سپریم کورٹ نے ای ڈبلیو ایس کوٹے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ رکھا
نئی دہلی، ستمبر 27: سپریم کورٹ نے منگل کو تعلیمی اداروں میں داخلوں اور ملازمتوں میں معاشی طور پر کمزور طبقوں کے افراد کو 10 فیصد کوٹہ دینے کے مرکز کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
درخواست گزار آئین کی 103ویں ترمیم کے خلاف ہیں، جس نے دفعہ 15 اور 16 میں تبدیلیاں کیں جو مساوات کے حق سے متعلق ہیں اور ریزرویشن کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔
13 ستمبر کی سماعت میں درخواست گزاروں کے ایک گروپ کی نمائندگی کرنے والے وکیل موہن گوپال نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ 103 ویں ترمیم ’’آئین کے ساتھ دھوکہ دہی‘‘ ہے۔
سینئر ایڈوکیٹ پی ولسن نے درخواست گزاروں کے ایک اور گروپ کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریزرویشن کا مقصد صرف تاریخی ناانصافیوں کا ازالہ کرنا ہے اور یہ غربت کے خاتمے کا پروگرام نہیں ہے۔
مرکز نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ اقتصادی طور پر کمزور طبقات کے لیے کوٹہ درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے حقوق کو ختم نہیں کرتا ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی بہت سے فوائد سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائلی برادریوں کے ارکان کو آئین کے تحت کئی فوائد دیئے گئے ہیں، جن میں دفعہ 16(4)(a) (پروموشن کے لیے خصوصی انتظام)، دفعہ 243D (پنچایت اور میونسپلٹی کی نشستوں میں ریزرویشن)، دفعہ 330 (لوک سبھا میں ریزرویشن) اور دفعہ 332 (ریاستی قانون ساز اسمبلیوں میں ریزرویشن) شامل ہیں۔
ای ڈبلیو ایس کوٹہ
مرکزی حکومت نے ان لوگوں کے لیے اقتصادی طور پر کمزور طبقوں کا کوٹہ متعارف کرایا ہے جو درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات کو دیے گئے ریزرویشن کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے، لیکن جن کی خاندانی آمدنی سالانہ 8 لاکھ روپے سے کم ہے۔
تاہم اگر کوئی خاندان 5 ایکڑ سے زیادہ زرعی زمین یا 1,000 مربع فٹ رہائشی زمین کا مالک ہے تو وہ شخص ریزرویشن کا اہل نہیں ہوگا۔
پچھلے سال سپریم کورٹ نے پہلی نظر میں مشاہدہ کیا تھا کہ یہ معیار من مانی لگتے ہیں۔
چیف جسٹس یو یو للت کی زیرقیادت ایک آئینی بنچ نے کہا کہ وہ اس بات کی جانچ کرنا چاہتی ہے کہ آیا سرکاری ملازمتوں اور کالجوں میں داخلوں میں اعلیٰ ذات کے معاشی طور پر کمزور امیدواروں کے لیے 10 فیصد کوٹہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کرتا ہے یا نہیں۔