تذکیر

عظیم کامیابی کا قرآنی تصور

محمد حسن الزماں

اصل کامیابی کا راستہ دکھانے والی آیات پر ایک نظر
انسان کامیابی کی شدید خواہش کے ساتھ ساتھ بڑی کامیابی کی تمنا کرتا ہے۔ 2022ء عالمی فٹبال کپ ٹورنامنٹس کا قطر میں انعقاد ہوا تھا جس میں دنیا بھر کے بتیس ممالک کی ٹیموں نے حصہ لیا تھا۔ چونسٹھ میچس کھیلے گئے تھے۔ ہر ایک ٹیم نے جان توڑ کوشش کی تاکہ اسے بڑی کامیابی ملے اور وہ عالمی چیمپئن کہلائے۔ اسی طرح 2023ء میں آئی پی ایل کرکٹ کے میچس کھیلے گئے۔ اس میں بھی مقام اول حاصل کرنے کے لیے سبھی ٹیموں نے سر توڑ کوششیں کیں۔ لاکھوں شائقین نے دیکھا بے شمار دولت خرچ کی گئی، شہروں کو روشنیوں میں نہلا دیا گیا۔ بڑے بڑے ٹیلیویژن نصب کیے گئے تاکہ تمام دنیا کے لوگ بآسانی ان مقابلوں کا مشاہدہ کر سکیں۔ حالانکہ ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ انسانی زندگی عارضی ہے فانی ہے۔ اس کے باوجود وہ چند لمحوں کی خوشی و مسرت کی خاطر یہ سب کچھ کرتا ہے۔ انسانوں کا خالق اور مالک جو کہ اس پوری کائنات کا رب ہے، انسان کی سب سے بڑی اور عظیم الشان کامیابی کا جو تصور پیش کرتا ہے وہ یہ ہے:
فَوْزُ الْعَظیم:
(1) تِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ‌ ؕ وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ يُدۡخِلۡهُ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ ؕ وَذٰلِكَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ (النسا‏ء:13) ترجمہ: یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
اسی سورۃ کے آغاز میں تقوی، یتیموں کے مال کی حفاظت اور صحیح طریقہ پر ادائیگی، ایک سے زائد شادیوں کی اجازت عدل کی بنیاد پر، مہر، وراثت اور جائیداد کی تقسیم اور غلط وصیت کے انجام جیسے امور کا ذکر کیا گیا ہے جو مسلم پرسنل لا میں آتے ہیں جس کی حفاظت کے لیے تمام جماعتیں کوشاں ہیں۔ یہ مسلم پرسنل لا کسی حاکم، کسی بادشاہ یا کسی مفتی اعظم کا دیا ہوا نہیں ہے بلکہ اللہ رب العزت کا دیا ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا کہ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں۔ یہی وجہ کہ دنیا کے کسی بھی خطہ کا مسلمان اس میں تبدیلی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کو صرف باقی رکھنا ہی نہیں ہے بلکہ اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اسی کی وجہ سے ایک مسلمانوں کو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بڑی کامیابی حاصل ہوگی جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی آگے فرماتا ہے کہ جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
(2) قَالَ اللّٰهُ هٰذَا يَوۡمُ يَـنۡفَعُ الصّٰدِقِيۡنَ صِدۡقُهُمۡ‌ؕ لَهُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا‌ ؕ رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ‌ ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ (المائدہ:119) ترجمہ: تب اللہ فرمائے گا "یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، یہی بڑی کامیابی ہے”۔
(3) وَعَدَ اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِىۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ‌ ؕ وَرِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكۡبَرُ‌ ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ (التوبہ:72)
ترجمہ: ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
اس سے پہلے کی آیت میں فرمایا گیا کہ مومن مردوں اور عورتوں میں جو خصوصیات مشترک ہیں وہ یہ کہ نیکی سے دلچسپی رکھتے ہیں بدی سے نفرت کرتے ہیں، خدا کی یاد ان کے لیے غذا کی طرح ہے، راہ خدا میں خرچ کرنے کے لیے ان کے دل اور ہاتھ کھلے ہوئے ہیں اور خدا اور رسول کی اطاعت ان کی زندگی کا وطیرہ ہے۔ انہی مومن مردوں اور عورتوں سے بڑی کامیابی کا وعدہ ہے۔
(4) لٰـكِنِ الرَّسُوۡلُ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ جَاهَدُوۡا بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ‌ؕ وَاُولٰۤئِكَ لَهُمُ الۡخَيۡـرٰتُ‌ وَاُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ۞ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞ (التوبہ:88-89) ترجمہ: بخلاف اس کے رسول نے اور ان لوگوں نے جو رسول کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی جان و مال سے جہاد کیا اور اب ساری بھلائیاں انہی کے لیے ہیں اور وہی فلاح پانے والےہیں۔ اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ ہے عظیم الشان کامیابی۔
