تعصبات میں ڈوبا اور حقائق سے آنکھیں چراتا بھارتی میڈیا

مخصوص طبقات کی اجارہ داری۔’آکسفیم انڈیا‘ اور ’نیو زلائونڈری‘کی مشترکہ رپورٹ

نور اللہ جاوید، کولکاتا

میں گزشتہ دو دنوں یعنی 28 اور 29 اکتوبر سے ہمالیہ کے دامن میں اتر اکھنڈ کے دارالحکومت دہرادون میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے اشتراک سے یونیسیف کے زیر اہتمام منعقد دو روزہ ورکشاپ بعنوان’’ (Critical Appraisl Skills Evidence Bases Health Journalism Workshop) میں شریک ہوں۔ اس دو روزہ ورکشاپ میں کورونا وائرس کے بعد صحت کے شعبے میں رپورٹنگ کے چیلنجز اور ذمہ داریوں کے موضوع پر ملک کے نامور صحافیوں، یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور صحت کے شعبے کے ماہرین نے مختلف عناوین سے خطاب کرتے ہوئے احساس دلایا کہ پوسٹ کورونا وائرس دور میں وائرس سے کہیں زیادہ غلط معلومات اور فیک نیوز سے نمٹنا بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ سنسی خیزی، سماج کے پسماندہ طبقات کی نمائندگی میں عدم توازن، سماجی، معاشی اور معاشرتی صورت حال کی معروضیت کے ساتھ رپورٹنگ کے فقدان، پروپیگنڈے اور افواہوں کی جانچ اور حقائق کو پیش کرنے میں کوتاہی کا نقصان کورونا سے قبل بھی تھا اور آج اس میں دو چند اضافہ ہو گیا ہے۔
جمہوریت میں میڈیا کا کردار واچ ڈاگ کا ہوتا ہے۔ حکومت کو جواب دہ بنانے اور عوام کو باخبر کرنے میں میڈیا کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ کورونا وبا نے نہ صرف صحت کے شعبے میں چیلنجز پیدا کیے ہیں بلکہ سماجی، معاشی اور معاشرتی پیچیدگیوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اس کے اثرات سے ہر ایک شعبہ زندگی متاثر ہوا ہے۔ ایسے میں سوال ہے کہ کیا جمہوریت کا چوتھا ستون یعنی میڈیا اور صحافی اپنی ذمہ داریاں ایمان داری سے ادا کر رہے ہیں؟ مس انفارمیشن اور پروپیگنڈوں کا مقابلہ کرکے اصل حقائق کو پیش کرنے کی میڈیا کے پاس صلاحیت ہے بھی یا نہیں؟ ایک زمانے میں بھارت میں صحافت کو مقدس پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ صحافیوں کو محب وطن اور قوم کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی ماحول میں قابل اعتماد تسلیم کیا جاتا تھا لیکن حالیہ برسوں میں ٹی آر پی میں اضافے اور پیڈ نیوز کے رواج نے میڈیا کی اعتبار اور اعتماد کو زبردست نقصان پہنچایا ہے جس کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑے جمہوری ملک میں جمہوری روایات اور اقدار خطرات میں پڑ گئے ہیں۔ یہ خطرہ اس لیے بھی بڑھ گیا ہے کہ میڈیا پر ’’کرونی کیپٹل ازم ‘‘حاوی ہو چکا ہے۔ ’کرونی کیپٹل ازم‘ نے صحافیانہ پیشے اور اخلاقیات دونوں کو تباہ وبرباد کر دیا ہے۔ کارپوریٹ گھرانوں، حکومت، سیاسی جماعتوں یا بڑی تنظیموں سے مختلف شکلوں میں مالی مدد اور دیگر ذرائع سے وسائل حاصل کر کے ان کی من پسند خبریں دکھانا ہندوستانی صحافت میں ایک عام رواج بنتا جا رہا ہے، جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور جمہوریت شکست کھاتی جا رہی ہے۔
