تعصب و تنگ نظری نہ ہو تو ملک کی بڑی آبادی رحمت بن سکتی ہے
بھارت کو ’جوان آبادی‘ کا فائدہ۔ چین کے مقابلے میں بہتر موقف
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
پاپولیشن فاونڈیشن آف انڈیا کے ایکٹنگ ڈائرکٹر پونم متریجہ کا کہنا ہے کہ آبادی کے سلسلے میں چین کو پیچھے کر دینا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ موجودہ حالت میں بھارت ایک ایسی حالت میں ہے جہاں نوجوانوں اور کام کرنے کے قابل افراد کی تعداد بچوں اور ضعیف العمر افراد کے مقابلے میں زیادہ ہے جنہیں دیکھ بھال کی زیادہ ضرورت رہتی ہے۔ جاپان کے مقابلے میں بھارت کی موجودہ حالت قطعی مختلف ہے جہاں آبادی کم ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی عمر کے لوگوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اس لیے اس کو محنت کشوں کی ضرورت ہے اور مستقبل میں بھی ہوگی لیکن آج ہمارا ملک اپنی بڑھی ہوئی آبادی کی اس بڑی قوت سے مستفید ہوسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کا بھی ماننا ہے کہ بھارت کے پاس سب سے زیادہ جوانوں کی قوت ہے جہاں پچیس کروڑ چالیس لاکھ افراد کی عمریں 15سے 24سال کے درمیان ہیں۔ کسی بھی ملک کے نوجوان اختراعیت اور فکر نو کے ذریعہ مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم و تربیت سے مزین کرکے انہیں ٹکنیکل اور ڈیجیٹل اختراعیت کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے۔ فی الحال ملک میں 25سے 64 سال کی عمر کے بالغوں کی اس تعداد میں اضافہ آئندہ بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔ یہ حالت یقینی طور پر ملک کے لیبر فورس کو تقویت دے گی اور اس سے معیشت کو رفتار بھی ملے گی۔
اقوام متحدہ کے عالمی آبادی کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی آبادی 142.86 کروڑ ہوگئی ہے جو چین کی آبادی سے تقریباً 29 لاکھ زائد ہے۔ اس طرح ہمارا ملک اب دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک بن گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بھارت کی 25فیصد آبادی کی عمر 14سال سے کم ہے۔ 18فیصد لوگ 10سے 19سال کی عمر کے ہیں۔ 10سے 24 سال کے افراد 26فیصد اور 15سے 64سال کے افراد 68فیصد ہیں۔ سینئر سٹیزن یعنی 65سال سے زائد عمر کے لوگوں کی تعداد 7فیصد ہے۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ کام کرنے کے قابل عمر والوں کا ہے۔ اسے ’ڈیموگرافک ڈیوڈینڈ‘ کہتے ہیں۔ کسی بھی ملک کو ترقی کی طرف لے جانے میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ گزشتہ سال حکومت ہند نے نوجوانوں کے بارے میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ بھی ایک اندازہ ہی ہے۔ اس لیے آبادی کی واضح تصویر تو مردم شماری سے ہی ہوگی جو کورونا کی وجہ سے 2021میں نہیں ہو پائی تھی۔ اب توقع ہے کہ مردم شماری لوک سبھا انتخابات کے بعد ہی ہوگی۔ جو بھی ہو اقوام متحدہ کے رپورٹ کے مطابق اسی سال یکم جولائی 2023تک بھارت کی آبادی چین کے مقابلے تقریباً 29لاکھ زیادہ ہوجائے گی۔ مگر ہم یہ طے نہیں کرپائے ہیں کہ بڑی آبادی رحمت ہے یا زحمت۔ ملک میں سنگھیوں کا ایک طبقہ ہے جو آبادی کو زحمت سمجھتا ہے جبکہ دوسرے طبقہ کا ماننا ہے کہ ملک کی بڑی آبادی سے ملک کی معاشی ترقی کو رفتار ملے گی۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کا بھی ماننا ہے کہ پانچ دہائیوں تک بھارت کی آبادی میں اضافہ کے آثار ہیں اس کے بعد یہ رفتہ رفتہ کم ہوتی جائے گی۔ اس کے برخلاف چین کی آبادی اس صدی کے آخر تک 100کروڑ سے نیچے چلی جائے گی۔ چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ آبادی کا کتنا حصہ ہماری معاشی ترقی کے لیے مفید ہے۔
واضح رہے کہ بھارت میں مجموعی شرح اموات (ٹوٹل فرٹیلیٹی ریٹ ۔ TFR) 1950 میں جہاں 5.73تھا وہیں یہ اکیسویں صدی کے شروع میں 3.30پر پہنچ گیا ہے اور امسال یہ کم ہوکر 2.0 پر آگیا ہے۔ ابھی تک تو یہReplacement Fertility level ، 2.1 سے بھی نیچے ہے جو طویل مدت تک آبادی کے ٹھیراو کے لیے ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ کم ہوتے ہوئے فرٹیلیٹی ریٹ کے باوجود ملک کی کل آبادی میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نوزائیدہ اور بچوں کی شرح اموات میں کمی آئی ہے۔ دوسری طرف شہریوں کی اوسط عمر 75سال قبل 41.72سے بڑھ کر آج کل 72.5پر پہنچ گئی ہے۔ اس کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ خواتین پر بچے پیدا کرنے کا دباو کم ہوا ہے۔ مرکزی وزارت صحت کے ہیلتھ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کی 2021-22 کی رپورٹ کے مطابق نوزائیدہ یعنی ایک سال سے کم عمر کے بچوں اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات میں کمی آرہی ہے۔
ویسے بھارت کی آبادی میں تینوں عوامل ذمہ دار ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2012 میں فی ہزار نوزائیدہ کی شرح اموات 29 تھی جو 2020 کم ہوکر 20 پر آگئی ہے۔ اس طرح 2012 میں بچوں کی فی ہزار شرح اموات 42 تھی وہ 2020میں 28پر آگئی ہے۔ اس کے علاوہ طبی سہولتوں کی دستیابی اور ایک خاص طبقہ کی مالی حیثیت بہتر ہونے سے اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ اس طبقہ کے افراد پیداواریت سے منسلک نہ ہونے کے باوجود اول درجہ کی زندگی جی رہے ہیں۔
چین ہی کی طرح کے حالات اور مواقع بھارت کے پاس بھی ہیں لیکن ہماری بڑھی ہوئی آبادی اس وقت رحمت ثابت ہوگی جب ہم آبادی کے فوائد کا استعمال کرتے ہوئے نئے روزگار کے مواقع پیدا کریں گے۔ چین میں بڑی آبادی کے باوجود روزگار کی مصیبت کبھی نہیں رہی ہے اس کا نتیجہ بھی یہی ہے کہ آبادی کا فائدہ نہ صرف تعداد پر انحصار کرتا ہے بلکہ اس کے لیے صلاحیت بھی بہت مضبوط وسیلہ ہے۔ اس لیے معاشی استقلال اور خوشحالی کے لیے بڑے پیمانے پر معیاری ہنر مندی کو ترجیح دینا ہوگا۔
تعلیم کے معیار میں زوال، بے روزگاری اور طبی سہولیات میں معیار کا فقدان ہماری شرح ترقی کی رفتار کو کمزور کردیتا ہے جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں ہمارا عمل دخل بہت ہوجاتا ہے۔ اگر یہی حال رہا تو بڑھتی ہوئی آبادی زحمت ثابت ہوگی۔ ضرورت ہے کہ سب سے بڑی آبادی والے ملک میں اختراعیت، معیاری تعلیم اور ہنر مندی کی تربیت پر توجہ دی جائے تاکہ دنیا کی سب سے تیز رفتار معیشت کو مہمیز دینے کے لیے نوجوانوں کی آبادی کو کام پر لگایا جاسکے۔ 