سپریم کورٹ نے سی اے اے مخالف مظاہرین کو بھیجے گئے ریکوری نوٹس پر کارروائی کرنے میں ہدایات پر عمل نہ کرنے کے سبب اتر پردیش کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا
نئی دہلی، فروری 12: سپریم کورٹ نے جمعہ کو اترپردیش حکومت کی طرف سے دسمبر 2019 میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران عوامی املاک کو ہونے والے نقصانات کی وصولی کے لیے ضلع انتظامیہ کی طرف سے بھیجے گئے نوٹسز پر کارروائی کرنے پر تنقید کی۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور سوریہ کانت کی بنچ نے کہا کہ نوٹس اور ان پر کارروائی 2009 کے فیصلے میں دی گئی سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق نہیں ہے۔ لائیو لاء کی خبر کے مطابق فیصلے میں عدالت نے نقصانات کا اندازہ لگانے اور اس کی وصولی کے لیے رہنما خطوط وضع کیے تھے جب احتجاج کے دوران عوامی املاک کی بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے۔
عدالت نے جمعہ کو کہا ’’آپ ہی شکایت کنندہ بن گئے ہیں اور آپ ہی فیصلہ کن بن گئے ہیں اور پھر آپ ملزم کی جائیداد ضبط کر رہے ہیں۔‘‘
عدالت پرویز عارف ٹیٹو نامی شخص کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی جس میں سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران عوامی املاک کو ہونے والے نقصانات کی وصولی کے لیے مظاہرین کو بھیجے گئے نوٹسز کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
سماعت کے دوران عدالت نے نوٹ کیا کہ ریاستی حکومت نے مارچ میں اتر پردیش ریکوری آف ڈیمیجز ٹو پبلک اینڈ پرائیویٹ پراپرٹی بل 2021 پاس کیا تھا۔ قانون میں کہا گیا ہے کہ احتجاج کرنے والوں میں سرکاری یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے کا قصوروار پائے جانے والوں کو ایک سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یا 5000 روپے سے 1 لاکھ روپے کے درمیان جرمانہ۔
عدالت نے پہلے مشاہدہ کیا تھا کہ اس موضوع پر نئے قانون کے پیش نظر نوٹسز پر کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل گریما پرشاد نے عدالت کو بتایا تھا کہ 833 مظاہرین کے خلاف 106 فرسٹ انفارمیشن رپورٹس درج کی گئیں اور 274 ریکوری نوٹس بھیجے گئے۔ ان نوٹسز میں سے 236 میں ریکوری کے احکامات جاری کیے گئے جب کہ 38 کیسز بند کیے گئے۔ پرشاد نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ احکامات ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹوں کے ذریعہ جاری کیے گئے تھے۔
جمعہ کو جسٹس چندر چوڑ نے ریاستی حکومت سے پوچھا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو کیسے نظرانداز کرسکتی ہے۔
جج نے کہا ’’ایک بار جب ہم نے کہا کہ یہ ایک عدالتی افسر کا کام ہے تو آپ کیسے ADMs [اضافی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس] کو فیصلہ سنانے کے لیے مقرر کر سکتے ہیں؟ عدالت کے رہنما اصول بہت واضح تھے کہ آپ طے شدہ مشینری کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے۔‘‘
پرشاد نے عرض کیا کہ نوٹس 2011 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر جاری کیے گئے تھے۔ اس پر جسٹس کانت نے کہا کہ ہائی کورٹ کا حکم سپریم کورٹ کی ہدایات کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔
جسٹس چندر چوڑ نے کہا ’’اب نئے قانون میں ایسے مقدمات کی منتقلی کا کوئی بندوبست نہیں ہے جن کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اور نئے ایکٹ کے تحت اپیل کا کوئی بندوبست نہیں۔ یہ غریب لوگ جن کی جائیدادیں قرق کی گئی ہیں ان کا کوئی مداوا نہیں ہوگا۔ آپ کو قانون کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ بالآخر مناسب عمل کی بھی کچھ ضمانت ہونی چاہیے۔‘‘
جسٹس کانت نے کہا کہ وصولی کے ان 236 دعووں کو رد کیا جا سکتا ہے اور اتر پردیش حکومت نئے قانون کے مطابق کارروائی کر سکتی ہے۔
بنچ نے ریاستی حکومت کو اپنے مشاہدات کے مطابق کارروائی کرنے کا وقت دیتے ہوئے معاملے کی سماعت 18 فروری تک ملتوی کر دی۔