بھارت جمہوریت کے چوتھے ستون یعنی صحافت کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ یہاں 82,237 سے زیادہ رجسٹرڈ اخبارات ہیں جو ملک کے مختلف علاقوں اور مختلف زبانوں میں شائع ہوتے ہیں اور تقریباً 700 ٹیلی ویژن نیوز چینلس ہیں جو پورے ملک میں چل رہے ہیں اور یہ تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں نیوز ویب سائٹس ہیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یعنی فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب اور واٹس ایپ سے بھی خبروں کی اشاعت ہوتی ہے۔اتنے بڑے پیمانے پر ذرائع ابلاغ کی رسائی کے باوجود آج بھارت کے میڈیا پر سوال کھڑے ہو رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ میڈیا عوام کو باخبر کرنے اور سائنٹفکٹ ماحول کو سازگار بنانے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ دیہی علاقے اور پسماندہ افراد کے مسائل میڈیا کی خبروں سے غائب ہیں۔ شائننگ انڈیا کے نعروں کے باوجود ذات، نسل اور صنف کی بنیاد پر تفریق۔ تعصب اور نفرت کے واقعات میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ مس انفارمیشن اور پروپیگنڈے کا پردہ چاک کرنے کی ذمہ داری میڈیا کی تھی مگر آج میڈیا ہی حقائق کو توڑ مروڑ کر غلط معلومات اور غلط پروپیگنڈا کر رہا ہے اس کی وجہ سے ملک تقسیم کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کا دائرہ کار وسیع ہو رہا ہے، دیہی علاقوں تک اس کی پہنچ ہو چکی ہے۔ اینڈرائیڈ اور سوشل میڈیا نے انقلاب برپا کر دیا ہے۔ روایتی میڈیا کے ساتھ ساتھ غیر روایتی میڈیا بھی تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ اطلاعات اور معلومات کی فراوانی نے نئے چیلنجز پیدا کر دیے ہیں اور اسی سرعت کے ساتھ میڈیا معروضیت سے محروم بھی ہورہا ہے اور اس کی معنویت ختم ہوتی جارہی ہے۔ اس سے متعلق یہ تاثر قائم ہونے لگا ہے کہ یہ چند مخصوص افراد اور طبقات کے مفادات کا محافظ بن گیا ہے۔ فرقہ واریت، دہشت گردی، عوامی ایشوز اور دیگر مسائل پر میڈیا کے کوریج اور اس کے طریقے کار کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ میڈیا کے تئیں عوام میں جو جذبات واحساسات پیدا ہو رہے ہیں اس کی ٹھوس وجہ بھی ہے۔ تاہم ہمیں اس کا بھی تجزیہ کرنا چاہیے کہ میڈیا سے مہنگائی، بے روزگاری، خواتین اور عام لوگوں کے مسائل جو غائب ہو رہے ہیں ان کی وجوہات کیا ہیں؟ پسماندہ، دلت، قبائلی اور اقلیتیں میڈیا کے لیے کوئی معنی کیوں نہیں رکھتیں؟ مساوات، انصاف، برابری کے مواقع، بڑے پیمانے پر روزگار کے لیے دیہی علاقے کے باشندوں کی شہری علاقوں کی طرف ہجرت، ان کے بنیادی حقوق، خواندگی، صحت کی خدمات تک رسائی اور دیگر فلاحی اور انہیں بااختیار بنانے کے پروگراموں جیسے اہم موضوعات کو میڈیا کیوں قابل اعتناء نہیں سمجھتا؟ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ میڈیا اشتہارات کے بل پر چلتے ہیں اور اشتہار دہندگان کے مفادات کا تحفظ کیے بغیر اشتہارات کا حصول نا ممکن ہے۔ میڈیا کی بے راہ روی کے پیچھے کوئی ایک عامل نہیں ہے بلکہ کئی عوامل ہیں اور سبھی عوامل کافی اہم ہیں اور اس کا تجزیہ کیے بغیر میڈیا کے ذریعہ پیدا کیے جانے والے چیلنجوں کا ہم نہ سامنا کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا تدارک۔ میڈیا کے ماہرین بتاتے ہیں کہ میڈیا سے سماجی مسائل جیسے ایشوز غائب رہنے کی ایک اہم وجہ میڈیا ہاوسز میں سماجی، معاشرتی نمائندگی میں عدم توازن ہے۔ ملک کے دیگر شعبوں کی طرح میڈیا ہاوسز اعلیٰ ذاتوں کے زیر تسلط ہیں۔ نیوز لانڈری کے ذریعہ کیے گئے ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ میڈیا پر اعلیٰ ذاتوں کا غلبہ ہے، اعلیٰ عہدوں پر دلت نہیں کے برابر ہیں۔ آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی بھارتی میڈیا میں تنوع کا فقدان ہے۔ تنوع اور توازن کے بغیر کسی بھی ادارے کو جامع قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ نیوز لانڈری کی رپورٹ کے مطابق ہندی نیوز ٹیلی ویژن میں سو فیصد، انگریزی ٹیلی ویژن کی خبروں میں 89.3 فیصد تھی۔ انگریزی اخبارات میں 91.7 فیصد، ہندی اخبارات میں 87.5 فیصد ڈیجیٹل میڈیا میں 84.2 فیصد اور نیوز میگزین میں 72.7 فیصد اعلیٰ ذاتوں کا غلبہ ہے۔ یہاں تک کہ اینکرز، پینلسٹ اور مصنفین بھی زیادہ تر اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ جس ادارے میں مخصوص طبقات کی اجارہ داری ہو وہاں ہم صنفی انصاف اور مساوات کے بارے میں کیا توقع کر سکتے ہیں؟ جب نیوز رومز غیر متوازن ہوں گے تو خبروں میں بھی مناسب نمائندگی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہ واضح نہیں ہے کہ میڈیا میں سماجی نمائندگی میں عدم توازن شعوری ہے یا غیر شعوری ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھارتی معاشرے میں انسانی نیٹ ورک زیادہ تر ذات کے فارمولے کے تحت کام کرتے ہیں کیوں کہ آج بھی معاشرے میں منفی و دقیانوسی اور برتری و کمتری کے تصورات موجود ہیں۔ جہاں برہمن اور دیگر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو ہمیشہ ترقی، قانون اور ثقافت کی علامت سمجھا جاتا ہے جبکہ پسماندہ طبقات، دلت اور اقلیتوں کو تشدد، تنازعات اور مشکلات کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔
’آکسفیم انڈیا‘ اور نیوز ویب سائٹ ’نیوز لانڈری‘کی مشترکہ رپورٹ
این جی او آکسفیم انڈیا اور نیوز ویب سائٹ نیوز لانڈری نے اپریل 2021ء اور مارچ 2022ء کے درمیان ایک مطالعہ کیا جس کا عنوان تھا ’’ہماری کہانیاں کون بتاتا ہے‘‘ ہندوستانی میڈیا میں پسماندہ ذات کے گروہوں کی نمائندگی۔(Who Tells Our Stories Metters: Representation of Marginailized Cast Groups In Indian Media) اس مطالعے میں مختلف میڈیا اداروں میں مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی نمائندگی کا تجزیہ کرنے کے لیے بائی لائن کاؤنٹ کا طریقہ استعمال کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس عرصے کے دوران پرنٹ، ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا آؤٹ لیٹس میں 218 اہم عہدوں کا سروے کیا گیا جس میں پایا گیا کہ 191 پوسٹوں (88 فیصد) پر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا غلبہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مین اسٹریم میڈیا ہاؤسز میں سے کسی میں بھی ایس سی/ایس ٹی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد قائدانہ کردار میں نہیں ہیں۔ دو متبادل میڈیا پلیٹ فارمز میں اعلی عہدوں پر SC/ST زمرے کے دو لوگ تھے۔ 2018-19 میں بھی صورتحال مختلف نہیں تھی۔ نیوز روم میں 121 اعلی عہدوں میں سے 106 (88 فیصد) اعلیٰ ذات کے ہندو صحافیوں کے قبضے میں تھے۔ 2019 کا مطالعہ اکتوبر 2018 اور مارچ 2019 کے درمیان اسی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمام قسم کے میڈیاز میں اینکرز اور رائٹرز جیسے عہدوں پر بھی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا غلبہ ہے۔ پرنٹ میڈیا کی بات کریں تو انگریزی اور ہندی اخبارات میں 60 فیصد سے زیادہ بائی لائن آرٹیکل اونچی ذات کے لوگوں نے لکھے ہیں۔ 5 فیصد سے بھی کم مضامین ایس سی/ایس ٹی کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والوں نے لکھے ہیں۔ دس فیصد مضامین دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے تھے۔ تقریباً تمام رسالوں میں آدھے سے زیادہ مضامین اعلیٰ ذات کے صحافیوں نے لکھے ہیں۔ کسی بھی اخبار میں ایس سی کی نمائندگی دس فیصد سے زیادہ نہیں تھی اور ایس ٹی زمرہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی شرح صفر ہے یا پھر کسی ادارے میں محض 0.2 فیصد ہے۔ ہندی اخبارات کا بھی یہی حال ہے۔ مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ او بی سی صحافیوں کی نمائندگی بہت ہی کم ہے، اس کے بعد ایس سی اور ایس ٹی صحافی تھے جن کی بائی لائن اور حاضری کا فیصد صرف 6.0 تھا۔ ٹی وی جرنلزم کے لحاظ سے 55.6 فیصد انگریزی نیوز اینکرز اعلی ذات سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹی سے کوئی اینکر نہیں تھا۔ انگریزی نیوز چینلز میں او بی سی کمیونٹی کے اینکرز کی تعداد 11.1 فیصد تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مطالعہ کیے گئے سات چینلز میں سے چار میں او بی سی کمیونٹی کا کوئی بھی اینکر نہیں تھا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹی وی مباحثوں میں پینلسٹوں کے طور پر مدعو کیے جانے والے افراد میں بھی پسماندہ طبقات کی نمائندگی کم ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندی اور انگریزی میں پرائم ٹائم شوز کے تمام پینلسٹوں میں 60 فیصد سے زیادہ کا تعلق اعلی ذات سے تھا۔ ہندی اور انگریزی میں مباحثوں میں شامل 5 فیصد سے بھی کم پینلسٹس ایس سی/ایس ٹی زمرے سے تھا۔ ڈیجیٹل میڈیا میں انگریزی نیوز ویب سائٹ Newslaundry میں 68.8 فیصد بائی لائنز اسٹوری اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی لکھی ہوئی شائع ہوئی ہے۔ اس کے بعد فرسٹ پوسٹ میں 61 فیصد اور اسکرول میں 54 فیصد اسٹوری اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والوں نے لکھی ہے۔ دی وائر کے لیے لکھے گئے تمام مضامین میں نصف اعلیٰ ذات کے صحافیوں نے لکھے ہیں، جبکہ 12.4 فیصد او بی سی زمرے کے صحافیوں نے لکھے ہیں۔ 3.2 فیصد ایس سی کمیونیٹیز اور 6 فیصد اسٹوریاں درج فہرست قبائل برادریوں سے تعلق رکھنے والوں نے لکھی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موک نائک واحد ڈیجیٹل پلیٹ فارم تھا جہاں زیادہ تر مضامین ایس سی کمیونٹی کے صحافیوں نے لکھے تھے۔ رپورٹ کے لیے 9 ویب سائٹس کا سروے کیا گیا، ان میں ایسٹ پریزینڈ۔فرسٹ پوسٹ، نیوز لانڈری۔اسکرول۔دی وائر۔دی نیوز منٹ سوراجیہ،دی موک نائک اور دی کوئنٹ شامل ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کے سروے پہلی مرتبہ ہوئے ہوں، خود نیوز لانڈری نے اس سے قبل بھی اسی طرح کی نوعیت کا سروے پیش کیا تھا اور 2006 میں سنٹر فار اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی نے بھی مشہور صحافی انل چمڑیا کی قیادت میں ایک سروے کرایا تھا جس میں 315 میڈیا ہاوسز کا سروے ہوا تھا اس کی رپورٹ بھی کم وبیش اسی طرح کی تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ میڈیا میں ذات پات کی نمائندگی سے متعلق پہلی سروے رپورٹ کو 20 سال ہو چکے ہیں مگر ان دو دہائیوں میں اگر میڈیا ہاوسز میں سماجی نمائندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے تو اس کے اسباب پر غور کیا جانا چاہیے۔ گزشتہ 30 برسوں سے بی بی سی، این ڈی ٹی وی اور دیگر بڑے پلیٹ فارموں سے جڑے رہنے والے مشہور صحافی پنکج پچوری نے جو سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر بھی رہ چکے ہیں ’’ہفت روزہ دعوت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں سماجی عدم توازن کوئی شعوری طور پر نہیں ہے۔میڈیا سماج کا ایک حصہ ہے۔ اگر سماج میں نمائندگی کا عدم توازن ہے تو اس کا اثر میڈیا پر بھی پڑے گا۔ آپ کو یہ دیکھنا ہو گا کیا تعلیمی اداروں میں آبادی کے لحاظ سے تمام طبقات کی نمائندگی پائی جاتی ہے۔ اگر نہیں ہے تو اس کا اثرمیڈیا ہاوسز پر بھی پڑے گا۔ اگر ملک میں اونچی ذات کا غلبہ ہے تو اس کی تاریخی اور سماجی وجوہات بھی ہیں، جب تک ان وجوہات اور ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی اس وقت تک صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اگر ذات پات کی بنیاد پر نمائندگی کی کوشش کی جائے گی تو میڈیا ہاوسز کے سامنے دیگر چیلنجز پیدا ہو جائیں گے۔ پنکج پچوری کے اس تجزیے کو اگر تعلیمی اداروں میں موجودہ صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ درست معلوم ہوتا ہے۔