2055تک کام کے قابل آبادی میں اضافہ کے جاری رہنے سے ہم اس کا بہتر فائدہ حاصل کرسکتے ہیں اور اسے اپنی طاقت بھی بناسکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے جمہوری ملک ہونے کی حیثیت سے سخت قانون نہیں اپنا سکتے کیونکہ چین کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ اس نے ایک بچہ کی پالیسی بناکر اپنے پاوں پر خود ہی کلہاڑی مارلی۔ بہرحال جس جوان آبادی کے سہارے چین نے معاشی ترقی ہے وہ آبادی اب ہمارے پاس ہے بشرطیکہ ذات پات اور مذہب کا کھیل کھیلنے والے فرقہ پرست لیڈر اپنی حرکتوں سے باز آجائیں اور شمشان کا راگ الاپنا بند کردیں کیونکہ نفرت کی آندھی ملک کی ہمہ جہتی ترقی کی دشمن ہے اور جو لوگ نفرت کے زہر کی کاشت کررہے ہیں حقیقت میں وہی ملک دشمن ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ ڈیڑھ ارب کی آبادی کے ذریعے بحیثیت قوم ترقی کی عبارت تحریر کریں۔ ملک میں ایک بڑا گھریلو بازار پہلے سے موجود ہے جو ہماری طاقت ہے اور پرامن ماحول میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعہ ہم اپنی معیشت کو پرواز دے سکتے ہیں، ہمارے ملک کا متوسط طبقہ بھی ہماری قوت ہے اور سستے مزدور ہماری صنعتی ترقی کو نیا رخ دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ شعبہ زراعت کو ترجیحات میں رکھ کر اس سے منسلک 50 فیصد سے بڑی آبادی کو ملک کی طاقت بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صنعتوں کو شہروں میں مرکوز کیے بغیر دیہی علاقوں میں قائم کیا جائے۔ اس سے کسانوں کی آمدنی بھی بڑھے گی اور زرعی مزدوروں کو شہروں کی طرف ہجرت کے بغیر دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع فراہم ہوسکیں گے۔ ملک کی جی ڈی پی میں فی الحال 18 فیصد حصہ داری کرنے والے زرعی شعبہ سے حاصل حصہ میں اضافہ سے معیشت کو نئی سمت ملے گی۔ ساتھ ہی ملک کے لیبر فورس میں خواتین کی حصہ داری اضافہ بھی ضروری ہے جو محض 20 فیصد ہی ہے جبکہ چین میں لیبر فورس میں خواتین کی حصہ داری 61 فیصد ہے۔ اس لیے یہاں لیبر فورس میں خواتین کی حصہ داری کو کم از کم عالمی اوسط 47 فیصد کے قریب تو لانا ہی ہوگا۔ مختصراً یہ کہ ہمیں اپنے ’ڈیمو گرافک ڈیوڈینڈ‘ کا فائدہ اٹھانے کے لیے تیزی سے متحرک ہونا ہوگا۔ چونکہ ہماری آبادی کا بیشتر حصہ غریب ہے اور گاووں اور دیہاتوں میں رہتا ہے اس لیے اس طبقہ کی ہمہ جہتی ترقی کے لیے پالیسی سازی کرنی ہوگی تاکہ وہ بھی ملک کی تعمیر میں اپنا کردار نبھا سکے۔
***
***
چین ہی کی طرح کے حالات اور مواقع بھارت کے پاس بھی ہیں لیکن ہماری بڑھی ہوئی آبادی اس وقت رحمت ثابت ہوگی جب ہم آبادی کے فوائد کا استعمال کرتے ہوئے نئے روزگار کے مواقع پیدا کریں گے۔ چین میں بڑی آبادی کے باوجود روزگار کی مصیبت کبھی نہیں رہی ہے اس کا نتیجہ بھی یہی ہے کہ آبادی کا فائدہ نہ صرف تعداد پر انحصار کرتا ہے بلکہ اس کے لیے صلاحیت بھی بہت مضبوط وسیلہ ہے۔ اس لیے معاشی استقلال اور خوشحالی کے لیے بڑے پیمانے پر معیاری ہنر مندی کو ترجیح دینا ہوگا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 مئی تا 20 مئی 2023