طیب ایردوان کی دوسری ہیٹ ٹرک ۔اسلام پسند حلقوں میں مسرت کی لہر
رن۔آف مقابلہ میں انصاف و ترقی پارٹی کے رہنما کو52فیصد ووٹ
مسعود ابدالی
زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں بہترین مظاہرہ کے ذریعہ ایردوان نے اپنی قائدانہ صلاحیت منوالی
صدر طیب رجب ایردوان، ترک وزارت عظمیٰ کی یکے بعد دیگرے تین مدتیں جیتنے کے بعد صدارتی دوڑ بھی تیسری بار جیت گئے۔ کھیلوں کی اصطلاح میں اسے Hat-Trickکہا جاتا یے۔
انکی انصاف و ترقی پارٹی (ترک مخفف آق) نے 2002 کے انتخابات میں 550 رکنی گرینڈ نیشنل اسمبلی ( تُرک مخفف TBMM)کی 363 نشستیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کرلی۔ اس سے پہلے 1994 سے 1997 تک جناب ایردوان استنبول کے رئیسِ شہر (Mayor) رہ چکے تھے۔ اس دوران مشرقی ترکیہ کے شہر سِعِرد (Siirt) کےجلسے میں انھوں نے انقلابی شاعر محمد ضیا تخلص گوکلب Gökalpکے چند اشعار پڑھے۔ملک کے اٹارنی جنرل نے اس نظم کو اشتعال انگیز اور سیکیولرروایات کے خلاف قرارادیتے یوئے ان پر مقدمہ کردیا۔ عدالت میں جناب ایردوان نے موقف اختیار کیاکہ حکومت جس نظم کو اشتعال انگیز قرار دے رہی ہے وہ ترک طلبہ کےسرکاری نصاب کا حصہ ہے لیکن جج صاحب نے یہ دلیل رد کرتے ہوئے جناب اردوان کو دس مہینے کی سزا اور مئیر کے عہدے سے برطرفی کے ساتھ ان کے انتخابات میں حصہ لینے پر ہابندی لگادی گئی۔
جب 2002 میں انکی جماعت نے بھاری اکثریت سے انتخاب جیتا اس وقت جناب ایردوان پر پابندی عائد تھی، چنانچہ ان کے دست راست عبداللہ گل نے وزارت عظمیٰ سنبھال لی۔ دو سری طرف نااہلی کے خلاف ایردوان کی درخواست سماعت کیلئے منظور ہوگئی۔ اسی دوران سعرد شہر کے انتخابات الیکشن کمیشن نے کالعدم کردئے۔ جب دوبارہ انتخابات کا اعلان ہوا توجناب ایردوان پر پابندی ختم ہوچکی تھی اور وہ ضمنی انتخاب جیت کر پارلیمان کے رکن بن گئے۔ وزیراعظم عبداللہ گل نے استعفیٰ دیدیا اور طیب ایردوان ترکیہ کے وزیراعظم منتخب کرلئے گئے پانچ سال بعد ہونے والے انتخابات میں آق نے 341 نشتیں جیت کر اپنی برتری برقرار رکھی اور پھر 2011 کے انتخابات میں آق 327 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی اور جناب ایردوان تیسری مدت کیلئے وزیراعظم منتخب ہوئے۔
ترکیہ میں پہلے براہ راست صدارتی انتخابات 10 اگست 2014 کو ہوئے۔ آق نے جناب ایردوان کو اپنا امیدوار نامزد کیا اور حزب اختلاف کی جانب سے نے او آئی سی (OIC)کے سابق جنرل سکریٹری اکمل الدین احسان اوغلو میدان میں اترے۔ طیب ایردو ان نے 51.79فیصد ووٹ لیکر فتح اپنے نام کرلی۔ ریفرنڈم میں صدارتی نظام کی توثیق کے بعد جون 2018 میں پھر میدان سجا۔ اس بار صدر طیب رجب ایردوان کا مقابلہ ریپلکن پیپلز پارٹی (CHP)کے محرم انس سے ہوا۔ منچلوں نے اس پر رجب بمقابلہ محرم کی گرہ لگائی۔ جناب ایردوان نے 52.59فیصد ووٹ لیکرمعرکہ دوسری بار جیت لیا۔اس سال 14 مئی کو ہونے والے انتخابات میں جناب ایردوان 49.52فیصد ووٹ لیکر تیسری بار سرفہرست رہے،انکے قریب ترین حریف کمال کلیجدار اوغلو کو 44.88فیصد ملے جبکہ آزاد امیدوار سینان اوغن5.17 فیصد ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر آئے۔ ترکیہ میں صدر منتخب ہونے کیللئے پچاس فیصد سے کم ازکم ایک ووٹ زیادہ لینا ضروری ہے چنانچہ 28 مئی کو صدر ایردوان اور کلیجدار اوغلو کے درمیان براہ راست مقابلہ ہوا جسے run-offکہاجاتا ہے۔
