شہروں کے نام تبدیل کرنےکا جنون

اورنگ آباد اور عثمان آباد بھی اب اپنے تاریخی ناموں سے محروم

شاہجہاں مخدوم، ممبئی
ترجمہ :ابو حرم ابن ایاز شاہ پوری

مناسب قانونی کاروائی کے ذریعہ تبدیلی روکی جاسکتی ہے ۔ماضی میں مثالیں موجود
ناموں کی تبدیلی کے لیے آزاد کمیشن کے مطالبے پر سپریم کورٹ کی پھٹکار
صرف ایک نام کی تبدیلی پر عوام کے کروڑوں کی رقم ضائع ۔ پھر بھی دسیوں نام تبدیل کیے جاچکے ہیں
غربت،مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل توجہ کے زیادہ مستحق
پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے غیر ملکی حکمرانوں کی جانب سے رکھے گئے تاریخی مقامات کے ناموں کو تبدیل کرنے کے لیے ایک آزاد کمیشن کی تقرری کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ملک کی تاریخی چیزوں کو موجودہ اور آنے والی نسلوں پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کو تاریخی پیچ وخم میں نہ الجھایا جائے۔ سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ کیا آپ ملک میں ہر وقت آگ لگانا چاہتے ہیں؟ سپریم کورٹ نے بی جے پی کی عرضی گزار لیڈر اشونی اپادھیائے کی اس درخواست کو جس میں اس نے ملک میں تاریخی مقامات پر مغل حکمرانوں کے ناموں کو تبدیل کرنے کے لیے آزاد کمیشن بنانے کی درخواست کی تھی، ‏مسترد کرتے ہوئے ریمارک کیا کہ ’’ثقافتی عظمت کو مجروح نہ کیا جائے‘‘۔
جسٹس بی وی ننگرتھانہ نے درخواست گزاروں کی سرزنش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’جو کچھ بھی بھارت میں ہے وہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ کیا آپ حملوں کی تاریخ کو مٹا سکتے ہیں؟ ہم کئی بار غیر ملکی حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں، تو کیا ہماری تاریخ میں رونما ہونے والے واقعات کو مٹانا ضروری ہو گیا ہے؟ اس کے علاوہ کیا بھارت میں کوئی دوسرا مسئلہ ہے ہی نہیں؟‘‘
مہاراشٹر کے تین اضلاع اورنگ آباد، عثمان آباد اور احمد نگر کے نام اور سانگلی کے تعلقہ اسلام پور کا نام مسلم کمیونٹی سے متعلق ہے۔ تینوں اضلاع کے ناموں کو تبدیل کرنے کا مطالبہ گزشتہ کئی سالوں سے کیا جا رہا تھا۔ چنانچہ اول الذکر دو اضلاع کے نام اب تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ ریاستی حکومت نے اورنگ آباد کا نام چھترپتی سمبھاجی نگر اور عثمان آباد کا نام دھاراشیو رکھنے کی تجویز منظوری کے لیے مرکز بھیجی تھی جو بآسانی منظور کرلی گئی ہے۔
اورنگ آباد اور عثمان آباد کا نام بدلنے کے بعد ریاست بھر میں بی جے پی اور شیوسینا کے لیڈروں اور کارکنوں میں کچھ زیادہ ہی جوش و خروش نظر آ رہا ہے۔ دوسری طرف اے آئی ایم آئی ایم اورنگ آباد کے رکن پارلیمان امتیاز جلیل نے اورنگ آباد کا نام تبدیل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے بی جے پی سے بھی نام بدلنے والے اقدام کی مخالفت کرنے کی اپیل کی ہے۔ اورا نہوں نے اپنا احتجاج درج کرواتے ہوئے ریلے ہڑتال (Relay Strike) بھی شروع کیا ہے تاکہ مرکزی حکومت کی جانب سے جو منظوری آئی ہے اس پر نظر ثانی کی جائے اور اس طرح ناموں کی تبدیلی کا مسئلہ ختم کردیا جائے حالانکہ اس سے قبل عثمان آباد کے نام کی تبدیلی کے دوران بھی جب عوام نے پرزور طریقے سے باقاعدہ تحریک کے تحت قانونی کاروائی کی تھی تو اس وقت تبدیلی پر روک لگائی گئی تھی اگر اس مرتبہ بھی اے آئی ایم آئی ایم یا کسی اوربااثر تنظیم کی جانب سے مناسب اور صحیح قانونی کاروائی کی جائے تو عین ممکن ہے کہ تاریخ پھر سے دہرائی جائے۔
صوبہ مہاراشٹر میں دو مقامات ایسے ہیں جن کے نام تبدیل کرنے کی تحریک گزشتہ 25 تا30سالوں سے چل رہی ہے۔ ان میں ایک ضلع عثمان آباد اور دوسرا ضلع اورنگ آباد ہے۔ مومن آباد کے نام سے ایک تحصیل تھی جس کا نام تبدیل کرکے امبا جوگائی رکھ دیا گیا مگر یہ پرانی بات ہے۔ 70 کی دہائی میں اس وقت کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی۔ مگر ان دو ناموں کی تبدیلی کی مخالفت میں مسلمانوں نے انتہائی کوشش کی جس کی وجہ سے یہ معاملہ عدالت میں ہی رہا۔ وہاں سے اسٹے (Stay) حاصل کرنے میں اورنگ آباد اور عثمان آباد کے لوگ کامیاب ہو گئے۔ اُسی سینا اور بی جے پی کی حکومت میں البتہ بمبئی کے نام کو تبدیل کرکے ممبئی کر دیا گیا مگر چونکہ حکومت کے اس فیصلے کو کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا اس لیے معاملہ عدالت تک پہنچا ہی نہیں۔ برخلاف اس کے اورنگ آباد اور عثمان آباد سے یہاں کے مسلمانوں کا جذباتی لگاؤ ہے اس لیے پوری طاقت کے ساتھ اس کی مخالفت کی گئی اور بالآخر عدالت سے رجوع کرکے مضبوط دلائل کے ساتھ پیروی بھی کی گئی۔ اس لیے عدالت نے ایک سال پہلے اورنگ آباد کے نام کو تبدیل کرنے پر روک لگائی اور ایک سال کی مسلسل کوششوں کے بعد بالآخر عثمان آباد کے نام کی تبدیلی پر بھی روک لگا دی گئی۔ اس وقت کی حکومت کے پاس اس مقدمے کو آگے بڑھانے کے لیے مضبوط دلائل نہیں تھے اس لیے اس نے آگے کی کارروائی نہیں کی تھی۔