اہم ترین ۔۔۔ مزید ملاحظہ کیجیے
صدیوں سے کھڑی استحصال کی آہنی دیوار کو توڑنا آسان نہیں
امبیڈکر کے شروع کردہ اخبار موکنائک کی روح رواں مینا کوٹوال کا اظہار خیال
(صفحہ 8)
2019 میں راجیہ سبھا میں وزارت تعلیم نے اعتراف کیا کہ ملک کی 40 مرکزی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی تقرری میں توازن کا فقدان ہے۔ ملک کی 17 انڈین انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹکنالوجی (آئی آئی ٹی) میں ڈراپ آوٹ کرنے والوں میں 70 فیصد طلبا کا تعلق پسماندہ اور درج فہرست ذاتوں سے ہے۔ اس سوال پر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ سماجی عدم توازن، پسماندہ درج فہرست درج فہرست قبائل اور اقلیتوں کی عدم نمائندگی کی میڈیا کی پالیسی اور نیوز کوریج پر کسی طرح کے اثرات مرتب ہوتے بھی ہیں یا نہیں۔
میڈیا میں تنوع کا فقدان اور اس کے اثرات
خبروں میں تنوع کا فقدان اور معیار میں گراوٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پنکج پچوری نے تسلیم کیا کہ ذات پات میں عدم توازن کی وجہ سے ہی خبروں کی پیشکش میں فرق پڑتا ہے۔ بی بی سی کے انٹرنیشنل سروس سے وابستگی کا تجربہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس دور میں وہ بی بی سی کی انٹرنیشنل سروس سے وابستہ تھے اس دور میں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والوں کی نمائندگی کا فقدان تھا جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا سے متعلق بی بی سی کی رپورٹنگ اور اس کی تجزیاتی رپورٹ متاثر ہوتی تھی۔ برطانیہ، ہنگری یا پھر دیگر یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی جنوبی ایشیا سے متعلق رپورٹیں ان کی مخصوص ذہنیت کی عکاسی کرتی تھیں۔ جب تک نیوز رومز صرف چند کمیونٹیز پر مشتمل ہوں گے صحافت مختلف مسائل کا احاطہ کرنے میں ناکام رہے گی۔ نیوز لانڈری کے مطالعے سے پتا چلا ہے کہ میگزینوں کے 972 کور آرٹیکلز میں سے صرف 10 آرٹیکل ذات پات کے امتیاز کے بارے میں تھے۔ اقلیتوں کی کم نمائندگی کے اثرات کا ہی نتیجہ ہے کہ اکثر اوقات مسلمانوں سے متعلق رپورٹنگ کرتے وقت صحیح صورت حال کی عکاسی نہیں ہو پاتی ہے بلکہ منفی زاویہ کی پیش کر دیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ 2011 کی مردم شماری رپورٹ پر بیشتر اخبارات کی سرخیاں مسلمانوں کی آبادی میں ہندوؤں سے زیادہ اضافہ سے متعلق تھیں جبکہ صرف انگریزی اخبار’ دی ہندو’ کی سرخی تھی "2001 کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہونے کی شرح میں نمایاں کمی” اس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی ایک ہی خبر کو مثبت اور منفی دونوں طرح پیش کیا جا سکتا ہے مگر یہ سب کچھ صحافی کی اپنی ذہنیت پر منحصر ہوتا ہے۔ نیوز چینلز میں تنوع کی کمی کی وجہ سے خبریں یک رخی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ اعلیٰ ذات کے لوگوں سے بھرے نیوز رومز کا اکثر یہ مطلب ہوتا ہے کہ نچلی ذاتوں اور اقلیتوں کی خبریں ان کے مسائل کی باریکیوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اس وقت چند مشہور ہندی نیوز چینلوں میں کئی مسلم صحافی بھی ہیں مگر وہ بھی اقلیتوں کی نمائندگی کرنے میں ناکام ہیں۔ ان کے ٹی وی مباحثے بھی مسلم دشمنی پر مبنی ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حالیہ برسوں میں ہندوستانی صحافت کے مزاج میں تبدیلی آئی ہے۔ پہلے چیف ایڈیٹرس خبروں کی پالیسی اور پیشکش میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے تھے مگر اب کارپوریٹ کمپنیوں کے ڈائریکٹرس، ایڈیٹوریل پالیسی مرتب کرتے ہیں۔ چیف ایڈیٹرس کی حیثیت صرف اس پالیسی کو نافذ کرنے کی ہوتی ہے۔
ہندوستانی میڈیا اور مسلم فوبیا میڈیا ہاوسز میں اقلیتوں کی نمائندگی سے متعلق حالیہ برسوں میں کوئی سروے نہیں آیا ہے تاہم انل چمڑیا کے ذریعہ کیے گئے سروے میں بتایا گیا ہے کہ میڈیا ہاوسز میں اقلیتوں، بالخصوص مسلم صحافیوں کی نمائندگی میں توازن نہیں ہیں۔ چند مشہور افراد اگر موجود ہیں بھی تو وہ اپنی ملازمت کے تحفظ کی خاطر خاموش رہنے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہیں۔ نمائندگی سے زیادہ اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا نیوز روم کا ماحول مسلم اور دلت صحافیوں کے لیے سازگار ہے؟ مشہور انگریزی کی ویب سائٹس ’’آرٹیکل 14ڈاٹ کام‘‘ نے نیوز رومس میں مسلم فوبیا پر ایک خصوصی رپورٹ شائع کی ہے۔ نیوز رومس کی صورت حال جاننے کے لیے قومی میڈیا میں کام کرنے والے مسلم صحافیوں سے انٹرویو لے کر اس سوال کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ لکھنو میں ایک بڑے اخبار میں کام کرنے والے صحافی نے بتایا کہ 2017 میں جب اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کے نتائج میں بی جے پی کو واضح برتری حاصل ہونے لگی تو صحافی جے شری رام کے نعرے لگانے لگے۔ ایک منٹ کے لیے محسوس ہوا کہ یہ نیوز روم نہیں بلکہ بی جے پی کا دفتر ہے۔ جن 8 مسلم صحافیوں کا انٹرویو شائع ہوا ہے ان میں سے بیشتر افراد نے اس بات کو تسلیم کیا کہ نیوز رومز میں مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک ہوتا رہا ہے مگر 8 سال قبل بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں اکثریت پسندی کا جو ماحول بنا ہے اس نے نیوز رومز کو پہلے سے کہیں زیادہ زہریلا بنا دیا ہے۔ امریکہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘‘ کے ہندوستان کے نمائندے کنال مجمدار نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’گزشتہ چند سالوں میں ہم نے کچھ پریشان کن رجحانات دیکھے ہیں، رپورٹنگ کے دوران مسلم صحافیوں کو صرف اور صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہم نے یہ شمال مشرقی دلی اور جہانگیر پوری فسادات کے دوران دیکھا ہے جہاں فسادات کی رپوٹنگ کے دوران مسلم صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ مجمدار نے لکھا ہے کہ فسادات کی رپورٹنگ کے دوران ایک صحافی کو ہجوم سے بچنے کے لیے اپنی شناخت ہندو کے طور پر کرانی پڑی۔ 2021 میں مسلم صحافیوں سمیت متعدد مسلم خواتین کو دو ایپس، سلی ڈیلز اور بلی بائی کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، جہاں سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ان کی معلومات کو عام کر کے انہیں ذلیل کرنے کی خاطر نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا۔
