ڈاکٹر ظہیر دانش عمری
مدیر کتابی سلسلہ ارتعاش،کڑپہ
شاعر حریت ،لسان الاعجاز ،راج کوی پنڈت میلہ رام وفا، شاعر صدق و صفا، معاصر علامہ اقبال باصفا رہے ہیں، علامہ اقبال جہاں پیدا ہوئے وہیں پنڈت میلہ رام وفا بھی پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی شاعری کا لوہا ایسے دور میں منوایا جب ہر طرف علامہ اقبال کا طوطی بول رہا تھا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب ہر سو ایک ہی شاعر کا غلبہ ہو اور ہر زبان پر ایک شاعر کے اشعار جاری ہوں ایسے میں اپنی الگ شناخت بنانا اور اچھے اچھوں سے اپنی تعریف کروانا دل گردے کا کام ہوا کرتا ہے ۔
حضرت نسیم کنجاہی ایڈیٹر مادر وطن لکھنؤ کے الفاظ میں مستعار لیا جاسکتا ہے ،کہتے ہیں کہ :
‘‘ذرا اپنی چشم تصور سے اس عہد جلیل کا نظار ہ تو کیجیے جب سارے ہندوستان میں ڈاکٹر اقبال کی نغمہ سرائیوں کی دھوم مچی ہو،اورمولانا ظفر علی خان کے آتش بار قلم نے آگ سی لگا رکھی تھی۔ آس آتشیں ماحول میں پنڈت میلا رام وفا اپنے فکر و فن کی شمع جلائے ہوئے کچھ اس ادا سے آگے بڑھے کہ سب کی نگاہیں چندھیا کر رہ گئیں، فضائیں جگمگا اٹھیں اور مناظر نور میں نہا گئے ،چہار اطراف سے صدائیں مرحبا و سبحان اللہ بلند ہونے لگیں۔ سر عبدالقادر جو اس عہد کے بے مثال نقاد تھے وفا صاحب کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور مولانا ظفر علی خان نے یہ کہہ کر خراج تحسین پیش کیا کہ :
شعر کہنے کا سلیقہ سیکھ میلا رام سے ’’
(منتخب مجموعہ کلام از میلا رام وفا، ص:۱)
پنڈت میلہ رام وفا کی پیدائش 1895ء میں ہوئی ،بارہ سال کی عمر میں شادی ہوگئی اور سترہ سال کی عمر میں پہلا شعر کہا ،نیشنل کالج لاہور میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا،ایک باغیانہ نظم تحریر کرنے کی پاداش میں انہیں دوسال تک قید کی تکلیف برداشت کرنی پڑی، ان کی تصانیف میں چاند کا سفر (ناول) کولمبس، سوز وطن (سیاسی نظمیں) سنگ میل، سدا بہار پھول کا تذکرہ ملتا ہے ،حال ہی میں ان کی شخصیت اور خدمات پر ڈاکٹر ٹی ایس رینا نے بہت تفصیلی کتاب تحریر کی ہے۔
شاعری میں انہوں نے پنڈت راج نارائن ارمان دہلوی کی شاگردی اختیار کی جو حضرت داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ مشہور رسائل و جرائد اوراخبارات کی آپ نے ادارت کی ، خاص کر رسالہ مخزن ، اخبار وندے ماترم وغیرہ میں کام کیا، ۱۹۸۰ء میں جالندھر میں ان کا انتقال ہوا۔
حضرت جعفر علی خان اثر لکھنوی نے وفا کی مدح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
کیوں سراہانہ جائے نام وفا
کہ ہے بھائی بہت مقام وفا
کیافصاحت ہے کیابلاغت ہے
غور سے دیکھو تو کلام وفا
فارسی میں جو رتبہ حافظ
وہی اردو میں ہے مقام وفا
شعر و حکمت کا ہو جہاں سنگم
ہے وہیں بس وہیں مقام وفا
وفا کی کتاب منتخب مجموعہ کلام جو چالیس صفحات پر مشتمل ہے اس میں ان کا غیر مطبوعہ کلام شامل ہے اسی طرح ا ن کی شخصیت پر ہدیۂ عقیدت کے نام سے ایک کتاب ڈیڑھ سو صفحات پر شائع ہوئی ہے جس میں کئی مشاہیر نے میلہ رام وفا کی شخصیت اور ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کے گن گائے ہیں، ان کی شاعری ، ان کی نظمیں اور ان کی غزلوں میں موجود اہم عناصر کی نشان دہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کے پوشیدہ پہلوؤں کو اجاگر کیاہے۔
پنڈت میلہ رام کی وفا کی غزلیں خالص رومانی غزلیں ہیں جن میں تغزل کی فراوانی، محبت اور چاہتوں کی حشر سامانی ہے ، ان کے غزلوں میں اردو زبان کی ایسی ایسی نزاکتیں ملتی ہیں اور شاعری اس زور وشور سے وہ کرتے ہیں کہ بے اختیار دل واہ واہ کہہ اٹھتا ہے :
پوچھیں وہ کاش حال دل بے قرار کا
ہم بھی کہیں کہ شکر ہے پروردگار کا
اپنے ہی دل پہ جبر کیے جارہا ہوں میں
بس یہ ہے طول و عرض مرے اختیار کا
دل نہ لے کیوں بلائیں تمہاری
دل ربا ہیں ادائیں تمہاری
تم کو دل شاد رکھے زمانہ