موجودہ ناموں کی تبدیلی قدرے متضاد معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس نے ایک سیاسی گروہ کے طویل ایجنڈے کو پٹری سے اتار دیا ہے۔ جن شہروں اور دیہاتوں کے ناموں کو تبدیل کیا گیا ہے وہ خاص طور پر غیر ہندو اور خصوصاً مغل یا مسلم ناموں سے رکھے ہوئے ہیں۔ آئین کے مطابق شہروں کے نام بدلنا ریاستی مقننہ کے سپرد ایک کام ہے جو کہ اکثریت کے جذبات کا لحاظ رکھتے ہوئے لیکن اقلیتوں کی نسل یا عقیدے کو ٹھیس پہنچائے بغیر انجام دیا جانا چاہیے۔1953 میں مرکزی حکومت نے شہروں کے ناموں کی تبدیلی کے لیے کچھ گائیڈ لائنس طے کیاتھا جس کے مطابق اب تک یعنی 1953 تک جو نام تبدیل ہو گئے سو ہو گئے۔ آئندہ کسی شہر کا نام تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ الا یہ کہ تبدیلی کی وجوہات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوں یا ان کے پیچھے کوئی تاریخی جواز ہو تو صرف اسی صورت میں نام تبدیل کئے جاسکتے ہیں۔ عثمان آباد کے نام کی تبدیلی کی مخالفت میں جو تحریک شروع کی گئی تھی اس کے ذمہ داروں نے انہیں گائیڈ لائنس کا سہارا لیا تھا نیز ساتھ میں کچھ ایسی دستاویز بھی پیش کی گئی تھیں جن کا علم خود اس وقت کےبعض متعلقہ سرکاری اہلکاروں کو بھی نہیں تھا۔
ہمارے اس وسیع اور متنوع اور دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں جہاں مختلف قوموں کے لوگ، متعدد تہذیبیں، ثقافتیں اور کئی مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے ہیں بہت کچھ تعمیری کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کو غربت، بے روزگاری، خواتین کے تحفظ اور ان کے حقوق جیسے کئی مسائل کا سامنا ہے اور مسائل کی یہ فہرست لامتناہی ہے۔ لہذا ان حالات میں شہروں اور ریاستوں کے نام تبدیل کرنا اپنے قیمتی وقت اور محنت کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے بلکہ الٹا اس سے کچھ مذہبی جذبات مجروح ہو سکتے ہیں ، تناؤ اور کشیدگی کی فضا پیدا ہو سکتی ہے جس سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی کے واضح امکانات موجود ہیں۔ جب یہاں کرنے کو بہت کچھ ہے تو ان غیر ضروری کاموں میں یہ سارا وقت کیوں ضائع کیا جائے؟ ہر حکومت کو خواہ وہ مرکزی ہو یا مقامی، صرف ان کاموں پر توجہ دینی چاہیے جس سے عوام کا فائدہ ہو اور ملک مضبوط ہو۔
ماضی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی تبدیلیاں منظم سازشوں کے نتیجے میں ہوئی ہیں۔ اور وطن عزیز بھارت میں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے اس کو تو بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ ان اقدامات کو مسلمانوں کے وجود اور ان کے ہر نشان کو مٹانے کے عمل کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ سب کچھ ایک خالص ہندو استھان بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ناموں کی تبدیلی کوئی معمولی سطح کی دشمنی نہیں ہے اس لیے اس تبدیلی کے خلاف سپریم کورٹ کی درج بالا رائے پر عمل کرنا چاہیے، زیادہ سے زیادہ ناموں کو بحال کرنے کے لیے کوشش کرنا چاہیے اور جن شہروں یا مقامات کے نام بین الاقوامی سطح پر تبدیل کیے جا رہے ہیں، ان کے بھی اصلی ناموں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اورنگ آباد، عثمان آباد، مغل سرائے اور الہ آباد کے مسلمان سلاطین کی روشن تاریخ اور ثقافتی کارناموں کو مسلمان مردوں اور عورتوں کے ذہنوں میں لایا جانا چاہیے۔ اور ماہرین تعلیم و دیگر رہنماؤں کو عوام کے روبرو یہ واضح کر دینا چاہیے کہ اس قسم کی تبدیلی ایک بیماری ہے، کمتری کی وبائی نفسیات ہے۔ جو لوگ کمتر نظریات رکھتے ہیں وہ اپنی تاریخ خود بنانے کے قابل نہیں ہوتے ہیں اس لیے وہ دوسروں کی تاریخ چوری کرنے لگ جاتے ہیں اور تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں۔ سڑکوں، عمارتوں اور کتابوں سے نفرت کرتے ہیں، اپنی شکست سے دلبرداشتہ رہتے ہیں اور حقائق کو بدلنے کی ہرممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔
یاد رہے کہ عوامی مقامات کا نام تبدیل کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ کسی بھی شہر کا نام تبدیل کرنے کے لیے متعلقہ ریاستی کابینہ فیصلہ لیتی ہے۔ اس کے لیے ریاستی مقننہ ایک قرارداد پاس کر کے مرکز کو بھیجتی ہے۔ اس کے بعد مرکزی کابینہ فیصلہ کرتی ہے کہ آیا آئینی ترمیمی بل کو پاس کیا جائے یا مسترد کر دیا جائے۔ کیونکہ اس کے لیے آئین ہند کے شیڈول نمبر ایک میں ترمیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بل کو منظور کروانے کے لیے اسے اکثریت سے پاس کرانا بھی لازمی ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی شہر یا ریاست کا نام تبدیل کرنے میں بہت زیادہ رقم بھی خرچ ہوتی ہے۔ کسی بھی شہر یا ریاست کے احاطے اور اس کی عالمی شناخت کے لحاظ سے صرف نام تبدیل کرنے کا جملہ خرچ تقریباً دو سو سے پانچ سو کروڑ روپے یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ یہ رقم روڈ بورڈنگ سسٹم، ہائی وے کے نشانات، مختلف نقشے، ریاستی سرکاری اسٹیشنری اور میونسپل انتظامیہ کو نئے نام کے مطابق اپ ڈیٹ کرنے پر خرچ کی جاتی ہے۔ شہر یا ریاست میں دکانیں، کاروبار اور کارپوریٹ گھرانے بھی نام کی تبدیلی کا مشاہدہ کرنے کے لیے اسی طرح کی مشق کرتے رہتے ہیں۔
