شرجیل امام کی تقاریر میں عوامی انتشار پیدا کرنے، تشدد کو ہوا دینے کا رجحان واضح تھا: عدالت

نئی دہلی، جنوری 26: دہلی کی ایک عدالت نے کہا ہے کہ دسمبر 2019 اور جنوری 2020 میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران کارکن شرجیل امام کی طرف سے کی گئی تقریریں بنیادی طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ ان میں عوامی انتشار پیدا کرنے اور تشدد کو ہوا دینے کا رجحان تھا۔

قومی راجدھانی کی ایک سیشن عدالت نے پیر کو امام کے خلاف سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں فرد جرم عائد کی تھی۔ تفصیلی آرڈر منگل کو دستیاب کرایا گیا۔

امام کے خلاف مقدمہ ان چار تقاریر سے متعلق ہے جو انhوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی، بہار کے گیا شہر اور مغربی بنگال کے آسنسول میں کی تھیں۔ امام پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی دفعات اور بغاوت سمیت تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت الزام لگایا گیا ہے۔

اپنے حکم میں ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے مشاہدہ کیا کہ تقریریں کرنے کی ظاہری وجہ شہریت ترمیمی قانون اور شہریوں کے قومی رجسٹر سے متعلق معاملات تھے، لیکن امام نے کئی دیگر واقعات کا بھی حوالہ دیا تھا۔

عدالت نے کارکن کے خلاف الزامات عائد کرنے کے اپنے حکم میں کہا کہ ’’تقریر ہندوستان کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کو بھی چیلنج کرتی نظر آتی ہے۔ یہ ریاست کے قانونی اداروں کے لیے نفرت/توہین پیدا کرتی ہے اور انھیں غیر قانونی طریقوں سے چیلنج کرتی ہے۔‘‘

عدالت نے کہا کہ امام اپنی تقاریر کے ذریعے مسلمانوں پر زور دے رہے تھے کہ وہ قانون کی حکمرانی میں خلل ڈالنے کے لیے اکٹھے ہو جائیں، ملک بھر میں چکہ جام کے ذریعے ’’خراب ارادے‘‘ کے ساتھ عوامی سہولیات اور ضروری اشیاء کی خدمات میں خلل ڈالیں۔

حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ امام مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ آئین کی وجہ سے پیچھے رہ گئے۔

حکم میں کہا گیا ہے کہ ’’انھوں نے آئین ہند کے تقدس کو مزید چیلنج کیا اور مسلمان لوگوں کو یہ ماننے کے لیے گمراہ کیا کہ اسے ہندوستان کے پنڈتوں یعنی دوسری کمیونٹی کے فرد نے تیار کیا ہے۔‘‘

امام کے خلاف ان کی تقاریر کے بعد دہلی کے کچھ حصوں میں تشدد سے متعلق چارج شیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے زور دے کر کہا کہ تشدد ان کی تقاریر کا نتیجہ تھا۔

عدالت نے مزید کہا کہ یہ کہنا درست ہے کہ امام نے اپنی تقریروں کے ذریعے ہر سرکاری ادارے، آئین اور جمہوریت اور سیکولرزم کے نظریات پر تنقید کی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ’’ملزم نے اپنی تقاریر میں بابائے قوم کے خلاف بھی نازیبا کلمات کہے ہیں۔‘‘