آہیں ٹھنڈی اور ہوائیں تمہاری
ایک ہی لفظ کے تکرار سے معنویت پید ا کرنے میں خاص مہارت وفا کو حاصل ہے، مثال کے طور پر یہ غزل دیکھیے گا کہ جس میں معنی طرازیاں،رنگیں بیانیاں، کہانیاں کے الفاظ کی تکرار سے الگ الگ معنی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور ہر شعر میں لفظ کہانیاں کو انہوں نے استعمال کیا ہے،غزل ملاحظہ کیجیے گا :
معنی طرازیاں ہیں،رنگیں بیانیاں ہیں
دنیا میں جتنے منہ ہیں اتنی کہانیاں ہیں
معنی طرازیاں ہیں رنگیں بیانیاں ہیں
یہ بھی کہانیاں ہیں وہ بھی کہانیاں ہیں
کیا مہربانیاں تھیں کیا مہربانیاں ہیں
وہ بھی کہانیاں تھیں یہ بھی کہانیاں ہیں
اک بار اس نے مجھ کو دیکھا تھا مسکراکر
اتنی سی ہے حقیقت باقی کہانیاں ہیں
سنتاہے کوئی کس کی کس کو سنائے کوئی
ہر ایک کی زباں پر اپنی کہانیاں ہیں
کچھ بات ہے کہ چپ ہوں میں سب کی سن کے ورنہ
یا اے وفا مجھے بھی سب کی کہانیاں ہیں
وفا کی غزل اور نظم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کنجاہی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ :
‘‘وفا اقلیم غزل کے ہی تاجدار نہیں مملکت نظم کے بھی بادشاہ ہیں ،غزل ان کے جمال کی آئینہ دار ہے تو نظم ان کے جلال کا عکس جمیل، ان کی غزلوں کے مطالعہ سے فردوس خیال کے دریچے کھل جاتے ہیں اور ذہن پر رنگ و نور کی بارش ہونے لگتی ہے مگر نظموں کا تاثر بالکل دوسرا ہے جیسے ایک کوہ آتش فشاں کے سامنے ہم کھڑے ہوں جو بے محابا لاوا اگل رہا ہے مگر یہ بات صرف ان کی انقلابی منظومات ہی کے متعلق کہی جاسکتی ہے ’’
(ایضاً،ص:۷)
ان کی نظموں کا کنجاہی صاحب نے بہت صحیح تجزیہ کیاہے یوں لگتا ہے جیسے انگریز پر الفاظ کے تیروں ،بھالوں اور گولوں سے حملہ کررہے ہوں، حملہ بھی ایسا کہ انہیں کسی بھی طرح بچاؤ کا موقع نہ مل سکے ، ان کے لیے کوئی راہ فرار نہ ہو،ایسا شدید حملہ وہ کرتے ہیں ان کی انقلابی نظمیں بہت ہی متاثرکن اور گرجدار ہیں۔
فرنگی سے خطا ب کے عنوان سے انہوں نے ایک نظم کہی ہے جس کی وجہ سے انہیں دوسال قید کاٹنی پڑی ، اس نظم میں جو کڑے تیور ہیں،مغربی تہذیب کی برائیوں کا تذکرہ،انگریزوں کے ظلم کا تذکرہ اور ان کی وجہ سے کیا کیا نقصان ہوا ،نظم پڑھنے کے لائق ہے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :
اے فرنگی کبھی سوچا ہے یہ دل میں تونے
اور یہ سوچ کے کچھ تجھ کو حیا بھی آئی
نامبارک تھا بہت ہند میں آنا تیرا
قحط آیا ترے ہمراہ وبابھی آئی
ترے قدموں سے لگی آئی غلامی ظالم
ساتھ ہی اس کے غریبی کی بلا بھی آئی
تیری کلچر میں چمک تو ہے مگر اس میں نظر
کبھی کچھ روشنئ صدق و صفا بھی آئی
یہی کلچر سبب پستی اخلاق ہوئی
ہندیوں میں اسی کلچر سے ریا بھی آئی
تری سنگینیں چمکنے لگیں سڑکوں پہ یونہی
لب پہ مظلوموں کے فریاد ذرابھی آئی
درد افلاس کا نیزوں سے کیا تونے علاج
موت بن کے تیرے ہاتھوں میں شفا بھی آئی
اس روش پر کبھی اے بانی بے داد تجھے
دل کے اند ر سے ملامت کی صدا بھی آئی
کانگریس نے 1943ء میں ہندوستان چھوڑو تحریک کا نعرہ بلند کیا جبکہ شاعر حریت نے ہندوستان چھوڑو کے عنوان سے یہ نظم 1935 میں کہی تھی،جس میں انگریز کو بہت بری طرح جھاڑ پلائی ہے کہ ہمارا ملک چھوڑ کرنکل جاؤ ہندوستان تمہارا نہیں ہے بلکہ ہمارا ہے ،ہم اس ملک کے رہنے والے اور اس ملک میں رہنے کا حق بھی ہمارا ہے تمہارا ہرگز نہیں،اس نظم سے چند شعر دیکھیں:
ہر گز نہ ہم جہاں میں اتنے ذلیل ہوتے
ہوتا اگر ہمارا ہندوستاں ہمارا
اس سلطنت سے جس میں عزت نہیں ہماری
کرلے نہ کیوں کنارا ہندوستاں ہمارا
برطانیوں سے کہ دو اب ذلت غلامی
کرتا نہیں گواراہندوستاں ہمارا
برطانیہ کے تم ہو،ہندوستاں کے ہم ہیں
برطانیہ تمہارا ہندوستاں ہمارا
برطانیہ تمہارا ہندوستاں ہمارا
چھوڑو بس اب خدارا ہندوستاں ہمارا
ہندوستاں ہمارا ہندوستاں ہمارا
مضمون نگار سے رابطہ :
9701065617
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 مارچ تا 23 مارچ 2024