے کے بعد سب سے پہلے ’کتاب میلہ‘ دیکھنے کے لیے گیا تھا۔ دراصل یہاں کے ایک مقامی ساتھی اپنے بچوں کے ساتھ ہوٹل آئے اور انہوں نے مجھے کہیں گھومنے کی دعوت دی۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھے آبنائے باسفورس یا کسی مشہور جگہ لے جائیں گے، لیکن اگلے ہی پل انہوں نے یہ کہہ کر میرے خوابوں کو چکنا چور کر دیا کہ ہم ’کتاب میلہ‘ دیکھنے کے لیے جا رہے ہیں۔ بچوں کو وہ میلہ دکھانا ضروری ہے۔ میں ان کی کتابوں سے محبت کو بخوبی سمجھ گیا چنانچہ طبیعت تھوڑی ناساز ہونے کے باوجود ان کے ساتھ اس کتاب میلہ کو دیکھنے کے لیے نکل پڑا۔

یہ ’چھٹا انٹرنیشنل استنبول عربک بک فیئر‘ تھا، جو 9 سے 17 اکتوبر 2021 کے درمیان استنبول نمائش مرکز میں منعقد ہوا تھا۔ اس کتاب میلہ میں 23 عرب اور غیر ملکی ممالک میں پھیلے 250 سے زیادہ اشاعتی اداروں اور 120 ہزار سے زائد کتابوں سے محبت کرنے والوں نے شرکت کی تھی۔ اس کتاب میلہ کو انٹرنیشنل سوسائٹی آف عرب بک پبلشرز، یونین آف ٹرکش پبلشرز اور ایسوسی ایشن آف ٹرکش پبلشرز نے منعقد کیا تھا۔

اس میلے میں اپنے دوست سے کتابوں پر بہت ساری باتیں ہوئیں۔ اس بات چیت میں پتہ چلا کہ زیادہ تر عربی کتابیں ترکی میں ہی شائع ہوتی ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ یہ بات سال 1901 میں دہلی کے قومی پریس سے شائع ہونے والی اپنی کتاب ’سفر نامہ روم و مصر اور شام‘ میں مولانا شبلی نعمانی لکھ گئے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی نے اس زمانے میں لکھا تھا کہ ’عربی خط کا جو ٹائپ ہے اور جو ایک ترکی عالم ابوالصیام کی ایجاد ہے تمام دنیا میں بے نظیر خیال کیا جاتا ہے۔ عربی کتابیں آج دنیا میں جہاں جہاں چھپتی ہیں ان میں بیروت کی چھپی ہوئی کتابیں سب سے عمدہ تسلیم کی جاتی ہیں، لیکن خود بیروت والوں نے مجھ سے بیان کیا کہ اصل یہ ٹائپ ترکوں کی ایجاد ہے اور ہم ان کے مقلد ہیں۔ چونکہ قسطنطنیہ میں عموماً ترکی کتابیں چھپتی ہیں اور ان ملکوں میں نہیں آتیں، اس لیے عام طور پر بیروت ہی کی شہرت ہو گئی ہے۔ مرفعہ الحالی یا عام قدردانی کا اثر ہے کہ قسطنطیہ میں جس قدر کتابیں چھپتی ہیں نہایت عمدہ اور قیمتی کاغذ پر چھپتی ہیں۔ بخلاف مصر اور ہندوستان کے جہاں جوتے صاف کرنے کا کاغذ کتابوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔‘

میرے دوست کا کہنا تھا کہ آج کے ’موبائل زمانے‘ میں اپنے بچوں میں ابتدائی عمر سے ہی کتابوں سے محبت پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے گھر میں والدین کا پڑھنا بھی نہایت ضروری ہے، کیونکہ ریسرچ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن گھروں میں والدین زیادہ پڑھتے ہیں، ان کے بچے بھی کتابوں کے شوقین ہوتے ہیں اور مستقبل میں اعلیٰ تعلیمی نتائج حاصل کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جو ملک یا قوم کتاب سے جتنی قریب ہوتی ہے وہ اتنی ہی تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتی ہے۔ اس بات کو ترک قوم نے بخوبی سمجھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کے لوگوں میں کتاب سے لگن اور محبت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ استنبول میں مجھے ہر روز بسوں، میٹروز، ٹرینوں اور جہازوں میں لوگ کتابیں پڑھتے نظر آتے ہیں۔ دراصل مطالعے کا ذوق ترکی کے لوگوں کی زندگی کا اہم حصہ ہے۔

ترکی میں تقریباً ہر ہفتہ کہیں نہ کہیں کتاب میلہ لگتا ہے۔ سب سے اہم کتاب میلہ ’انٹرنیشنل استنبول بک فیئر‘ ہے، جو اس بار 3-11 دسمبر تک منعقد کیا جائے گا۔ یہ استنبول میں گزشتہ 38 سالوں سے منعقد ہو رہا ہے۔ اس میلے میں دنیا بھر کے پبلیکیشنز کی کتابیں دستیاب ہوتی ہے۔

یہاں رمضان کا مہینہ بھی کتابوں کے فروخت کے لیے مبارک مہینہ ہوتا ہے۔ ان دنوں ترکی میں یہاں کی دو بڑی مسجدوں کے کیمپس میں کتاب میلہ لگا ہوا ہے۔ وہیں آن لائن کتابوں کی سب سے مشہور دکان kitapyurdu.com پر ’آن لائن رمضان بک فیئر‘ چل رہا ہے، جہاں ترکی کے سینکڑوں پبلشرز کی اسلامی کتابیں خرید سکتے ہیں۔ حالانکہ یہاں تمام کتابیں ترکی زبان میں ہی ہیں۔

