سوشل میڈیا کے لیے نئی گائیڈ لائنس زبان بندی کی پرانی روش
آواز دبانا جمہوریت کا گلا گھوٹنے کا ہم معنی۔نئے قوانین سے متبادل ذرائع ابلاغ سے وابستہ صحافیوں اور اہل قلم کو سخت تشویش
افروز عالم ساحل
حکومت ہند نے سوشل میڈیا سے متعلق ایک نئی گائیڈ لائنس جاری کی ہے۔ اس نئی گائیڈ لائنس کے مطابق قابل اعتراض مواد 24 گھنٹے کے اندر سوشل میڈیا سے ہٹانا ہو گا۔ یہی نہیں بلکہ اگر آپ ٹویٹر اور واٹس ایپ جیسے فلیٹ فارمس پر ملک کی خود مختاری اور سلامتی کے خلاف کچھ لکھتے ہیں اور آپ کا جرم ثابت ہوتا ہے تو آپ سزا کے مستحق ہوں گے۔ یہی نظام ہندوستان کی سالمیت اور اتحاد کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی نظام، دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات، عصمت دری اور جنسی استحصال جیسے معاملات پر بھی نافذ ہو گا۔
یہ نئی گائیڈ لائنس حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد تیار کی ہیں۔ حکومت کے ذریعہ یہ نئی گائیڈ لائنس آتے ہی سوشل میڈیا پر یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ کیا حکومت میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب اس نئی گائیڈ لائنس کے سہارے آزاد اور متبادل میڈیا (سوشل میڈیا) پر شکنجہ کسنے کی تیاری میں ہے؟ کیا حکومت کی نیت سنسرشپ کی ہے؟ ہفت روزہ دعوت نے میڈیا کی دنیا کے کچھ سینیئر صحافیوں سے اس معاملہ میں خاص بات چیت کی۔
معروف سینئر صحافی پرشانت ٹنڈن کا کہنا ہے کہ حکومت چین اور شمالی کوریا کی طرح ہندوستان کو بھی ’انفارمیشن آئی لینڈ‘ بنانا چاہتی ہے۔ کسان آندولن پر ریانہ اور گریٹا تھنبرگ کے ٹویٹس سے سرکار ہل گئی۔ یہ ٹویٹر کے جواب میں ’کو ایپ‘ لائے، لیکن یہ چلا نہیں۔ پوری سرکار اس ایپ پر چلی گئی، لیکن عوام نہیں گئی۔ اب ان کے پاس سوشل میڈیا پر کنٹرول کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اور اب کنٹرول کی نیت سے ہی یہ نئی گائیڈ لائنس لائی گئی ہیں۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اس سلسلے میں عوام کا تعاون نہیں ملے گا اور حکومت اس گائیڈ لائنس کو نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہو گی‘۔
طویل گفتگو میں پرشانت ٹنڈن نے کہا کہ ’ٹی آر پی گھوٹالہ کے بعد میڈیا کی پول کھل چکی ہے۔ سوشل میڈیا میں ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ براڈکاسٹ میڈیا کی کریڈیبیلیٹی ختم ہوچکی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ کسان آندولن میں ’گودی میڈیا‘ کے لوگوں کو بھگا دیا گیا۔ اسی میڈیا میں دن رات ان کسانوں کے خلاف پروپیگنڈا چل رہا ہے، اس کے باوجود یہ آندولن جاری ہے۔ آپ شاہین باغ تحریک کو دیکھ لیجیے کہ اس کو ختم کرنے کے لیے کتنی سازشیں کی گئیں، لیکن شاہین باغ تحریک چلتی رہی۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو کوالیٹی جرنلزم ہو رہا ہے وہ اسی سوشل میڈیا میں ہو رہا ہے اور یہ عوام کی رائے کو متحرک کر رہا ہے جس سے سرکار کی گھبراہٹ بڑھ گئی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ جو ’اختلاف رائے کی آواز‘ سوشل میڈیا میں کھل کر سامنے آرہی ہے وہ اب کسی بھی قیمت پر آنے نہ پائے‘۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں سینیئر صحافی قربان علی نے کہا کہ ’میں کسی بھی میڈیا پر کسی بھی طرح کے کنٹرول کے خلاف ہوں۔ جواہر لال نہرو کا بھی کہنا تھا ’’میڈیا چاہے کتنا غیر ذمہ دار ہوجائے میں اس پر کسی بھی طرح کی روک نہیں لگاؤں گا نہ اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کروں گا اور کسی بھی جمہوریت کے لیے میڈیا کا آزاد رہنا ہر حال میں ضروری ہے۔ اس کے بغیر آزادی جمہوریت ہو ہی نہیں سکتی۔ جہاں تک سوشل میڈیا کا معاملہ ہے تو یہ کچھ معاملوں میں بے لگام ضرور ہے۔ مثال کے طور پر بنگلور میں اسی سوشل میڈیا کا استعمال کر کے شمال مشرق کے لوگوں کے خلاف ماحول بنایا گیا جس کے نتیجے میں ان لوگوں کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ جس کو جو خبر ملی وہ بغیر کسی تحقیق کے وہاٹس ایپ پر ڈالتا گیا۔ ایسے میں اس کے لیے کوئی گائیڈ لائنس بنے تب تو درست ہے لیکن اس کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی جائے وہ میرے خیال میں درست نہیں ہو گا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح سے اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے وقت ’نہ کوئی اپیل، نہ کوئی وکیل اور نہ ہی کوئی دلیل‘ کی پالیسی پر کام کرتے ہوئے لاکھوں لوگوں کو جیل کے اندر ڈال دیا۔ ابھی بھی جو ماحول ملک میں بن رہا ہے وہ بھی اسی طرح کا ہے۔ حکومت کو جن کی باتیں اچھی نہیں لگیں گی یا حکومت کو جو پوسٹ اپنے خلاف محسوس ہوگا اسے پوسٹ کرنے والوں کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ آپ دیکھ لیجیے کہ ملک میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ جبکہ حال کے دنوں میں عدالت کے کچھ فیصلے آئے ہیں جن میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اختلاف رائے رکھنا ’ملک سے غداری‘ نہیں۔ اگر آپ حکومت کے خلاف ہیں تو وہ بھی ’ملک سے غداری‘ نہیں کہلائے گا۔ اس کے باوجود اب یہ ہو رہا ہے کہ اگر آپ حکومت کے ساتھ ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ آپ ’ملک کے غدار‘ ہیں، درمیان کی تو کوئی بات ہی نہیں ہو سکتی۔
سینئر صحافی نوین کمار کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے بارے میں یہ نئی گائیڈ لائنس عام لوگوں کی آواز کا گلا گھونٹنے کی کوشش ہے۔ وہ عام لوگ جو اپنی معمولی حیثیت میں عام لوگوں کے حقوق کی بات کر رہے ہیں اور جن کا سرکار کو بنانے میں اصل حصہ ہے ان کی آواز کو دبانا اور ریگولیٹ کرنا حکومت کا اصل مقصد ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ میڈیا چاہے وہ اخباری ہو یا ٹی وی، بہت بڑی پونجی کا کھیل ہے۔ اس کو شروع کرنے کے بارے میں عام لوگ سوچ ہی نہیں سکتے اس کو حکومت پوری طرح اپنے قابو میں کر چکی ہے اور اس کو قابو میں کرنا آسان بھی ہے۔ لیکن جس کو ہم سوشل میڈیا کہتے ہیں اس کے ذریعہ بغیر کسی بڑی پونجی کے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں اس کو قابو میں لانا مشکل ہے کیونکہ ان کو سرکاروں یا کاروباریوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ان کو بڑی پونجی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ تو سوشل میڈیا اپنی آواز کیوں بیچے گا سمجھوتہ کیوں کرے گا؟ حکومت کو اصل ڈر یہیں تھا اسی لیے حکومت اس کو کنٹرول کرنا چاہتی تھی اس لیے اس نے یہ کام سپریم کورٹ کا نام لے کر کیا ہے۔
آپ کو بتا دیں کہ سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ ونیت جندل کے ذریعہ دائر ایک پی آئی ایل کی سنوائی کرتے ہوئے یکم فروری 2021 کو مرکزی حکومت سے ٹویٹر اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے لیے باقاعدہ ایک قانون نافذ کرنے سے متعلق جواب طلب کیا اور ساتھ ہی ہدایت دی کہ وہ اس بابت ایک گائیڈلائنس بنائے۔
