سیاست دان’ امرت کال‘ میں عوام’ ویش کال‘ میں

کیا دولت کی انتہائی غیر منصفانہ تقسیم امرت کال کہلائے گی؟

زعیم الدین احمد حیدرآباد

ہمارا ملک آزادی کے پچھتر سال پار کرتے ہی امرت کال میں داخل ہوگیا ہے جو اگلے پچیس سال تک چلتا رہے گا، یعنی ہم اس وقت امرت کال میں جی رہے ہیں اور یہ امرت کال اگلے پچیس سالوں تک جاری رہے گا۔ اصل میں امرت سنسکرت لفظ ہے جس کے معنی اکسیر یا آب حیات کے ہیں یعنی ایسا مشروب جو زندگی میں مٹھاس گھول دے، جس کے پینے سے روح کو سکون ملے۔ کال کے معنی زمانہ یا دور کے ہیں۔ اس طرح امرت کال کے معنی ہوئے امن و عافیت کا زمانہ یا خوشحالی کا دور وغیرہ۔ حکومت کے خیال میں اس وقت ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہے، آسمان سے ہن برس رہا ہے، لوگ خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں، ہر طرف امن ہی امن ہے سکون ہی سکون ہے۔ لڑائی جھگڑے دنگے فساد ماب لینچنگ قتل و غارت گریاں عصمت ریزیاں رشوت خوریاں ظلم و زیادتیاں وغیرہ سب ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں شادمانیاں ہی شادمانیاں ہیں۔ کیا مسلمان کیا ہندو کیا سکھ اور کیا عیسائی سب لوگ گلے مل رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں کیوں کہ ملک ترقی کی آخری چوٹی پر پہنچ چکا ہے اور اب مزید ترقی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ لوگ اس قدر خوش حال ہو گئے ہیں کہ ہاتھوں میں نوٹوں کی گڈیاں لے کر غریبوں کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں تاکہ ان کی مدد کر سکیں لیکن انہیں کوئی غریب نہیں ملتا اس لیے وہ اپنے پڑوسی ممالک کو امداد دینے کے لیے نکل پڑے ہیں۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ یہ ساری چیزیں ہماری سامنے ہورہی ہیں لیکن کچھ لوگ ہیں کہ انہیں یہ نظر ہی نہیں آ رہا ہے۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ ہماری آنکھ سے دیکھیں کہ لوگ کس طرح خوشی سے لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں، آسمان سے برکتیں نازل ہو رہی ہیں اور زمین سے رزق ابل رہا ہے لیکن ان کو کچھ دکھائی نہیں دیتا، ان کو صرف تنقید کرنا آتا ہے۔ تنقید کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ لوگوں کے پاس خوشحالی آئی ہے تبھی تو انہوں نے کامیابی کا سہرا دوبارہ ہمارے سر باندھا ہے۔ یہ حکومت کا موقف ہے جبکہ تمام ہی حزب اختلاف کی جماعتوں کو شکایت ہے کہ ملک کی معاشی حالت بدترین ہوگئی ہے، عوام معاشی طور پر بد حال ہوگئے ہیں، روزگار ختم ہو رہے ہیں، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، پٹرول، ڈیزل، پکوان گیس، یہاں تک کہ نمک کے دام بھی آسمان کو چھونے لگے ہیں، چھوٹی صنعتیں دم توڑتی جارہی ہیں، بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں، چند مخصوص سرمایہ دار ہی پھل پھول رہے ہیں اور انہوں نے حکومت کی نگرانی میں لوٹ مچا رکھی ہے، کیا یہی امرت کال ہے؟ اگر یہی امرت کال ہے تو ہمیں ہمارا پرانا ویش کال ہی لوٹا دو، ہمیں ایسا امرت کال نہیں چاہیے جو ویش سے بھی بدتر ہے۔