وزارت داخلہ کے پاس اس سلسلے میں کئی رہنما خطوط بھی ہیں، جن میں سڑکوں کے نام تبدیل کرنے کے خلاف باقاعدہ انتباہ دیا گیا ہے کیونکہ یہ اقدام ڈاک خانوں اور عوام کے لیے الجھن کا باعث بنتا ہے اور لوگوں کو حقیقی تاریخ سے بھی محروم کرتا ہے۔
وطن عزیز بھارت میں شہروں کے ناموں کی تبدیلی سال 2014 کے بعد سے ایک مسلسل عمل بن گیا ہے کیونکہ مرکزی حکومت نے ملک کے پچیس سے زائد شہروں کے نام بدلنے کی منظوری دی ہے۔ مثال کے طور پر الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج رکھا گیا، اتر پردیش کے مشہور مغل سرائے ریلوے اسٹیشن کا نام بدل کر دین دیال اپادھیائے (DDU) رکھا گیا اور دنیا کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم موتیرا اسٹیڈیم کا نام بدل کر نریندر مودی اسٹیڈیم رکھ دیا گیا۔
مسئلہ اورنگ آباد
شیوسینا کے قیام کے بعد جب اس نے پہلی مرتبہ ممبئی بلدیہ انتخابات میں فتح حاصل کی تھی تو اس کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوا تھا۔ اس وقت شیوسینا کے سربراہ بالا صاحب ٹھاکرے ممبئی سے نکلے تو سب سے پہلے اورنگ آباد پہنچے۔ وہاں کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے اورنگ آباد کا نام بدل کر سمبھاجی نگر کرنے کی تحریک شروع کی اور اس تحریک میں عثمان آباد کو بھی شامل کیا۔ 1995 میں جب شیوسینا اور بی جے پی نے مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو قانونی مقدمہ شروع ہوا۔ ۱۹۹۹ میں حکومت کی جانب سے عوام سے اسی مسئلے پر اپنی تجاویز اور مشورے دینے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اسی نوٹیفکیشن کو عثمان آباد کی’ تبدیلی نام مخالف تحریک ‘نے ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ میں مقدمہ داخل کیا۔ تبدیلی نام مخالف تحریک کے صدر عبدالرشید قاضی صاحب تھے جو اس وقت مراٹھواڑہ وقف کمیٹی کے چیرمین بھی تھے۔ دیگر اراکین میں شیخ مسعود، مہرالدین قاضی، سرفراز احمد صدیقی تھے۔ کمیٹی کے صدر عبدالرشید صاحب کے بشمول شیخ مسعود صاحب کے علاوہ باقی تین ارکان اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ کمیٹی کی طرف سے دائر رٹ پٹیشن (writ petition) کے علاوہ ایک اور مقامی سیاسی کارکن خلیل احمد نے بھی ایک علیحدہ پٹیشن داخل کی۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران حکومت مہاراشٹرا کی طرف سے یہ کہا گیا کہ ہم نے صرف نام تبدیل کرنے کے لیے عوام سے ان کی تجاویز اور مشورے طلب کیے ہیں نام تبدیل نہیں کیا ہے۔ اس پر عدالت نے یہ حکم جاری کیا کہ اگر مستقبل میں نام تبدیل کرنا طے ہو جائے تو اس فیصلہ کے نفاذ کے دس دن بعد تک کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی تاکہ فریق مخالف کو عدالت سے رجوع کرنے کا موقع ملے۔ یہ ۱۹۹۹ کی بات ہے۔ اس سے پہلے ۱۹۹۸ میں اس وقت کے مہاراشٹرا کے وزیر علیٰ منوہر جوشی نے تبدیلی نام کی مخالفت میں ۴۳۰۰۰ اعتراضات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مہاراشٹرا کی کابینہ میں قرارداد پاس کر کے نام کی تبدیلی کا اعلان کر دیا تو فوراً ہی تبدیلی نام مخالف تحریک نے عدالت سے رجوع کر کے پٹیشن داخل کردی تھی جس کے نتیجے میں کابینہ کے فیصلے کے نفاذ پر اسٹے لگا دیا گیا تھا۔ قانونی اور عدالتی کارروائیوں کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اسی درمیان ۲۰۰۰ میں مہاراشٹرا اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور سینا بی جے پی کی حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ریاست میں انڈین نیشنل کانگریس اور راشٹر وادی نیشنلسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس حکومت نے اورنگ آباد اور عثمان آباد کے ناموں کی تبدیلی سے متعلق کابینہ کی قرارداد کو رد کر دیا۔ اس سلسلہ میں ممبئی ہائی کورٹ میں باضابطہ حلف داخل کیا گیا۔ عدالت نے اس فیصلے کو منظوری دیتے ہوئے موجودہ ناموں کو برقرار رکھا۔
چند سالوں تک یہ مسئلہ دبا رہا لیکن 2005، 2010 اور 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں اس ایشو کو پھر سے اٹھایا گیا لیکن کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں ہو پایا۔ 2015 میں مراٹھی ادب کے اسکالر سدانند مورے نے دلیل دی کہ اورنگ آباد کا نام بدل کر ’دارا شکوہ‘ رکھا جانا چاہیے۔ جب کہ سینئر مصنف بھالچندر نیماڈے نے ان بحثوں کے حوالے سے کہا تھا کہ اورنگ آباد کا نام تبدیل کرنے کے بجائے وہاں پانی کی سہولتیں فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے ۔