ایڈووکیٹ ونیت جندل کی اس پی آئی ایل میں کہا گیا تھا کہ روایتی میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا کی رسائی بہت زیادہ ہے۔ اس پی آئی ایل میں ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے کچھ واقعات کا بھی ذکر کیا گیا جس میں سوشل میڈیا کا غلط استعمال کیا گیا تھا۔ اس پی آئی ایل میں مرکزی حکومت کو یہ ہدایت دینے کی گزارش کی گئی تھی کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت انگیز مواد اور فیک نیوز پھیلانے میں ملوث لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے قانون وضع کرے۔
اس پی آئی ایل میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ حکام کو ایک ایسا طریقہ کار وضع کرنے کی ہدایت دی جائے جو مختصر وقت کے اندر فیک نیوز اور نفرت انگیز مواد کو خود بخود ہٹا دے۔ اس سے قبل سال 2019 میں ستمبر کے مہینے میں تمل ناڈو پولیس کے ذریعے داخل ایک معاملے میں بھی سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے سوال کیا تھا کہ وہ کب تک سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے گائیڈ لائنس لائے گی۔
سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد اب حکومت ہند نے اس سے متعلق نئی گائیڈلائنس 25 فروری 2021 کو اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر اور مواصلات اور آئی ٹی کے وزیر روی شنکر پرساد کے ذریعہ جاری کی ہے۔ اس موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے کہا کہ ہم نے کوئی نیا قانون نہیں بنایا ہے۔ ہم نے یہ قانون موجودہ آئی ٹی ایکٹ کے دائرے میں رہتے ہوئے بنایا ہے۔ ہم پلیٹ فارمس بھروسہ کرتے ہیں کہ وہ قوانین پر پورے طریقے سے عمل کریں گے۔ ان قوانین کا فوکس سیلف ریگولیشن پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ آن لائن پلیٹ فارم پر ڈالے جانے والے کنٹینٹ کے سلسلے میں گائیڈلائنس بنائیں۔ اس کی ہدایت پر حکومت نے یہ گائیڈلائنس تیار کی ہیں۔ سوشل میڈیا کے لیے بنائے گئے اہم قوانین کو تین ماہ کے اندر نافذ کیا جائے گا تاکہ وہ اپنے سسٹم میں اصلاح کر سکیں۔ باقی ضابطے نوٹیفائی کیے جانے کے دن سے نافذ ہوں گے۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت جمہوریہ کے ایک لازمی عنصر کی حیثیت سے ہر ہندوستانی پر تنقید اور اس سے متفق ہونے کے حق کو قبول کرتی ہے اور اس کا احترام کرتی ہے۔ ہندوستان سب سے بڑی کھلی انٹرنیٹ سوسائٹی ہے اور حکومت سوشل میڈیا کمپنیوں کو ہندوستان میں کام کرنے، تجارت کرنے اور منافع کمانے کے لیے خیر مقدم کرتی ہے۔ تاہم انہیں ہندوستان کے آئین اور قوانین کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔
روی شنکر پرساد کے مطابق ہندوستان میں واٹس ایپ کے 53 کروڑ، فیس بک کے زائد از 40 کروڑ اور ٹویٹر پر ایک کروڑ سے زائد یوزر ہیں۔ ہندوستان میں ان کا کافی استعمال ہوتا ہے لیکن جو اندیشے ہیں ان پر کام کرنا ضروری ہے۔
پاکستان نے بنایا ایک ایسا ہی قانون، جانیے وہاں کیا ہوا