ہمارے ملک کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن نے پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرتے ہیں ہوئے کہا تھا کہ یہ امرت کال کا پہلا بجٹ جو میں یہاں پیش کر رہی ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک نے مختلف میدانوں میں بڑی اچھی ترقی کی ہے، مثال کے طور پر شعبہ مواصلات میں اس نے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے ہیں، شعبہ طب میں بھی دنیا کو اچھی دوائیں فراہم کی ہیں، شدید معاشی دباؤ یعنی دنیا میں معاشی بد حالی کے باوجود ہمارا ملک کسی حد تک کھڑا ہوا ہے اور وہ بھی اتنے بڑے پیمانے پر لوٹ کے باوجود۔ واقعی یہ قابل تعریف ہے۔ لیکن ہمیں اس کے دوسرے پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے، اگر ہم اس دوسرے پہلو کو نظر انداز کردیں گے تو ہمیں حقیقت حال کا علم نہیں ہوگا، اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ منفی پہلوؤں پر گفتگو کرنے کا کیا فائدہ، نکتہ چینی سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا وغیرہ۔ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کا مزاج صرف میٹھی میٹھی باتیں سننے کا عادی ہوتا ہے، وہ حقیقت حال سے آگاہ ہونا نہیں چاہتے۔ جب کسی چیز کے دوسرے پہلو پر نظر نہیں رہے گی تو اصل پہلو سے واقفیت کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ غم نہیں ہوگا تو خوشی کا احساس بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس لحاظ سے کسی بھی چیز کے دونوں پہلوؤں کو دیکھنا چاہیے، ہر طرف امرت کال کے دعوے کیے جا رہے ہیں تو دیکھنا چاہیے کہ آخر ان دعوؤں کی حقیقت کیا ہے۔ خوابوں کا بھارت جتنا ضروری ہے حقیقی بھارت بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
سب سے پہلے یہ کہ ملک میں معاشی عدم مساوات اپنی آخری حد کو پہنچ گیا ہے۔ ملک کی ایک فیصد آبادی ملکی دولت کے چالیس فیصد حصہ پر قابض ہے، یعنی ملک کی تقریبا آدھی دولت صرف ایک فیصد لوگوں کے پاس مرکوز ہو کر رہ گئی ہے۔ دوسرا یہ کہ باقی ساٹھ فیصد دولت چالیس فیصد لوگوں کے پاس بھی نہیں ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پچاس فیصد عوام کے پاس محض تین فیصد دولت بٹی ہوئی ہے، کیا یہ دولت کی انتہائی غیر منصفانہ تقسیم امرت کال کہلائے گی؟
دوسری بات یہ ہے کہ ملک میں آج بھی بے روزگاری سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح 7.5 فیصد پائی جاتی ہے۔ کیا یہ اعداد و شمار امرت کال کی نشانیاں ہیں؟
تیسری بات یہ کہ بازار میں کام کرنے والوں کی طلب میں روز بروز کمی واقع ہوتی جا رہی ہے، یعنی بازار میں ملازموں کی، مزدوروں کی اور ماہرین کی ضرورت میں قابل لحاظ حد تک کمی واقع ہوئی ہے، اس کی وجہ ٹکنالوجی کو کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ انسانی ضرورت اور اس محنت کی جگہ اس دور جدید میں مشینوں نے لے لی ہے۔ جنوری 2020 سے اکتوبر 2022 کے دورانیہ میں پینتالیس لاکھ مرد اور چھیانوے لاکھ خواتین نے ملازمین کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا یعنی تقریبا ایک کروڑ اکتالیس لاکھ لوگوں کی نوکریاں ختم ہوئیں۔ یہ نہایت چونکا دینے والی بات ہے، لیکن حکومت کی اور ان کے حواریوں کی نظر میں عوام امرت کال میں جی رہے ہیں۔
چوتھی بات یہ کہ ملک بھر میں 47.5 کروڑ لوگ ملازمت یا مزدوری کے قابل ہیں، وہ اس قابل ہیں کہ کہیں بھی اپنی خدمات دے سکیں، لیکن افسوس کہ ان میں سے اڑتالیس فیصد لوگوں کو ہی کام مل پاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ تقریباً پچیس کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس عمر و صلاحیت ہونے کے باوجود بے روزگار ہیں یا انہیں کام نہیں مل رہا ہے۔ کیا یہی امرت کال ہے؟