اورنگ آباد ایک ایسا شہر ہے جو کسی زمانے میں نہایت ہی اہم تھا۔ کئی سلطنتوں نے اسے اپنا دارالحکومت بنایا تھا۔ اورنگ آباد تب بھی اہم تھا جب 1724 میں نظام (آصف جاہی) نے حکومت قائم کی تھی۔ اگرچہ اس وقت دارالحکومت حیدرآباد چلا گیا لیکن پھر بھی اورنگ آباد کو ذیلی دارالحکومت کا درجہ حاصل رہا اور اب اس تاریخی شہر کے نام بدلنے والے ایشو کو سیاسی طور پر استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ اورنگ آباد میں مسلم آبادی اتنی ہی اہم ہے جتنی ہندوؤں کی ہے۔
اگر اورنگ آباد کی تاریخ کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا ماضی نہایت ہی شاندار رہا ہے اور مسلم حکمرانوں نے اس کو آباد کرنے اور ترقیوں کی معراج عطا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔مؤرخین کے مطابق اس علاقے کی اہمیت نہایت ہی قدیم ہے ۔ 1327میں سب سے پہلے محمد بن تغلق نے اپنے دارالحکومت کو دلی سے دولت آباد منتقل کرنے کا حکم دیا، اور بڑے پیمانے پر خروج بھی شروع ہوا۔ لیکن 1334 میں اس نے اس فیصلے کو بدل کر دارالحکومت واپس دلی ہی لانے کا فیصلہ کیا۔ مگر دولت آباد اور اسکے ارد گرد کے علاقے کی اہمیت دکن پر حکمرانی کے لیے بہت اہم ثابت ہوئی۔ 1499ء میں دولت آباد کا کنٹرول احمد نگر کی نظام شاہی کے پاس چلا گیا۔ اگلے 137 سال تک یہ قلعہ نظام شاہی کے پاس رہا۔ اور ایک عرصے بعد بہادر سردار اور سپہ سالار ملک عنبر نے چکلتھانہ کی لڑائی میں مغلوں کو شکست دی۔ انہوں نے یہاں کھڑکی گاؤں کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا اور آج کے ’اورنگ آباد‘ شہر کی پہلی مناسب بنیاد رکھی۔ ملک عنبرنے شہر میں سڑکوں، پلوں اور نہروں کے ذریعے پانی کی اسکیمیں متعارف کروائیں۔ انہوں نے کشتیوں کی طرح محلات بھی بنائے۔ اور انہوں نے پرتگالیوں کے لیے ایک چرچ بھی بنایا تھا ۔ان ترقیاتی کاموں کے درمیان ہی اچانک شہنشاہ جہانگیر نے 1616 میں شہر کھڑکی پر حملہ کردیا اور دعویٰ کیا تھا کہ کھڑکی اگلے 20 سال تک صحیح طریقے سے آباد نہیں ہو پائے گا۔ لیکن ملک عنبر نے 1621 میں ہی دوبارہ کھڑکی کو آباد کیا ۔ اس کے بعد پھر سے کھڑکی پر حملہ ہوا ملک عنبر نے دوبارہ کھڑکی میں اصلاحات کیں۔ بلآخر ملک عنبرکا انتقال 1626 میں ہوگیا۔ ملک عنبر کا بیٹا فتح خان کچھ مدت کے لیے دوبارہ کھڑکی آیا۔ اس نے شہر کا نام فتح نگر رکھا۔ لیکن 1636 میں شہنشاہ شاہ جہاں نے اورنگ زیب کو دکن کا گورنر مقرر کیا۔ اس وقت اس شہر کا نام بدل کر ’’خوجستہ بنیاد‘‘ رکھ دیا گیا۔پھر 1657 کے بعد یہی شہر یعنی خوجستہ بنیاد ہی موجودہ اورنگ آباد بن گیا۔ اورنگ زیب ابتدا میں دولت آباد میں رہتے تھے اور بعد میں خجستہ بنیاد منتقل ہو گئے۔ اور اسی کو دکن کے دارالحکومت کا درجہ دیا گیا۔ اور 1681 میں اورنگ زیب کے اورنگ آباد آنے کے بعد وہ دکن سے پھر کبھی واپس نہیں لوٹے۔اورنگ زیب کی وفات کے بعد دکن میں مغلوں کی حکومت زیادہ مضبوط نہیں رہ پائی ۔ نظام آصف جاہ ، جو صوبیدار کے طور پر آئے تھے انہوں نے ایک آزاد ریاست قائم کرلی اور اس کا دارالحکومت اورنگ آباد ہی کو بنایا گیا تھا۔تیسرے نظام نے 1761 میں حیدرآباد میں اپنا دارالحکومت قائم کرلیا۔اور اس وقت تک اورنگ آباد کئی ریاستوں میں ایک اہم مرکز بن چکا تھا۔ آخر کار، 1948 میں جب ریاست حیدرآباد بھارت کے ساتھ ضم ہوگئی تو اورنگ آباد بھی مراٹھواڑہ کے ساتھ بھارت میں شامل ہوگیا۔
اب حالیہ دنوں اورنگ آباد اور ساتھ ہی عثمان آباد کے ان تاریخی ناموں کو بدلنے کے ریاستی حکومت کے فیصلے کی انسداد تبدیلی ایکشن کمیٹی نے کافی مذمت کی ہے۔ مشتاق احمد کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں مختلف جماعتوں، تنظیموں کے عہدیداران اور سٹی ورکنگ کمیٹی کے اراکین نے شرکت کی۔ مشتاق احمد نے کہا کہ ایسے فیصلے صرف کریڈٹ لینے اور دو برادریوں میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہم اس کی کھل کر مخالفت کر یں گے۔ مشتاق احمد، انا صاحب کھنڈارے اور راجیش مورے پہلے ہی ریاستی حکومت کے نام تبدیل کرنے کے خلاف بامبے ہائی کورٹ میں ایک PIL دائر کر چکے ہیں۔شولاپور سے تعلق رکھنے والے تاریخ کے محقق سرفراز احمد کے مطابق اورنگ آباد مسلمانوں کی ثقافتی اقدار کا ایک اہم ستون ہے۔ یہ جنوب میں مسلمانوں کا پہلا اور اہم مرکز رہا ہے۔ جنوبی ہندوستان میں مسلم ثقافت اورنگ آباد میں ہی قائم ہوئی تھی۔ لہٰذا دکنی مسلمانوں کو اپنی ثقافتی اساس کو محفوظ رکھنا چاہیے۔اور یہ بات بھی اہم ہے کہ مسلمانوں کی ثقافت کو محفوظ رکھنا حکمرانوں کا فرض ہے۔ لیکن حکمران یہ فرض ادا کرتے نظر نہیں آتے بلکہ الٹا وہ مسلمانوں کی ثقافت، مسلمانوں کے نشان کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ ایسی صورتحال پیدا کر رہے ہیں کہ آگے چل کر مسلمانوں کو یہ محسوس ہی نہ ہونے پائے کہ یہ ملک ان کا بھی ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ دکنی مسلمانوں کی ثقافت اور اس کا قیام اورنگ آباد میں ہوا۔ دکنی زبان میں پہلی کتاب اورنگ آباد میں لکھی گئی بلکہ دکنی زبان اورنگ آباد سے ہی شروع ہوتی ہے۔محمد تغلق کے حملے کے بعد اس نے دولت آباد کو دارالخلافہ بنایا، وہ بہت سے صوفیوں کو اپنے ساتھ لایا تھا ان میں سے گلبرگہ کے صوفی خواجہ بندہ نواز بھی تھے جو تغلق کے ساتھ دکن آئے تھے۔ وہ دولت آباد میں ٹھہرے اور یہاں کے مسلمانوں بلکہ تمام مقامی لوگوں سے رابطے کی زبان کے طور پر دکنی زبان کا استعمال کیا۔ انہوں نے اپنی پہلی تصنیف اسی زبان میں لکھی اور اس کتاب کے ذریعے لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کی۔ لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ دکنی زبان کی ثقافتی سیاست کا آغاز ضلع اورنگ آباد کے دو اہم شہروں خلد آباد اور دولت آباد سے ہوا۔ خلد آباد میں سات سو کے قریب صوفی یادگاریں ہیں، ان صوفیوں نے خلد آباد میں ایک بڑا صوفی علمی مرکز بھی بنایا تھا، اسی صوفی علمی مرکز کے ذریعے انہوں نے دکن میں صوفی تحریک کو پھیلانا شروع کیا۔ اسی لیے اورنگ آباد مسلمانوں کا ثقافتی مرکز ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ دکن کے مسلمانوں اور مراٹھی مسلمانوں کا اورنگ آباد سے ایک اہم تعلق ہے، اس نام کی تبدیلی کے ذریعے اسے ختم نہیں کیا جانا چاہیے، اور اس کے ثقافتی تعلق پر حملہ نہیں ہونا چاہیے۔
مسئلہ عثمان آباد
عثمان آباد کا نام تبدیل کرنے کے سلسلے میں بھی کوششیں بہت پہلے سے کی جارہی تھیں ۔ریکارڈ کے مطابق اس کا پہلا اعلان پچیس مئی 1995 کو کیا گیا تھا ۔ شیوسینا کے وزیر اعلیٰ منوہر جوشی نے پونے میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے عثمان آباد کا نام تبدیل کرنے کی کوششوں کا عوامی اعلان کیا تھا اور ساتھ ہی اورنگ آباد میں کابینہ کی میٹنگ میں بھی باقاعدہ اس کی منظوری دی گئی تھی۔ اسی طرح شیوسینا کے سربراہ بالا صاحب ٹھاکرے نے بھی تلجا پور میں شیوسینا کی ایک خواتین کی ریلی میں بھی عثمان آباد کانام بدلنے کی بات کہی تھی ۔اس کے بعد ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے سال 1999 میں شیوسینا-بی جے پی اتحاد کے دوران عثمان آباد کا نام بدل کر دھاراشیو رکھنے کا عمل بھی شروع ہو چکا تھا۔ تاہم یہ مقدمہ عدالت میں کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکا۔ پھر بھی شیوسینا اسی وقت سے عثمان آباد کا نام بدلنے پر اصرار کر رہی ہے۔
ضلع عثمان آباد کرناٹک اور تلنگانہ دونوں کی سرحدوں پر واقع ہے۔ یہ ویسے تاریخی مقام نہیں ہے تاہم یہاں حضرت خواجہ شمس الدین ؒکی درگاہ ہے جس کی زیارت کے لیے قرب و جوار سے لوگ آتے رہتے ہیں۔ موجودہ وقت میں اس کے ۸ تعلقہ جات ہیں۔ ۱۹۸۴ میں مہاراشٹرا کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ عبدالرحمن انتولے نے ضلع عثمان آباد کی تقسیم کر کے لاتور کو نیا ضلع بنا دیا تھا۔ تب مہاراشٹرا میں عثمان آباد رقبہ اور تحصیل کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع تھا۔ موجودہ لاتور کے ساتھ اس کے دیگر تعلقہ جات، اودگیر، احمد پور، رینا پور، اوسہ وغیرہ بھی اسی ضلع عثمان آباد میں شامل تھے۔
تاریخی اعتبار سے ۱۹۰۴ سے پہلے عثمان آباد کا موجودہ ضلع اس وقت محض ایک گاؤں تھا موجودہ تعلقہ پرانڈہ اور نلدرگ میں یہ ضلع تقسیم تھا۔ اس وقت اسی کا نام دھارا شیو تھا (موجودہ حکومت اسی نام کو بحال کرنا چاہتی ہے)۔ دھارا شیو کے بارے میں سرکاری دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی راکھشس کا نام تھا۔ البتہ قدیم تحریروں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ راکھشس یوں ہی مشہور ہوگیا تھا جبکہ ’دھار‘ اس گاؤں کا اصلی نام تھا۔ دھار بدھ مت کے معبدوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ آج بھی عثمان آباد میں پہاڑوں میں جو غار ہیں ان میں بدھ کی مورتیاں بنی ہوئی ہیں۔ لیکن یہ تحریریں نجی قسم کی ہیں ان کی کوئی دستاویزی حیثیت نہیں ہے۔
بعج تاریخی مآخذ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ قدیم زمانے میں اس علاقے کے اندر روم، افریقہ اور کئی دیگر ممالک کے لوگ بھی آباد تھے جس کے کئی ثبوت یہاں مل چکے ہیں۔ مثال کے طور پر، رومن کنیت کے ساتھ مراٹھی خاندان اب بھی ضلع پللا کے تعلقہ تلجا پور پپلا خورد میں رہتے ہیں۔ تاریخ اور آثار قدیمہ کے اسکالر جیراج کھوچڑے نے اس بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔
چمار غاروں کی کھدائی راشٹرکوٹ دور میں عثمان آباد کے قریب ہوئی تھی۔ اس غار میں ایک شیولنگ بھی دیکھا جا سکتا ہے جو اس ضلع کا سب سے قدیم شیولنگ ہے اسی وجہ سے گاؤں کا نام دھاراشیو پڑ گیا تھا۔
1720 کے چھترپتی شاہو مہاراج (سنبھاجی مہاراج کے بیٹے) کو آج عثمان آباد میں وجے سنگھ راجے کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ مکاسداری کے بارے میں ایک چارٹر ہے اور اس میں واضح طور پر دھاراشیو لکھا ہوا ہے۔ 1905 میں میر عثمان علی خان دھاراشیو کے علاقے میں آئے۔ دھاراشیو کو ان کے دوروں کی وجہ سے عثمان آباد کا نام دیا گیا تھا اور باضابطہ طور پر نظام حکومت نے 1911 میں اس حصے کا نام بدل کر عثمان آباد رکھنے کی تجویز پیش کی جسے 1914 میں منظور کر لیا گیا۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ عثمان آباد، نظام کا ’صرفخاص ضلع ‘تھا۔ یعنی اس ضلع کی آمدنی سے نظام عثمان علی خان کے ذاتی اخراجات کا انتظام کیا جاتا تھا۔ اورنظام کے دور میں، ’نلدرگ‘ نامی ایک ضلع تھا جسے تبدیل کر کے’ دھاراشیو‘ کر دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دھاراشیو اس علاقے سے منسلک تھا جہاں برطانوی عمل واقع تھا، مستقبل کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے نظام حکومت نے نلدرگ کو دھاراشیو ضلع سے تبدیل کر دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دھارشیو گاؤں کا ذکر عادل شاہی، نظام شاہی اورمغل شاہی زمانوں کی تاریخی دستاویزات میں بھی ملتا ہے۔
سٹی کونسل کے نظرثانی شدہ شہری ترقیاتی منصوبے کے ایک باب میں بتایا گیا ہے کہ عثمان علی خان نے 1900 میں دھاراشیو کا نام بدل کر عثمان آباد کر دیا تھا پھر بھی تقریباً 1927 تک دھاراشیو نام ہی رائج تھا۔ عثمان آباد کے علاوہ عادل آباد کا مکتی نگر اور امباجوگئی کا نام مومن آباد اور پھر امباجوگئی رکھ دیا گیا تھا، وہ بھی اس لیے کہ یہ نام تاریخی تھے۔ تاریخ کے اسکالر جیراج کھوچرے نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ضلع عثمان آباد کا دھاراشیو ایک ثقافتی نام ہے۔
1947 میں ملک کی آزادی کے بعد ریاست حیدرآباد بھی 1948 میں تحلیل کردی گئی۔ تب ضلع عثمان آباد کو اس وقت بمبئی پروونس (Bombay province)میں شامل کر دیا گیا۔ ۱۹۴۷ میں ہندوستان کی آزادی کے بعد ۱۹۴۸ میں ریاستِ حیدرآباد کا بھی خاتمہ ہوا۔ تب ضلع عثمان آباد کو اس وقت بمبئی پروونس (Bombay province )میں شامل کر دیا گیا۔ اس کے بعد 1960 میں جب لسانی بنیادوں پر ہندوستان کی ریاستوں کی تنظیم نَو عمل میں آئی اور مہاراشٹرا کے نام سے نئی ریاست کا وجود ہوا تو عثمان آباد کو بھی اسی مہاراشٹرا کی نئی ریاست میں شامل کر دیا گیا۔ اور تقریباً پینتیس سالوں تک سب ٹھیک چلتا رہا بالآخر 1995 میں بالاصاحب ٹھاکرے کی قیادت میں اس نام کی تبدیلی کی کوششیں شروع ہوئیں ۔
احمد نگر کا مسئلہ
کہا جاتا ہے کہ احمد نگر کا نام تبدیل کرنے کا مسئلہ پہلی مرتبہ 1997 میں احمد نگر کے ایک ادبی کنونشن میں زیر بحث آیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک اس شہر کے متعدد ناموں کی کئی تجاویز پیش کی گئیں ہیں۔ ابتداً یہ مطالبہ تھا کہ اس شہر کا نام امبیکا نگر ہونا چاہیے۔ اب ایم ایل اے گوپی چند پڈالکر نے احمد نگر کا نام بدل کر اہلیہ نگر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح جنوری 2021 میں شیوسینا کے مقامی عہدیداروں نے احمد نگر کو امبیکا نگر میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اور ساتھ ہی ایم این ایس کی جانب سے بھی احمد نگر کو امبیکا نگر میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اسی طرح پچھلے دنوں بھوشن سنگھراجے نے بھی وزیر اعلیٰ کو ایک خط لکھا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ احمد نگر کو اہلیہ دیوی نگر میں تبدیل کیا جائے۔
احمد نگر کے مولی نگر کا نام ضلع شری رامپور سے تبدیل کرنے کا مطالبہ
روایات کے مطابق آج سے تقریباً 726 سال قبل سنت گیانیشور نے شری رامپور کو ضلع قرار دینے کے بعد ضلع کے ’نیواسا‘ میں گیانیشوری لکھا گیا تھا، اس لیے 27 فروری 2023 کو اقتصادی قرارداد کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے، شری رامپور ضلع ورکنگ کمیٹی کے نائب صدر راجیندر لانڈگے نے احمد نگر شہر کا نام تبدیل کر کے سنت شریسٹھا گیانیشور مولی نگر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک میمورنڈم جاری کیا جو وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے، نائب وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس و دیگر کو دیا گیا۔