14 مئی کے انتخابات میں جہاں ایردوان نے سب سے زیادہ ووٹ لئے وہیں انکی جماعت اور اتحادیوں نے پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل کرلی۔ جس کی وجہ سے حکمراں آق پارٹی بلند حو صلے کیساتھ دوسرے مرحلے میں داخل ہوئی۔ براہ راست مقابلے کے مرحلے میں تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار سنان اوغن بادشاہ گر بن کرابھرےجنھوں نے پانچ فیصد سے زیادہ ووٹ لئے تھے۔ جناب اوغن قدامت پسندی کی طرف مائل معتدل اور سلجھےہوئے سیاستدان ہیں۔ بلقان اور وسط ایشیائی امور پر انکی گہری نظر ہے اور وہ کمال اوغلو کی یورپ نواز پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن شامی پنای گزینوں کئ معاملے میں وہ خاصہ سخت رویہ رکھتے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ یہ37 لاکھ افراد نہ صرف قومی معیشت پر بوجھ ہیں بلکہ ان کے یہاں بس جانے سے ترکیہ کی شناخت بھی متاثر ہورہی ہے۔ ملاقات کے دوران انھوں نے جناب ایردوان کو صاف صاف کہہ دیا کہ شامی پناہ گزینوں کی واپسی ان کے لیے بےحد اہم ہے اور وہ اسی امیدوار کی حمائت کرینگے جو شامیوں کی فوری اورغیر مشروط واپسی کا وعدہ کرے گا۔
اس معاملے میں صدر ایردوان کو موقف بھی بہت دوٹوک ہے اور ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے غیر مبہم انداز میں کہا کہ سنان اوغن کی حمائت حاصل کرنے کے لیے وہ عثمانی روایات کو سیاست پرقربان نہیں کریں گے۔ انکا کہنا تھا کہ جب تک شام میں حالات سازگار نہ ہوں پناہ گزینوں کی سرحد پار دکھکیلنا انسانیت نہیں اور وہ انتخاب جیتنے کیلئے اپنے مبنی بر انصاف موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
اس کے مقابلے میں کمال اوغلو نے شامیوں کو فوری طور پر واپس بھیجنے کے حق میں ہیں۔ لیکن دہشت گردی کےمعاملے میں وہ جناب سنان اوغن کے خدشات کا تشفی بخش جواب نہ دے سکے۔ انکی پارٹی نے وعدہ کیا تھاکہ برسراقتدار آنے کی صورت میں کردوں کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ترک مخفف HDP)کو ایک وزارت دی جائے گی۔
بعض ترکوں کاخیال ہے کہ HDPدہشت گرد کرد تنظیم PKKکا سیاسی دھڑٖا ہے۔
جناب ایردوان اور ان کے حریف کمال کلیجدار اوغلو سے تفصیلی ملاقات کے بعد 21 مئی کو جناب سنان اوغن نے Run-offمرحلے میں صدر ایردوان کی حمایت کا اعلان کردیا۔ انقرہ سے جاری ہونے والے اپنے سمعی و بصری بیان میں جناب اوغن نے کہا کہ دونوں امیدواروں سے ہماری ملاقاتیں سیاسی رواداری اور باہمی شائستگی کے ساتھ ہوئیں۔ مذاکرات و مشاورت اور نچلی سطح سے پیغامات کے نتیجے میں ہم نے صدر کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے ۔انکا کہنا تھا کہ صدر ایردوان کی جماعت کو پارلیمان میں واضح اکژیت حاصل ہے۔ اس مرحلے پرایوان صدر اورپارلیمان کے درمیان تصام کے بجائےانتظامیہ اور مقننہ کے درمیان ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
سنان اوغن کی حمایت کے بعد صدر ایردوان کی کامیابی تقریباً یقینی ہوگئی اور ان کے حامیوں کے جوش وخروش میں اضافہ ہوا۔ ۔دوسرے مرحلے کے انتخابات میں جناب ایردوان کو اخلاقی برتری حاصل تھی کہ انھوں نے اپنے حریف سے 25 لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کئے اور اس حق تولّیٹ (mandate)بنا پر بھی جناب اوغن کے بہت سے حامیوں نے جناب ایردوان کو ووٹ دیا۔
فلسطینیوں ، چینی ویغوروں اور برما کےاراکانی مسلمانوں کے علاوہ اسلاموفوبیا اور ناموس رسالت (ص) پر جناب ایردوان نے جو دوٹوک موقف اختیار کیا ہے اسکی وجہ سے موصوف ترکیہ سے باہر بھی خاصے مقبول ہیں،دوسرے مرحلے کے انتخاب سے پہلے یورپی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم یورپین مسلم فورم (EMF)نے عام انتخابات میں صدرایردیوان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے استنبول میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فورم کے سربراہ عبدالوحید نیازوف نے کہا کہ یورپ 17 کروڑ مسلمانوں کا وطن ہے۔ ہمارے لئے ترکیہ اطمینان و اعتماد اور خوشگوار ترقی کا استعارہ ہے۔ ایردوان کی ولولہ انگیز قیادت یورپی مسلمانوں کی ضرورت ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ترک ملت قیادت کیلئے جس کو بھی منتخب کریگی، وہ ہمارے سرآنکھوں پر لیکن EMFترک عوام سے جناب ایردوان کو ووٹ دینے کی درخواست کررہی ہے۔