بتادیں کہ ’ 39 ویں ترکی کتاب و ثقافت میلہ‘ ہے، جو استنبول کی چامیلیچا مسجد اور سلطان فاتح مسجد کی کمیپس میں 8-27 اپریل کے درمیان کتاب سے محبت کرنے والوں کی میزبانی کرے گا۔ اس میلے کا افتتاح صدر ایردوان نے کیا۔ اس موقع سے ایردوان نے کہا کہ "گزشتہ 20 سالوں میں ہمارے ملک نے جمہوریت اور ترقی کی جو عظیم منازل طے کی ہیں اس کی ایک بنیادی وجہ قومی سطح پر لکھنے پڑھنے کا فروغ ہے”  ساتھ ہی افتتاحی تقریب کی اپنے خطاب میں صدر ایردوان نے یہ خواہش ظاہر کی کہ یہ میلہ ملک، قوم، ثقافت اور فن کی زندگی کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا۔

ترکی کے تعلق رکھنے والے میرے ایک دوست بتاتے ہیں کہ ترکی میں لوگ رمضان میں قرآن کے ساتھ ساتھ مذہبی کتابیں خوب پڑھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوویڈ کی وجہ سے دنیا بھر میں کتابوں کی اشاعت میں کمی آئی، ترکی میں شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ترکی کے ثقافت و سیاحت کے وزیر محمد نوری ایرسوئے نے گزشتہ 11 مارچ 2022 کو استنبول انٹرنیشنل پبلشنگ ویک ایوارڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ سال 2021 کے آخر تک ترکی کے اشاعتی صنعت کی طرف سے تیار کردہ کتابوں کے عنوانات کی تعداد بڑھ کر 87,231 اور کتابوں کی تعداد 438.7 ملین ہو گئی ہے۔

وہیں ٹرکش پبلشرز ایسوسی ایشن کے مطابق سال 2020 میں 78,500 نئے ٹائٹلس شائع ہوئے، جبکہ سال 2019 میں یہ اعداد وشمار 68,554 تھے۔ اگر تعداد اشاعت کی بات کی جائے تو سال 2020 میں 43 کروڑ 32 لاکھ 53 ہزار 632 کتابیں شائع ہوئیں۔ سال 2019 میں یہ اعداد وشمار 423,602,828 تھے۔ جب آبادی کی بنیاد پر کتابوں کی پبلشنگ کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ترکی میں فی آدمی کتابوں کی تعداد 7.3 ہے۔ سال 2019 میں یہ اوسط 6.9 شمار کیا گیا تھا۔ وزارت ثقافت وسیاحت کے اعداد وشمار کے مطابق اب ترکی میں اوسطاً 7.6 کتابیں فی آدمی تیار کی جاتی ہیں۔ غور طلب ہے کہ ترک شماریاتی ادارے کے ایڈریس بیسڈ پاپولیشن رجسٹریشن سسٹم 2020 کے نتائج کے مطابق، ترکی کی آبادی 83,614,362 ہے۔

وزارت ثقافت وسیاحت کے وزیر محمد نوری ایرسوئے کا کہنا ہے کہ موجودہ بین الاقوامی اعداد وشمار کے مطابق ترکی انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ بک نمبر کے تفویض کردہ عنوانات کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے اور خوردہ مارکیٹ کے سائز کے لحاظ سے 10ویں نمبر پر ہے۔

ترکی کے واقف کاروں کے ماننا ہے کہ بلاشبہ 2022 ترکی میں کتابوں کی اشاعت کے لیے بہت مشکل سال ہو گا، کیونکہ ڈالر کے مقابلے لیرا میں جو گراوٹ آئی ہے اس کے اشاعتی صنعت پر پڑنے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ حالانکہ اسٹیٹسٹا ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ میں ترکی میں ’’اشاعت کتب‘‘ کی صنعت کی 2011 سے 2018 تک کی آمدنی کو دیکھتے ہوئے یہ پیشن گوئی کی گئی کہ ترکی میں اشاعت کتب کی آمدنی 2023 تک تقریباً 7316 ملین امریکی ڈالر ہو گی۔

حکومت کے موجودہ اقدام کو دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس جانب مزید توجہ دینے والی ہے۔ گزشتہ 7-11 مارچ کو استنبول میں ترکی حکومت کی جانب سے "استنبول انٹرنیشنل پبلشنگ ویک” کا انعقاد عمل میں لایا گیا، جس میں کل 555 پبلشرز نے حصہ لیا۔ ان میں 72 ممالک سے 332 دنیا کے معروف بین الاقوامی پبلشرز شامل تھے۔ اس پروگرام سے قبل ثقافت اور سیاحت کے نائب وزیر احمد مصباح ڈیمرکن نے استنبول اٹلس سنیما میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا بنیادی وژن استنبول کو ایک ایسا شہر بنانا ہے جہاں آنے والے سالوں میں بین الاقوامی اشاعتی اداروں کے مستقبل کی حکمت عملی تشکیل دی جائے۔‘

درحقیقت انسان یا کسی قوم نے جب بھی کتاب وعلم کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کیا، اسے آگے بڑھنے میں کامیابیاں ملی ہیں اور جس قوم نے کتاب سے ناطہ توڑا، وہ تیزی کے ساتھ تنزلی کی گھاٹیوں میں گرتی چلی گئی۔ ترک قوم نے اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا ہے، کاش کہ ہم بھارتی مسلمان بھی اس حقیقت کو سمجھ لیتے۔

***

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  17 تا 23 اپریل  2022