مہاراشٹر سمیت ملک بھر کے شہروں کے نام بدلنے کا اقدام عوام کی فلاح و بہبود اور اقتدار کو برقرار رکھنے کے بجائے سیاسی غرض کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ سب صرف مذہب اور ذات کے نفسیاتی حربوں کو استعمال کرتے ہوئے عوام میں متعصبانہ گرفت کو برقرار رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ احمد نگر کا نام تبدیل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے پیپلز ہیلپ لائن اور پیپلز پارلیمنٹ آف انڈیا نے الزام عائد کیا ہے کہ حکمراں جماعتوں نے احمد نگر کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کرکے نہایت ہی غلط اقدام اٹھایا ہے جبکہ اس شہر کی تاریخ تقریباً پانچ سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔اس تنظیم نے مذہب اور ذات پات کے نام پر سیاست کرنے والوں کے خلاف ’جئے شیواجی، جئے دیچھو کاوا تکنیک‘ استعمال کرنے کی اپیل کی ہے۔ساتھ ہی گاولی، اشوک سبن، ارشد شیخ، ڈاکٹر محبوب سید، پرکاش تھوراٹ، سدھیر بھدرے، گیان دیو کالے نے بھی اس ضمن میں اپنا احتجاج درج کروایا ہے۔ اسی طرح سماج وادی پارٹی کے رہنما ابو اعظمی نے بھی نام تبدیل کرنے کی مخالفت کی ہے اور کہا کہ ’’شہروں کے نام بدلنے سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اگر آپ شہروں کے لیے پسندیدہ نام رکھنا ہی چاہتے ہیں تو نئے شہر بنائیں۔ اور اگر آپ واقعی نام ہی بدلنا چاہتے ہیں تو پہلے مہاراشٹر کا نام بدلیں اور چھترپتی شیواجی مہاراج رکھ دیں۔ رائے گڑھ کا نام بدل کر سمبھاجی مہاراج رکھ دیں۔ ریاست کے عوام بھی اسے پسند کریں گے لیکن ہندو مسلم دراڑ پیدا کرنے کا کام نہ کریں۔‘‘
اسلام پور کا مسئلہ
پچھلے کچھ دنوں سے کچھ ہندوتوا تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ ضلع سانگلی کے اسلام پور کا نام بدل کر ایشور پور کر دیا جائے۔ شری شیو پرتشتھان یووا کے ساتھ ساتھ بی جے پی اور شیوسینا نے بھی اس مطالبے کو مزید آگے بڑھایا ہے لیکن ونچیت بہوجن اگھاڑی کے ساتھ ساتھ اے آئی ایم آئی ایم نے بھی اس تبدیلی کی سخت مخالفت کی ہے۔ ونچیت بہوجن اگھاڑی کے مغربی مہاراشٹر کے صدر شاکر تمبولی جن کا تعلق شہر اسلام پور سے ہی ہے، کہتے ہیں کہ اسلام پور کو دیے جانے والے نئے نام کا کوئی تاریخی حوالہ نہیں ہے۔ بلکہ اس نام کو شہر کے مکینوں پر مسلط کر کے مسلمانوں پر دباؤ بنانے کا کام کیا جا رہا ہے اور ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ شیوسینا اسلام پور میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے ساتھ مکمل جڑی ہوئی ہے ۔
اس سلسلے میں تاریخ و ثقافت کے اسکالر پروفیسر سچن گاروڈ نے چند مطالعاتی نکات بیان کیے ہیں کہ اسلام پور کا نام تبدیل کرنے کی مخالفت کرنے والی تنظیموں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ شہر میں امن اور ہم آہنگی کی فضا کو بگاڑنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں ان کی مذمت کی جائے اور یہ واضح کیا جائے کہ شہر کا نام کسی حملہ آور کی جانب سے نہیں بلکہ مساوات، امن، مذہب اور ذات پات کی ہم آہنگی کے عمل سے رکھا گیا ہے اور آج بھی اسلام پور میں مسلمان، ہندو ذاتوں اور دیگر قوموں کے ساتھ گنگا جمنی تہذیب کا حسین نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ اسلام پور کے قریب کامری گاؤں میں ایک ہی دیوار کی بنیاد پر مسجد اور مندر باہم کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ تمام علاقہ مذہب کی ہم آہنگی نظریات کی تاریخ سے متعلق ہے۔ ملک کے مختلف مقامات پر اکثر فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے ہیں، لیکن اسلام پور میں اس طرح کے فسادات کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ قرون وسطی میں مسلم حکمرانی کے تحت بہت سے قصبے اور دیہات یہاں کی سرزمین پر ابھرے اور ترقی کی اور ان سب میں بہت سے شہر اور دیہات ثقافتی طور پر مسلم صوفی روایت سے تشکیل پائے تھے اور ہندومت کے ذات پات کے استحصال سے تنگ آکر کئی ذاتوں نے اس وقت اسلام قبول کرلیا تھا کیونکہ اسلام مساوات اور رواداری کی تعلیم دیتا ہے۔ مزید یہ کہتے ہوئے کہ ہندوتوادی جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں، پروفیسر گاروڈ نے شہر اسلام پور کے نام کے تاریخی تناظر کی وضاحت کی۔
اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو مراٹھا دور میں کسی بھی مسلم جگہ کا نام تبدیل نہیں کیا گیا۔ اسلام پور کا نام شیواجی راجے، سمبھاجی مہاراج اور مہارانی تارابائی کے زمانے میں بھی تھا لیکن انہوں نے اسے نہیں بدلا بلکہ انگریزوں نے بھی اپنے دور حکومت میں نام بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ ان کے دور میں نصرانیت کی تحریک بھی کھڑی ہوئی تھی۔پھر بھی شہر اسلام پور اور اس کے نام کی تبدیلی پر کبھی زور و زبردستی نہیں کی گئی۔ چھوت چھات، ذات پات کے امتیاز اور ہندو مت کے استحصال کے خلاف یہاں کے لوگوں نے مسلمان اور کرسچن بننے کا فیصلہ کیا تھا۔