ضابطے کے مطابق بیرون ملک مقیم ترکوں کیلئے ووٹ ڈالنے کا اہتمام کیا گیا اور دنیا بھر کے ترک سفارتخانوں اورقونصل خانوں میں پولنگ اسٹیشن بنائے گئے۔۔ بیرون ملک ووٹنگ 25 مئی تک جاری رہی۔ ملک واپس آنے اور بیرون
وطن روانہ ہونے والے ترک باشندوں کیلئے ہوائی اڈوں کے کسٹم گیٹ بھی پر ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کی گئی۔
دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان کے ترک سفارتخانے کے علاوہ حیدرآباد اور ممبئی کے قونصل خانوں میں پولنگ اسٹیشن بنائے گئے۔ پاکستان میں مقیم 1200 ترک باشندوں کیلئےاسلام آباد، کراچی اور لاہور میں ووٹ ڈالنےکا انتظام کیا گیا۔ترک الیکشن کمیشن (ترک مخفف YSK) کے مطابق بیرون ملک مقیم 19 لاکھ سے زیادہ ترکوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ عام انتخابات میں بیرون ملک سے آنے والے بیلٹ کی تعداد 16 لاکھ 91 ہزارسے کچھ زیادہ تھی۔ جناب ایردوان کو بیرون ملک رہنے والے 59 فیصد ترکوں نے اپنے ووٹوں سے نوازا۔
اتوارا 28 مئی کو شام پانچ بجے پولنگ کا وقت ختم ہوتے ہی جب گنتی کا آغاز ہوا تو جناب ایردوان نے برتری حاصل کرلی جو آخر تک برقرار رہی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 99.85فیصد گنتی مکمل ہونے پر جناب صدر طیب رجب ایردوان نے 2 کروڑ 77 لاکھ 25 ہزار 131 ووٹ لئے جو کل ووٹو ں کا 52.16 فیصد ہے۔ انکے حریف جناب کمال کلیجدار اوغلو کے حق میں دوکروڑ 54 لاکھ32ہزار 251یا 47.84فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ووٹ ڈالنے کا تناسب 84.22فیصد رہا۔ حوالہ صباح نیوز، ترکیہ
پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 86.98 فیصد تھا جس میں جناب اوغلو نے دوکر وڑ 45 لاکھ 94 ہزار932 اور صدر ایردوان نے دو کروڑ 71 لاکھ 33 ہزار 838 ووٹ لئے تھے، یعنی ترک صدر کو اپنے حریف پر25 لاکھ 38 ہزار 905 ووٹوں کی برتری حاصل ہوئی۔ دوسرے مرحلے میں یہ برتری کم ہوکر 22لاکھ 92 ہزار180رہ گئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حمائت کے دوٹوک اعلان کے باوجود پہلے مرحلے میں تیسرے نمبر پر آنے والے سنان اوغن کے تمام حامیوں نے جناب ایردوان کو ووٹ نہیں دئے۔
بحیثیت مجموعی جناب ایردوان کی کارکردگی بے حد اچھی رہی۔ انھوں نے 2018 کے انتخابات میں 52.59 فیصد ووٹ لئے تھے اور اس بار انھیں 52.16فیصد ووٹ ملے۔ یعنی مقبولیت میں خفیف سی کمی تو ہے لیکن بدترین معاشی حالات اور امریکی پابندیوں کے تناظر میں معاملہ ایسا بھی خراب نہیں۔ پہلے مرحلے کی طرح run-off میں بھی جناب ایردوان کو استنبول، انقرہ، ازمیر اور اکثر بڑے شہروں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن زلزلے سےمتاثرہ علاقوں میں انکی کارکردگی بہت اچھی رہی۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
فلسطینیوں ، چینی ویغوروں اور برما کےاراکانی مسلمانوں کے علاوہ اسلاموفوبیا اور ناموس رسالت (ص) پر جناب ایردوان نے جو دوٹوک موقف اختیار کیا ہے اسکی وجہ سے موصوف ترکیہ سے باہر بھی خاصے مقبول ہیں،دوسرے مرحلے کے انتخاب سے پہلے یورپی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم یورپین مسلم فورم (EMF)نے عام انتخابات میں صدرایردیوان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے استنبول میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فورم کے سربراہ عبدالوحید نیازوف نے کہا کہ یورپ 17 کروڑ مسلمانوں کا وطن ہے۔ ہمارے لئے ترکیہ اطمینان و اعتماد اور خوشگوار ترقی کا استعارہ ہے۔ ایردوان کی ولولہ انگیز قیادت یورپی مسلمانوں کی ضرورت ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 جون تا 10 جون 2023