2001 سے 2011 تک ٹائمز آف انڈیا کے لکھنؤ ایڈیشن کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر رہنے والے اتل چندرا نے جو یو پی کے وزیر اعلی یوگی پر شائع ہونے والی ایک کتاب کے شریک مصنف بھی ہیں، بتایا کہ نیوز رومز ملک میں مسلم مخالف تعصب کی عکاسی کرتے ہیں۔ ملک کا مجموعی ماحول آلودہ ہو چکا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نیوز رومز میں مسلمان صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ "نفرت انگیز تقاریر روز کا معمول بن چکے ہیں، ایسے حالات میں مسلمان صحافیوں کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ بربریت کا سامنا کرنے سے بچ سکیں۔ اگر نیوز روم میں جئے شری رام کے نعرے لگ رہے ہیں تو صرف اس لیے ہے کہ ہم فرقہ وارانہ خطوط میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ ہم نے صرف فرقہ وارانہ خطوط پر سوچنا شروع کر دیا ہے۔ میڈیا بہت زیادہ حکومت کا غلام ہو چکا ہے۔
ہندوستانی میڈیا میں مسلمانوں کی غلط شبیہ کیوں پیش کی جاتی ہے اور تمام تر خرابیوں کے لیے مسلمانوں کو ہی کیوں مورد الزام کیوں ٹھہرایا جاتا ہے؟ مشہور بزرگ صحافی سعید نقوی نے اپنی کتاب Being The Other:Indian Muslim میں لکھا ہے کہ خلیجی جنگ کے دوران سی این این نے پہلی مرتبہ جنگ کا براہ راست لائیو کاسٹ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ صحافتی دنیا میں ایک انقلاب تھا۔ دہشت گردی کے خلاف دکھائی گئی جنگ، ہفتہ بہ ہفتہ مسلم دہشت گردوں کے انکشافات سے متعلق مغربی حکایات کو بھارتی میڈیا نے من و عن قبول کرلیا۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ دنیا مسلم اور غیر مسلم خانے میں تقسیم ہوئی بلکہ بھارت سب سے زیادہ اس سے متاثر ہوا۔ پنکج پچوری کہتے ہیں کہ میڈیا میں تعصب اور فرقہ واریت کا ماحول بہت پہلے سے ہی رہا ہے مگر 9/11 کے بعد سی این این کی رپورٹنگ اور امریکہ میں ہونے والے واقعات کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی پالیسی کے اثرات سے بھارتی میڈیا بھی متاثر ہوا ہے۔ حالیہ برسوں میں اس میں اس لیے اضافہ ہوا ہے کہ برسر اقتدار طبقہ نظریاتی طور پر اچھوت بنانے کی پالیسی رکھتا ہے اس لیے وہ اس ماحول کو اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے۔ اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس کی قیمت ملک کو کیا چکانی پڑے گی۔
سوال یہ ہے کہ ان برے حالات کا حل کیا ہے۔ بھارتی میڈیا میں توازن اور تنوع کو برقرار رکھنے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب تفصیل طلب بھی ہے اور اس میں اختلافات رائے بھی ممکن ہے۔ اس سلسلے میں امریکن سوسائٹی آف نیوز پیپر ایڈیٹرز کی ایک کوشش سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔ امریکی معاشرے میں نسل پرستی کی ایک تاریخ رہی ہے مگر آج ایک افریقی نژاد شہری کے ایک پولیس اہلکار کے ہاتھوں قتل ہو جانے پر امریکہ میں کہرام مچ جاتا ہے تو اس کے پیچھے امریکی میڈیا میں تنوع اور سماجی نمائندگی ہی ایک بڑی وجہ ہے۔ امریکن سوسائٹی آف نیوز پیپر ایڈیٹرز نے چند سال قبل سروے کیا تھا جس سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ صرف 4 فیصد افریقی نژاد امریکی میڈیا میں ہیں جب کہ ان کا امریکی آبادی میں 36 فیصد حصہ ہے۔ سوسائٹی نے افریقی نژاد امریکی صحافیوں کو تیار کرنے اور میڈیا میں ان کی نمائندگی بڑھانے کے لیے خصوصی تربیت اور ورکشاپس جیسے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں، اس کے نتیجے میں افریقی نژاد امریکیوں کی نمائندگی مختصر مدت میں بڑھ کر 14 فیصد تک پہنچ گئی۔ کیا اس طرح کی کوششوں سے بھارت کے میڈیا میں توازن اور تنوع نہیں لایا جا سکتا؟ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کے تعلیمی اداروں میں ملک کے تمام طبقات کو یکساں مواقع ملیں۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022