اگر اسلام پور کا نام بدل کر ایشور پور رکھنا ہو تو اس کے پیچھے کچھ تو تاریخی پس منظر ہونا چاہیے جو کہ نہیں ہے۔ اسلام پور اپنے تاریخی کاموں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہوا۔ اب ہندوتوا طاقتیں دیگر مذاہب کو دوسرا مقام دینے کی نیت سے اسلام پور کے نام پر اعتراض کر رہی ہیں جو کہ ایک جمہوری ملک کے لیے کسی صورت مناسب نہیں ہے۔
پونے کا مسئلہ
مہاراشٹر کے مشہور شہر پونے کا نام بھی تبدیل کرنے کا مطالبہ 2021 میں سامنے آیا تھا۔ سمبھاجی بریگیڈ نے مطالبہ کیا تھا کہ پونے کا نام بدل کر راشٹرماتا جیجاماتا کے حوالے سے جیجا پور رکھا جائے۔ کیونکہ پونے میں جیجا کی ایک نمایاں تاریخ رہی ہے۔ شہر پونے ماصاحب جیجاؤ اور چھترپتی شیواجی مہاراج کی بہادری کی علامت ہے۔ سمبھاجی بریگیڈ کے ریاستی کنوینر سنتوش شندے نے کہا کہ اسی لیے اس شہر کا نام بدلنا چاہیے۔ ونچیت بہوجن اگھاڑی کے صدر پرکاش امبیڈکر نے بھی ایک عجیب و غریب مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پونے کا نام اورنگ آباد سے بدل کر سمبھاجی نگر کیا جانا چاہیے۔
اسی طرح این سی پی لیڈر امول مٹکری نے مطالبہ کیا ہے کہ پونے شہر کا نام بدل کر جیجاؤنگر رکھا جائے اور این سی پی نے یہ مطالبہ سمبھاجی بریگیڈ کے مطالبے کے بعد کیا ہے۔ برہمن مہا سنگھ بھی اب اس نام کے تنازعہ میں کود پڑا ہے۔ آنند دیو نے مٹکری کے نام کی تبدیلی کے مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پونے کا نام تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نام بدلنے سے بہتر ہے کہ رہنماؤں کے نام پر عظیم الشان اور منفرد یادگاریں بنوائیں۔ آنند دیو کے بیان کے بعد پونے کا نام بدلنے کے معاملے نے ایک نیا موڑ لیا ہے اور اب اس تنازعہ میں آنند دیو اور امول مٹکری آمنے سامنے آگئے ہیں۔ آنند نے مزید کہا کہ پونے کا نام ’پونیشور مہادیو‘ کی وجہ سے پڑا ہے۔لہذا اسے تبدیل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
سندھ کھیڑ راجہ کا مسئلہ
صوبہ مہاراشٹر کا ہی ایک اور شہر ’سندھ کھیڑ راجا‘ کا نام بدل کر ’جیجاؤ نگر‘ کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں لیکن سندھ کھیڑا راجہ میں راشٹرماتا جیجاؤ کے جادھو خاندان کی اولاد نے اس نام کی تبدیلی کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ کھیڑ راجا ایک تاریخی قصبہ ہے اس کا پرانا نام سدھ پور تھا لیکن اس وقت راشٹرماتا جیجاماتا کے والد راجہ لکھوجی راؤ جادھو نے ہی سندھ کھیڑ راجا کا نام دیا تھا۔ اس لیے اس شہر کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر اب جیجاو کے جادھو خاندان کی اولاد نے سندھ کھیڑ راجا کا نام بدل کر جیجاؤ شہر رکھنے کی سخت مخالفت کی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک بیان کے ذریعے یہ مطالبہ کیا کہ سندھ کھیڑ راجا کے بجائے ضلع بلڈھانہ کا نام بدل کر جیجاؤ نگر رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سندھ کھیڑ راجا کا نام تبدیل کرنے کے حوالے سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اب توجہ اس بات پر رہے گی کہ سندھ کھیڑ راجا کا نام بدل کر جیجاو رکھا جائے گا یا نہیں۔
نام بدلنے کی یہ بیماری صرف صوبہ مہاراشٹر میں ہی نہیں ہے بلکہ پچھلے چند سالوں سے پورے ملک کے اندر تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے جس کا سب سے بڑا نقصان مسلم کمیونیٹی کو ہو رہا ہے اور ساتھ ہی راست طور پر اس ملک کی جمہوری حیثیت بھی بہت حد تک متاثر ہو رہی ہے جس کے لیے اس ملک کے دانشوروں اور جمہوریت کے علمبرداروں کو اس مکمل ملک گیر مہم پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی جمہوریت اُسی آن بان شان سے قائم رہے جس طرح اپنے شاندار ماضی میں رہی ہے۔
***

 

***

 عوامی مقامات کا نام تبدیل کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ کسی بھی شہر کا نام تبدیل کرنے کے لیے متعلقہ ریاستی کابینہ فیصلہ لیتی ہے۔ اس کے لیے ریاستی مقننہ ایک قرارداد پاس کر کے مرکز کو بھیجتی ہے۔ اس کے بعد مرکزی کابینہ فیصلہ کرتی ہے کہ آیا آئینی ترمیمی بل کو پاس کیا جائے یا مسترد کر دیا جائے۔ کیونکہ اس کے لیے آئین ہند کے شیڈول نمبر ایک میں ترمیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بل کو منظور کروانے کے لیے اسے اکثریت سے پاس کرانا بھی لازمی ہوتا ہے۔اور اسی طرح کسی شہر کا نام تبدیل کرنے میں بہت زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف ایک شہر کی ملکی و عالمی شناخت کے لحاظ سے اسکا نام تبدیل کرنے کا جملہ خرچ تقریباً دو سو سے پانچ سو کروڑ روپے یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ یہ رقم روڈ بورڈنگ سسٹم، ہائی وے کے نشانات، مختلف نقشے، ریاستی سرکاری اسٹیشنری اور میونسپل انتظامیہ کو نئے نام کے مطابق اپ ڈیٹ کرنے پر خرچ کی جاتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023