سپریم کورٹ نے مرکز اور آر بی آئی سے نوٹ بندی کا ریکارڈ پیش کرنے کو کہا

نئی دہلی، دسمبر 7: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز مرکز اور ریزرو بینک آف انڈیا کو ہدایت دی کہ وہ حکومت کے 2016 کے 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کے فیصلے سے متعلق ریکارڈ پیش کریں۔

اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی نے کہا کہ دستاویزات کو سیل بند کور میں پیش کیا جائے گا۔

جسٹس ایس عبدالنذیر، بی آر گوائی، اے ایس بوپنا، وی راما سبرامنیم اور بی وی ناگارتھنا کی آئینی بنچ نے، جس نے 2016 کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی 58 درخواستوں کی سماعت کی ہے، اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بنچ نے فریقین کو 10 دسمبر تک تحریری گذارشات جمع کرانے کی اجازت دے دی۔

8 نومبر 2016 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ ہندوستان میں آدھی رات سے 500 اور 1000 روپے کے کرنسی نوٹوں کی قانونی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ مودی نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ بدعنوانی، کالے دھن اور دہشت گردی سے لڑنے کے لیے لیا گیا ہے۔

نوٹ بندی کے بعد نئے ڈیزائن والے 2000 روپے اور 500 روپے کے نوٹ متعارف کرائے گئے تھے۔

درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس مشق سے شہریوں کے متعدد آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جیسے جائیداد کا حق (آرٹیکل 300A)، مساوات کا حق (آرٹیکل 14)، کسی بھی تجارت، کاروبار یا پیشے کو جاری رکھنے کا حق (آرٹیکل 19) اور زندگی اور معاش کا حق (آرٹیکل 21)۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ صرف اس لیے خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرے گا کیوں کہ یہ اقتصادی پالیسی کا فیصلہ تھا۔

مرکزی حکومت نے اس مشق کا دفاع کرتے ہوئے 16 نومبر کو سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ نوٹ بندی ایک ’’اچھی طرح سے سوچا سمجھا فیصلہ‘‘ تھا جو پیشگی تیاری اور ریزرو بینک آف انڈیا کے ساتھ مشاورت کے بعد لیا گیا تھا۔

حکومت نے کہا تھا کہ نوٹ بندی کی مشق کے کئی فائدے ہیں جیسے جعلی کرنسی نوٹوں میں کمی، ڈیجیٹل لین دین میں اضافہ اور بے حساب آمدنی کا پتہ لگانا۔

پیر کو ایڈوکیٹ جنرل آر وینکٹ رمانی نے کہا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے عوام کو ہوئیں مشکلات کو 2016 کے اس فیصلے کی غلطی نہیں سمجھا جا سکتا۔

وینکٹ رمانی نے کہا تھا کہ جب حکومت جعلی کرنسی، کالے دھن اور دہشت گردی کی فنڈنگ جیسے مسائل کو حل کر رہی ہو تو صرف عوام کو درپیش مشکلات پر غور کرنا مناسب نہیں ہے۔

دی ہندو کی خبر کے مطابق اس کے ایک دن بعد ریزرو بینک آف انڈیا نے بھی نوٹ بندی کی مشق کی حمایت کی۔

مرکزی بینک کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈووکیٹ جے دیپ گپتا نے عدالت کو بتایا کہ ’’یہ واقعی قوم کی تعمیر کا ایک حصہ تھا۔‘‘