پاکستان میں بھی وہاں کی وفاقی حکومت نے 28 جنوری 2020 کو سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے قواعد کی منظوری دی ہے۔ جس کے خلاف عدالت میں ایڈووکیٹ احسن ستی نے اپنے وکیل بیرسٹر جہانگیر خان جدون کے ذریعے درخواست دائر کی ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا کہ معاشرے میں آزادانہ روابط رکھنے کی آزادی کا معیار معاشرے کی ترقی کے ساتھ جمہوریت اور معاشرے کی مضبوطی پر گہرا اثر رکھتا ہے۔ 1948 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور شدہ یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس کے مطابق آزادی اظہار رائے ہر ایک کا حق ہے، اس حق میں بغیر کسی مداخلت کے رائے رکھنے اور سرحدوں سے قطع نظر کسی بھی میڈیا کے ذریعے غیر جانب دار معلومات وصول کرنا شامل ہے۔
اس معاملے میں دسمبر 2020 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنقید، آزادی اظہار کا اہم جزو ہے اس لیے اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہی نہیں بلکہ سماعت کے دوران اس عدالت نے پی ٹی اے کے وکیل کو بھارت کی مثال دینے سے روک دیا اور کہا کہ یہاں بھارت کا ذکر نہ کریں کیونکہ ہم اس حوالے سے بڑے واضح ہیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر بھارت غلط کر رہا ہے تو کیا ہم بھی غلط کرنا شروع کر دیں؟ ایسے رُولز بنانے کی تجویز کس نے دی اور کس اتھارٹی نے انہیں منظور کیا ہے؟ چیف جسٹس نے یہ بھی ریمارکس کیے کہ اگر سوشل میڈیا رُولز سے تنقید کی حوصلہ شکنی ہو گی تو یہ احتساب کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ تنقید کی حوصلہ افزائی کریں نہ کہ حوصلہ شکنی۔ حکومت ہو یا کوئی اور وہ قانون اور تنقید سے بالاتر نہیں ہے۔ ایک چیز یاد رکھیں کہ یہاں ایک آئین اور جمہوریت ہے اور جمہوریت کے لیے تنقید بڑی ضروری ہے۔ اکیسویں صدی میں تنقید بند کر دیں گے تو نقصان ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ تنقید سے کوئی کیوں خوف زدہ ہو؟ ہر ایک کو تنقید کا سامنا کرنا چاہیے یہاں تک کہ عدالتی فیصلوں پر بھی تنقید ہو سکتی ہے صرف شفاف ٹرائل متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ عدالت احتساب سے کیوں ڈرے؟ نہ تو کوئی قانون سے بالا تر ہے اور نہ ہی تنقید سے بالاتر۔ لیکن جب آپ سقم چھوڑیں گے تو مسائل بھی پیدا ہوں گے اور پاکستان بار کونسل کے اعتراضات مناسب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ رولز بھی مائنڈ سیٹ کی نشاندہی کر رہے ہیں، جب عدالتی فیصلے پبلک ہو جائیں تو اس پر تنقید سے توہین عدالت بھی نہیں ہوتی۔
***
ڈیجیٹل میڈیا کا رجسٹریشن ہو مگر پریس ایکٹ میں ترمیم کر کے میڈیا کونسل بنا کر کیا جانا چاہیے۔ موجودہ حکومت او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر گائیڈ لائن کے بہانے حکومت کی تنقید کرنے والوں کی آوازیں بند کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، بڑے گروپ تو سرکار سے عدالتی لڑائی کریں گے لیکن چھوٹے گروپ اور انفرادی آوازیں یک لخت بند کر دی جائیں گی۔ سرکار کو اسے لانے سے قبل عوامی سطح پر مشورہ کرنا تھا جو نہیں کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ کی وزارت رجسٹر کرے گی، اگر کسی کو رجسٹریشن نہیں دیا جائے گا تو وہ کس دروازے پر دستک دے؟ ہم رجسٹریشن کے خلاف نہیں ہیں لیکن بولنے کی آزادی کو دبانے کے خلاف ہیں اور اس فیصلے میں اس بات کا اندیشہ بہت ہے۔
اشرف علی بستوی، چیف ایڈیٹر ایشیا ٹائمز، نئی دلی
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021