پانچویں بات یہ کہ ملک کی ستانوے فیصد خواتین آج خون کی کمی کا شکار ہیں اور جسمانی طور پر کمزور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو جتنی مقدار میں غذا ملنی چاہیے اتنی میسر نہیں ہے، تبھی تو یہ خون کی کمی کا شکار ہیں۔ اسی طرح بچوں میں بھی تغذیہ کی کمی پائی جاتی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں تقریباً چھتیس فیصد بچوں میں تغذیہ کی کمی پائی گئی ہے، یعنی ان کو اس عمر میں جتنی غذا ملنی چاہیے اتنی نہیں مل رہی ہے، جس کے نتیجے میں عمر کے لحاظ سے ان کا جسم نہیں بڑھ رہا ہے۔ یہ ہے ہمارے ملک کا "امرت کال”
چھٹی بات، بین الاقوامی سطح پر بھکمری کے اشاریہ میں ہمارے درجہ کیا ہے؟ ایک سو بیس ممالک کی فہرست میں ہمارا درجہ جو کل ایک سو ایک تھا اب ایک سو سات پر پہنچ گیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا امرت کال میں ایسا ہی ہوتا ہے، کیا اسی کو امرت کال کہا جاتا ہے؟
ساتویں بات: ہمہ جہتی غربت کے اشاریہ میں ہمارے ملک کی کیا صورت حال ہے؟ بین الاقوامی ہمہ جہت غربت کے اشاریہ کے مطابق ہمارے ملک کی سولہ فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے، یعنی تئیس کروڑ عوام سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ ہے ہمارا "امرت کال”
آٹھویں بات: گزشتہ نو سالوں سے سالانہ ایک لاکھ افراد ہندوستانی شہریت چھوڑ رہے ہیں اور دوسرے ملکوں کی شہریت اختیار کر رہے ہیں۔ سال 2022 میں تقریباً دو لاکھ پچیس ہزار لوگوں نے ہندوستانی شہریت چھوڑ دی۔ معلوم نہیں کہ لوگ "امرت کال” والے ملک کو کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟
نویں بات یہ ہے کہ آج بھی ملک میں ایک لاکھ سترہ ہزار اسکول ایسے ہیں جہاں محض ایک ہی ٹیچر بچوں کو پڑھاتا ہے، یعنی سنگل ٹیچر والا اسکول۔ جس دن ٹیچر اسکول سے غیر حاضر ہوا اس دن تمام بچوں کو بھی چھٹی۔ یہ بھی "امرت کال” کی ایک عظیم الشان نشانی ہے۔
اس طرح اور بھی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ہمیں ان کی فہرست بنانی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ہمارے ملک کی حقیقی صورت حال کیا ہے۔ جس دن ہم ان سوالات کے اطمینان بخش جوابات پالیں گے تو ہم بھی یقین کریں گے کہ واقعی ہم امرت کال میں جی رہے ہیں۔ لیکن یہاں تو معاملہ الٹا نظر آ رہا ہے، اتنا الٹا کہ اسے امرت کال کے بجائے ویش کال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
***

 

***

 حزب اختلاف کی جماعتوں کو شکایت ہے کہ ملک کی معاشی حالت بدترین ہوگئی ہے، عوام معاشی طور پر بد حال ہوگئے ہیں، روزگار ختم ہو رہے ہیں، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، پٹرول، ڈیزل، پکوان گیس، یہاں تک کہ نمک کے دام بھی آسمان کو چھونے لگے ہیں، چھوٹی صنعتیں دم توڑتی جارہی ہیں، بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں، چند مخصوص سرمایہ دار ہی پھل پھول رہے ہیں اور انہوں نے حکومت کی نگرانی میں لوٹ مچا رکھی ہے، کیا یہی امرت کال ہے؟ اگر یہی امرت کال ہے تو ہمیں ہمارا پرانا ویش کال ہی لوٹا دو، ہمیں ایسا امرت کال نہیں چاہیے جو ویش سے بھی بدتر ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023