شراب خانوں پر پابندی ضروری

معاشرہ کا ہر فرد سماجی ناسور کے خلاف کھڑا ہو

زعیم الدین احمد حیدرآباد

شراب کی تباہ کاریوں سے کون واقف نہیں ہے، ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ شراب ایک ایسی لعنت ہے جس میں مبتلا شخص نہ صرف اپنی دنیا خراب کر لیتا ہے بلکہ اپنی آخرت بھی برباد کرلیتا ہے۔ اس کا عادی نہ صرف معاشی تباہی کا شکار ہوجاتا ہے بلکہ وہ اخلاقی اور جسمانی طور پر بھی تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ شراب کے مضر اثرات پینے والے پر ہی مرتب نہیں ہوتے بلکہ اس کے قریبی رشتہ داروں کو بھی شدید متاثر کرتے ہیں۔ شراب کے عادی لوگ سے نہ صرف اس کے گھر والے مبتلائے عذاب رہتے ہیں بلکہ اس کے رشتہ دار، دوست واحباب، اڑوس پڑوس، محلہ بلکہ سارا سماج اس سے پریشان رہتا ہے۔ دوسری طرف جو شخص اس کا عادی ہوتا ہے وہ ذہنی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جب تک وہ شراب پی نہیں پی لیتا اذیت میں مبتلا رہتا ہے۔ اور جب وہ شراب پی لیتا ہے تو انسانیت سے گری ہوئی حرکتیں کرنے لگتا ہے، کسی نالے یا گٹر میں گر جاتا ہے، کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں بیٹھ جاتا ہے، گالی گلوچ کرنے لگتا ہے، فحش حرکات کرنے لگتا ہے وغیرہ۔ اسے نہ اپنے آپ کا خیال ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے گھر والوں کا، وہ اسفل سافلین ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شراب کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے اور اسے ام الخبائث یعنی ساری برائیوں کی جڑ قرار دیا ہے۔ اسلام میں صرف شراب ہی نہیں بلکہ ہر وہ چیز جو انسانی دماغ میں فتور پیدا کرتی ہے یا نشہ پیدا کرتی ہے حرام ہے۔
لیکن بدقسمتی سے آج شراب کو کھلے عام بیچا جا رہا ہے، اس کو عالی شان ہوٹلوں میں فراہم جاتا ہے۔ کیا مرد کیا عورت، کیا امیر کیا غریب، یہاں تک کہ نو عمر بھی اس لت میں پڑے ہوئے ہیں۔ جو اس کا عادی بن جاتا ہے وہ انتہائی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ لوگ شراب کی دکان کے سامنے اس طرح قطار لگائے رہتے ہیں جیسے وہ راشن کی دکان ہو۔ عوام میں اور خاص طور پر نوجوانوں اس کے استعمال کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، نوجوان شراب کے استعمال پر فخر محسوس کر رہے ہیں، وہ نہ صرف شراب بلکہ منشیات کی لت میں بھی گرفتار ہوتے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم سب اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہمارے ملک میں ریاستی حکومتیں شراب کا کاروبار کرتی ہیں، اس کا باضابط کاروباری نظام ہے جسے محکمہ آبکاری کے ذریعے چلایا جاتا ہے، اس محکمے کے تحت طے پاتا ہے کہ کس مقام پر بربادی کی یہ دکان لگانا ہے، اس لعنت کو کتنے میں بیچنا ہے۔ دکانوں کو باضابطہ ہراج کیا جاتا ہے، اس کے لیے ٹینڈرز طلب کیے جاتے ہیں، اس کے لیے حکومت باضابط آبکاری پالیسی مرتب کرتی ہے، قوانین مدون کرتی ہے، اتنی باضابطگی کے ساتھ شاید ہی حکومت کا کوئی اور ادارہ کام کرتا ہو، نہ محکمہ تعلیم نہ محکمہ طب۔ اتنا منظم کوئی اور ادارہ نہیں ہے جتنا آبکاری کا ادارہ ہے۔ آخر کیوں نہ ہو، یہ محکمہ حکومت کا خزانہ جو بھرتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ حکومت تلنگانہ نے 2023 تا 2025 تک شراب کی دکانوں کے لیے ہراج سے دو ہزار پانچ سو کروڑ روپے کمائے ہیں۔ ریاست کی جملہ تینتیس اضلاع میں دو ہزار چھ سو بیس شراب کی دکانیں کھولنے کے لیے حکومت نے ٹینڈر طلب کیا گیا تھا۔ فی دکان دو لاکھ روپے ٹینڈر رکھا گیا جو کہ ناقابل واپسی رقم ہوتی ہے۔ اس کے لیے بھی ایک لاکھ پچیس ہزار سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں جو کہ ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد سب سے بلند ترین سطح ہے، یعنی ایک لاکھ پچیس ہز درخواستیں دو لاکھ روپے کے حساب سے دو ہزار پانچ سو کروڑ روپے ہوتے ہیں، اتنی بڑی رقم حکومت کے خزانے میں محض ٹینڈروں کے فارم بیچ کر جمع ہوئی، اور محض پندرہ دن میں یہ درخواستیں موصول ہوئیں۔ جبکہ سال 2021 تا 2022 میں انہتر ہزار درخواستیں وصول ہوئی تھیں، یعنی اس سال دگنی درخواستیں موصول ہوئیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ریاست تلنگانہ کس قدر شراب کی فروخت کو فروغ دے رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی پشت پناہی سے شراب کے کاروبار کو فروغ دیا جارہا ہے جس کی وجہ سے شراب کی فروخت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں ریاست تلنگانہ میں شراب سے حاصل ہونے والی رقم میں دگنا کا اضافہ ہوا ہے۔ سال 2015-16 میں ریاست کو شراب سے تقریباً ساڑھے بارہ ہزار کروڑ روپے وصول ہوئے تھے جو 2021-22 میں بڑھ کر ساڑھے پچیس ہزار کروڑ روپے تک پہنچ گئے۔ اور اگلے سال یعنی 2022-23 میں تخمینہ لگایا جا رہا ہے کہ یہ رقم بڑھ کر تیس ہزار کروڑ روپے ہوجائے گی۔ ایک آبکاری اہلکار کے مطابق شراب کی دکانیں الاٹ کرنے کے لیے ضلع واری اساس پر قرعہ اندازی کے ذریعہ دکان دار کو چنا جاتا ہے، جس دکان دار کو دکان کھولنے کی سند ملتی ہے اسے دو سال تک دکان چلانے کی اجازت ہوتی ہے۔ دیکھیے کتنا منظم طریقہ ہے لوگوں کو برباد کرنے کا۔ اس وقت شہر حیدرآباد میں ہی سات سو شراب خانے موجود ہیں۔
دکانوں کو لائسنس دینے کا قانون بھی طے ہے۔ آبادیوں کے تناسب سے شراب خانے کی فیس طے ہوتی ہے۔ جس جگہ شراب خانہ کھولا جارہا ہے اس علاقے میں اگر پانچ ہزار افراد رہتے ہیں تو اس کی فیس پچاس لاکھ روپے، اور جہاں پانچ ہزار سے پچاس کی آبادی رہتی ہے اس جگہ شراب خانہ کھولنے کی فیس ایک سال کے لیے پچپن لاکھ روپے، اس طرح یہ تناسب بڑھتے بڑھتے ایک کروڑ روپے تک ہو جاتا ہے۔ اس میں بھی مختلف طبقوں کے لیے تحفظات ہیں جیسے گوڈ طبقے کو پندرہ فیصد، ایس سی طبقے کو دس فیصد اور یس ٹی طبقے کو پانچ فیصد تحفظات ہیں۔ شراب کا کاروبار اس وقت محض ایک کاروبار نہیں بلکہ کارپوریٹ بن گیا ہے۔ اس میں بھاری سرمایہ کاری ہونے لگی ہے، اور اس کے ساتھ ایک شراب مافیا بھی بن گیا ہے جو حکومتوں کی سرپرستی میں پھلتا پھولتا جارہا ہے۔ اس مافیا کی اتنی دہشت بیٹھ گئی ہے کہ جو لوگ اس لعنت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ان کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ یہ جہاں چاہتے ہیں وہاں شراب خانے کھول دیتے ہیں۔ قانون تو یہ ہے کہ کسی عبادت گاہ یا اسکول یا دواخانے کے قریب شراب خانہ نہ کھولا جائے، لیکن آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان قوانین کی کوئی پاسداری نہیں کی جاتی، اور حکومت کے بنائے ہوئے قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مساجد کے قریب شراب خانے کھولے جا رہے ہیں، اسکولوں کے قریب شراب خانے موجود ہیں۔ اس مافیا کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ انہیں پولیس کا تک خوف نہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جو شراب کے خلاف مہم چلاتا ہے یا شعور بیداری کا کام کرتا ہے، یہ لوگ اس کی جان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔
محترم قارئین! جیسا کہ عرض کیا گیا کہ شراب نوشی سے نہ صرف فرد تباہی کا شکار ہوجاتا ہے بلکہ اس کا خاندان بھی برباد ہو جاتا ہے، شراب کی لعنت کو محض ایک فرد کی خراب عادت یا کسی کے ذاتی مسئلے پر محمول نہیں کیا جا سکتا، یہ سماجی ناسور ہے، اس سے نہ صرف بڑی عمر کے لوگ ہی متاثر نہیں ہیں بلکہ نوخیز نسل بھی اس لعنت میں گھری ہوئی ہے جو پورے سماج کی تباہی و بربادی کا باعث بن رہی ہے۔ لیکن حکومتوں کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے وہ اس کے نقصانات کو پس پشت ڈال کر اپنی جیبیں بھرنے کے لیے شہریوں کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ اس سماجی لعنت کو ختم کرنے کے ملک کے ہر باشعور شہری کو آگے آنا ہوگا، یہ نہ صرف ہماری سماجی ذمہ داری ہے بلکہ یہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔ شراب نوشی کو ختم کرنے کے آج کئی غیر سرکاری تنظیمیں اور کئی سماجی و مذہبی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، ہمیں ان کو ساتھ لیتے ہوئے سماج کو اس لعنت سے پاک کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ شراب نوشی کے خلاف باضابط طور پر مہم چلانا چاہیے تاکہ اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاسکے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 دسمبر تا 9 دسمبر 2023