منافقین کے برعکس مومنین کا رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ اپنی جانوں کی پرواہ ہے نہ مالوں کی، ان کے نزدیک اللہ کا حکم سب پر بالا تر ہے، انہی کے لیے آخرت کی بھلائیاں اور جنت کی نعمتیں ہیں اور یہی لوگ فلاح یاب اور فوز عظیم کے حامل ہوں گے۔
(5) وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ وَاَعَدَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ تَحۡتَهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا‌ ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ (التوبہ:100) ترجمہ: وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسلامی معاشرہ کا اصل سرمایہ کون لوگ ہیں۔ اس کا مقصد ایک طرف تو عام مسلمانوں کے سامنے ان لوگوں کو پیش کردینا ہے جن کے عمل ان کے لیے مثال اور نمونہ ہیں اور جن کی انہیں پیروی اور تقلید کرنی ہے۔ فرمایا کہ مہاجرین و انصار امت مسلمہ کے سابقون الاولون ہیں جنہوں نے سب سے پہلے نبی کی دعوت پر لبیک کہا، جو اس وقت اسلام کی طرف بڑھے جب کہ ایک قدم بھی اس کی طرف بڑھنا طرح طرح کی مشکلات کا مقابلہ کیے بغیر ممکن نہیں تھا۔
(6) اِنَّ اللّٰهَ اشۡتَرٰى مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ وَاَمۡوَالَهُمۡ بِاَنَّ لَهُمُ الۡجَــنَّةَ‌ ؕ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَيَقۡتُلُوۡنَ وَ يُقۡتَلُوۡنَ‌وَعۡدًا عَلَيۡهِ حَقًّا فِى التَّوۡرٰٮةِ وَالۡاِنۡجِيۡلِ وَالۡقُرۡاٰنِ‌ ؕ وَمَنۡ اَوۡفٰى بِعَهۡدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسۡتَـبۡشِرُوۡا بِبَيۡعِكُمُ الَّذِىۡ بَايَعۡتُمۡ بِهٖ‌ ؕ وَذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ (التوبہ:111) ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے اُن کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے جنّت کا وعدہ اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے۔ تورات اور انجیل اور قرآن میں بھی۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناو اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
یہاں ایمان کے اس معاملہ کو جو خدا اور بندے کے درمیان طے ہوتا ہے اسے بیع یعنی فروخت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایمان صرف ایک عقیدہ ہی نہیں ہے بلکہ حقیقت میں ایک معاہدہ ہے جس کی بنیاد پر بندہ اپنی جان اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کر دیتا ہے اور اس کے بدلہ میں خدا کی طرف سے اس وعدے کو قبول کر لیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا۔
(7) اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ ۞ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَكَانُوۡا يَتَّقُوۡنَؕ ۞ لَهُمُ الۡبُشۡرٰى فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَفِى الۡاٰخِرَةِ‌ؕ لَا تَبۡدِيۡلَ لِـكَلِمٰتِ اللّٰهِ‌ؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُؕ ۞ (یونس:62-64) ترجمہ: سن رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں جگہ ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالی اپنے فرماں برداروں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ایمان و تقوی ہی اللہ کے قرب کی بنیاد اور سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ دنیا میں جو مطلوبہ چیزیں انہیں حاصل نہیں ہوسکیں ان پر انہیں کوئی حزن و ملال نہیں ہوگا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی قضاو تقدیر ہے اور وہ آخرت کی بڑی کامیابی کے تعلق سے اللہ کی بشارت پر راضی برضا ہوتے ہیں۔
(8) اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞ لِمِثۡلِ هٰذَا فَلۡيَعۡمَلِ الۡعٰمِلُوۡنَ ۞ (الصافات:60-61) ترجمہ: یقیناً یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔
اصل کامیابی اللہ کے ان بندوں کو حاصل ہوگی جو آخرت کو پیش نظر رکھ کر دنیا میں زندگی گزاریں گے۔ جو لوگ رات دن دنیا حاصل کرنے میں سرگرم رہتے ہیں اگر انہوں نے کو‏ئی کامیابی حاصل کر بھی لی تو یہ چند دنوں کے لیے ہوگی بالآخر ایک دن مرنا تو ہے اور جزاء و سزا کے لیے خدا کے حضور پیش ہونا ہے۔
(9) وَقِهِمُ السَّيِّاٰتِ ؕ وَمَنۡ تَقِ السَّيِّاٰتِ يَوۡمَئِذٍ فَقَدۡ رَحِمۡتَهٗ ؕ وَذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ (المؤمن:9) ترجمہ: اور بچا دے ان کو برائیوں سے، جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اس پر تو نے بڑا رحم کیا، یہی بڑی کامیابی ہے۔
آخرت کے عذاب سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہو جانا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے، اس لیے کہ اس جیسی کوئی کامیابی نہیں اور اس کے برابر کوئی نجات نہیں۔
(10) لَا يَذُوۡقُوۡنَ فِيۡهَا الۡمَوۡتَ اِلَّا الۡمَوۡتَةَ الۡاُوۡلٰى‌ ۚ وَوَقٰٮهُمۡ عَذَابَ الۡجَحِيۡمِۙ ۞ فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّكَ ‌ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞ (الدخان:56-57)
ترجمہ: موت کا مزہ وہ کبھی نہ چکھیں گے، بس دنیا میں جو موت آ چکی سو آ چکی اور اللہ اپنے فضل سے ان کو جہنم کے عذاب سے بچا دے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
جہنم سے بچنے اور جنت میں پہنچنے کو اللہ تعالی اپنے فضل کا نتیجہ قرار دے رہا ہے۔ اس سے انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا مقصود ہے کہ یہ کامیابی کسی شخص کو اس وقت تک نصیب نہیں ہوسکتی جب تک اللہ کا فضل اس کے شامل حال نہ ہو۔
(11) يَوۡمَ تَرَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ يَسۡعٰى نُوۡرُهُمۡ بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَبِاَيۡمَانِهِمۡ بُشۡرٰٮكُمُ الۡيَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ‌ۚ‏ (الحدید:12) ترجمہ: اس دن جبکہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا (اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ) آج بشارت ہے، تمہارے لیے جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہی ہے بڑی کامیابی۔
سچے مومن کے ایمان کی صداقت اور سیرت و کردار کی پاکیزگی حشر کے میدان میں نور میں تبدیل ہو جائےگی جس سے نیک بندوں کی شخصیت جگمگا اٹھے گی۔
(12) يَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡ وَيُدۡخِلۡكُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِىۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ‌ؕ ذٰلِكَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُۙ (الصف:12) ترجمہ: اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا یہ ہے بڑی کامیابی۔
اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور اللہ کی راہ میں جان اور مال سے جہاد کرنا یہ اس تجارت کے اصل فائدے ہیں جو آخرت کی ابدی زندگی میں حاصل ہوں گے۔ ایک خدا کے عذاب سے حفاظت دوسرے اور گناہوں کی معافی اور تیسرے، خدا کی اس جنت میں داخل ہونا جس کی نعمتیں لازوال ہیں۔
(13) يَوۡمَ يَجۡمَعُكُمۡ لِيَوۡمِ الۡجَمۡعِ‌ ذٰ لِكَ يَوۡمُ التَّغَابُنِ‌ ؕ وَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ وَيَعۡمَلۡ صَالِحًـا يُّكَفِّرۡ عَنۡهُ سَيِّاٰتِهٖ وَيُدۡخِلۡهُ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا‌ ؕ ذٰ لِكَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیْمُ (التغابن:9) ترجمہ: (اس کا پتا تمہیں اس روز چل جائے گا) جب اجتماع کے دن وہ تم سب کو اکٹھا کرے گا، وہ دن ہو گا ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا۔ جو اللہ پر ایمان لایا ہے اور نیک عمل کرتا ہے اللہ اس کے گناہ جھاڑ دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔
اجتماع کے دن سے مراد قیامت کا دن ہے اور سب کو اکٹھا کرنے سے مراد ہے تمام انسانوں کو بیک وقت اٹھا کر جمع کرنا ہے، جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک دنیا میں پیدا ہوئے ہیں۔ اللہ پر ایمان لانے سے مراد صرف یہ مان لینا نہیں ہے کہ اللہ موجود ہے بلکہ اس طریقہ سے ایمان لانا مراد ہے جس طرح اللہ نے خور اپنے رسول اور اپنی کتاب کے ذریعہ سے بتایا ہے۔
فَوْزاًعَظِيمًا
(1) وَلَئِنۡ اَصَابَكُمۡ فَضۡلٌ مِّنَ اللّٰهِ لَيَـقُوۡلَنَّ كَاَنۡ لَّمۡ تَكُنۡۢ بَيۡنَكُمۡ وَبَيۡنَهٗ مَوَدَّةٌ يّٰلَيۡتَنِىۡ كُنۡتُ مَعَهُمۡ فَاَ فُوۡزَ فَوۡزًا عَظِيۡمًا‏ (النسا‏ء:73) ترجمہ: اور اگر اللہ کی طرف سے تم پر فضل ہو تو کہتا ہے اور اس طرح کہتا ہے کہ گویا تمہارے اور اس کے درمیان محبت کا تو کوئی تعلق تھا ہی نہیں کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑا کام بن جاتا۔
یہاں منافقوں کے کردار کا تذکرہ ہے۔ اگر مسلمانوں کو فتح نصیب ہوجاتی اور مال غنیمت ہاتھ لگ جاتا تو حسرت سے کہتے کہ اگر ہم بھی ان میں شامل ہوتے تو ہمارا بھی کام بن جاتا۔
(2) يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِيۡدًا ۞ يُّصۡلِحۡ لَـكُمۡ اَعۡمَالَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡؕ وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِيۡمًا (الاحزاب:70-71) ترجمہ: اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزرفرمائے گا، جس شخص نے بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی دراصل اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔
اللہ سے ڈرنے اور سیدھی صاف بات کہنے کے دو فائدے بیان کیے گئے ہیں۔

ایک یہ کہ اللہ تعالی اعمال درست کردے گا اور دوسرا یہ کہ گناہوں پر پردہ ڈال دے گا، کیوں کہ اصل کامیابی جنت کا حصول اور جہنم سے نجات ہے جو صرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے حاصل ہوسکتی ہیں۔
(3) لِّيُدۡخِلَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا وَيُكَفِّرَ عَنۡهُمۡ سَيِّاٰتِهِمۡ‌ؕ وَكَانَ ذٰ لِكَ عِنۡدَ اللّٰهِ فَوۡزًا عَظِيۡمًا (الفتح:5) ترجمہ: (اس نے یہ کام اِس لیے کیا ہے) تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور ان کی برائیاں ان سے دور کر دے۔ اللہ کے نزدیک یہی بڑی کامیابی ہے۔
یعنی بشری کمزوریوں کی بنا پر جو کچھ بھی قصور مومن مردوں اور عورتوں سے سرزد ہوگئے ہوں اللہ انہیں معاف کردے گا، جنت میں داخل کرنے سے پہلے ان کے قصوروں کے ہر اثر سے ان کو پاک کردے گا اور جنت میں وہ اس طرح داخل ہوں گے کہ کوئی داغ ان کے دامن پر نہیں ہوگا جس کی وجہ سے وہ وہاں شرمندہ ہوں۔
فَوْزُالْمُبِينْ
(1) مَنۡ يُّصۡرَفۡ عَنۡهُ يَوۡمَئِذٍ فَقَدۡ رَحِمَهٗ‌ؕ وَ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡمُبِيۡنُ (الانعام:16) ترجمہ: اس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا ہی رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے۔
دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابیاں بھی اس دن کی کامیابی کے سامنے ہیچ ہیں۔ اس کامیابی کے سامنے دنیاوی دولت، وجاہت، عزت، شہرت، اقتدار وغیرہ ساری چیزیں عارضی اور فانی ہیں۔ اصل نمایاں کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے۔
(2) فَاَمَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُدۡخِلُهُمۡ رَبُّهُمۡ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ‌ ؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡمُبِيۡنُ (الجاثیۃ:30) ترجمہ: پھر جو لوگ ایمان لائے تھے اور نیک عمل کرتے رہے تھے انہیں ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا اور یہی صریح کامیابی ہے۔
جن لوگوں نے ایمان اور عمل صالح کی زندگی گزاری ہوگی ان کو ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ اس کے بعد فرمایا کہ کھلی ہوئی کامیابی یہ ہے جو یہ لوگ حاصل کریں گے نہ کہ اس دنیا کا وہ چند روزہ عیش جس کے عشق میں پھنس کر نادانوں نے یہ ابدی کامیابی گنوادی۔
فَوْزُالْکَبِيرْ
(1) اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ ؕ ذٰلِكَ الۡفَوۡزُ الۡكَبِيۡرُؕ (البروج:11) ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے، یقیناً ان کے لیے جنت کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ ہے بڑی کامیابی۔
حقیقت یہ ہے کہ ایمان والوں کو آزمائشوں اور مصیبتوں میں ثابت قدم رکھنے والی چیز اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں جنت میں داخل کرے گا۔ اور اس کا حصول ہی ایک مومن کی سب سے بڑی، سب سے عظیم اور واضح کامیابی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اگست تا 12 اگست 2023